رفاقت حیات کا ناول میر واہ کی راتیں

رفاقت حیات کا ناول میرواہ کی راتیں

رفاقت حیات کا ناول میر واہ کی راتیں

تبصرۂ کتاب از، خضر حیات

میں رفاقت حیات کو ان کے چند مضامین اور لالٹین ڈاٹ آرگ پہ چھپنے والی چند کہانیوں کی وساطت سے ہی جانتا تھا کہ وہ لکھنے والے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ ان کا ایک ناول بھی چھپ چکا ہے اور کہانیوں کا ایک مجموعہ بھی آ چکا ہے۔ مگر چُوں کہ میں نے نہ ناول پڑھا اور نہ کہانیوں کا مجموعہ میرے ہاتھ آیا تو میں انہیں آن لائن چھپنے والی ان کی کہانیوں اور مضامین کے حوالے سے ہی پہنچانتا تھا۔

کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی اور پھر انہوں نے اپنا ناول مجھے بذریعہ ڈاک لاہور بھجوایا۔ ناول کھولا، پڑھنا شروع کیا تو پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھ سکا۔ ناول میں اتنی طاقت موجود ہے کہ یہ پڑھنے والے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور ہر ختم ہونے والا پیرا گراف نئے پیرا گراف کے بارے میں بے چینی پیدا کر کے جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر آپ اگلا پیر اگراف پڑھے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ گرفت ایسی مضبوط ہے کہ ناول آپ کو آنکھ نہیں جھپکنے دیتا۔ سسپنس ہالی ووڈ کی فلموں جیسا جو لمحہ بہ لمحہ اشتیاق کے کٹورے کو بھرتا چلا جاتا ہے۔ کئی بار خواہش ہوئی کہ جلدی سے پتا چل جائے کہ آگے کیا ہونا ہے کیوں کہ صبر نہیں ہو رہا تھا۔

ناول میر واہ کی راتیں انسانی جسم میں جنسی خواہش کے بیج پھوٹنے سے لے کر اس کی تکمیل تک پہنچنے کی سعی کا ایک متاثر کُن نفسیاتی بیان ہے۔

ناول کے صفحوں میں کوئی منظر ادھورا نہیں پیش کیا گیا بَل کہ یہ کہوں گا کہ بھر پُور منظر کشی نے امیجز کو خوش رنگ جامے پہنا دیے ہیں۔ کردار جس لمحے میں ایک دوسرے سے مخاطب ہیں اس لمحے کے ماحول کی شکل و صورت کیسی ہے۔ آسمان کا رنگ کیسا ہے۔ ہوا چل رہی ہے یا بند ہے۔ ارد گرد آوازیں ہیں یا خاموشی۔ موسم کس طرح کا ہے۔ دن یا رات کا کون سا لمحہ ہے۔ بیک گراؤنڈ میں جلال چانڈیو کی آواز میں جو گانا چل رہا ہے وہ کیسا سماں پیدا کر رہا ہے۔ منظر نگاری پہ خاص توجہ دی گئی ہے جو ہر جگہ نظر آتی ہے۔

پھر ناول کے ایک منظر میں جب دو مرکزی کردار جنسی اختلاط کے نشے میں بے سدھ ہوئے جا رہے ہیں تو اچانک ایک بِلّی اس منظر میں آ ٹپکتی ہے اور جنسی فعل نا آسودگی پر مُنتج ہوتا ہے۔ بلی کو یہاں آنا ہی چاہیے تھا ورنہ یہ ناول کسی اور طرح ختم کرنا پڑتا اور ممکن ہے کوئی دوسرا اختتام پورے ناول کا مقدمہ ہی کمزور کر دیتا۔

بلی نے نا آسودگی، عدم طمانیت، ادھورے پن اور قلق جیسے جذبات مرکزی کردار کے دل میں پیدا کیے جن کی بنیاد پہ وہ اپنی مردانگی کے بارے میں متشکّک ہو گیا۔ اس پچھتاوے میں اعلٰی ادب کی جھلک ملتی ہے۔ اس لمحے سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے منظر نامے بھی ذہن سے ایک خیال کی رَو بن کر گزرتے ہیں۔

جنسی خواہشوں کے احساس کو بغیر لگی لِپٹی کے، بغیر کسی مبالغے اور رنگ آمیزی کے عین اسی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو اس احساس کی فطری صورت ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے مجھے منٹو یاد آ گیا تھا۔

پھر ناول میں بیان کردہ کیفیات ہر انسان سے متعلق ہیں۔ جوانی کے پہلے زینے پر جب قدم رکھا تھا تو اس دوران اپنے اندر اٹھنے والی نئی ترنگ کو جس طرح محسوس کیا تھا وہی کیفیت یہاں بھی موجود ہے۔ کہانی آپ کو اپنے ہی جنسی اور نفسیاتی روّیوں کے متعلق کلام کرتی معلوم ہوتی ہے۔

یہ اس باب کا قصہ ہے جس سے متعلق بات کرنا غیر مہذب فعل تصور کیا جاتا ہے۔ مگر ادیب کو کسی مہذب اور غیر مہذب ناپ تول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہیے، اسے وہ سب کچھ لکھنا چاہیے جو وہ محسوس کرتا ہے یا جو کچھ اس کے مشاہدے میں آتا ہے۔

ناول میں اندرونِ سندھ کا مزاج، ثقافت، رہن سہن، طور اطوار اور رنگ ڈھنگ بڑی خوب صورتی سے موجود ہیں۔ دیہاتی سماج اور ذہن کی توہم پرستی کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ مگر ایک بات کھٹکتی بھی ہے کہ توہم پرستی کا کسی نہ کسی طرح ناول نے جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نذیر کو لگ رہا تھا کہ آج کی رات کچھ غلط ہونے والا ہے کیوں کہ اس سے قبل دو مختلف طرح کے بُرے شگون ظاہر ہو چکے تھے۔ آگے چل کر اس رات میں واقعی کچھ غلط ہوگیا اور یہی محسوس ہوا کہ بُرے شگونوں کا یہ منطقی نتیجہ ہے۔

یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناول نگار نے صورتِ حال ویسی ہی دکھانا چاہی ہو جیسی کہ وہ حقیقت میں ہے اور انہوں نے خود کو اصلاحِ کار بنانا بالکل غیر ضروری سمجھا ہو۔ بہ ہر حال اس صورتِ حال میں واہموں کو ایک واقعے کی پیش گوئی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔


مزید و متعلقہ: پاکستانی معاشرے کے کرب کا دستاویزی بیانیہ  تبصرۂِ کتاب از، غلام حسین ساجد

ناول میرواہ کی راتیں: پڑھت کی قوت اور کردار  از، رفیع اللہ میاں


پاکستان میں اس ناول کو سانجھ پبلی کیشنز نے چھاپا تھا اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ میرے پاس ناول کی جو کاپی پہنچی ہے اسے بھارت سے عرشیہ پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ دہلی سے چھپنے والے ناول کی کتابت 158 صفحات پر مشتمل ہے اور اس مختصر سے ناول میں حیرت انگیزیوں کا ایک سیلابِ رواں پایا جاتا ہے۔

ناول کی کہانی، کہانی کا موضوع، نثر لکھنے کا انداز اور کہانی کہنے کا کَسا کَسایا انداز دیکھ کے کہوں گا کہ رفاقت حیات صاحب کو مزید لکھنا چاہیے۔ ان کے اگلے ناول اور کہانیوں کے مجموعے کا انتظار رہے گا!

***