ووٹ کا ویٹ (انشائیہ)
از، نسترن احسن فتیحی
آپ سوچ رہے ہوں گے… یہ کیا بات ہوئی !۔۔۔ ’’ ووٹ کا ویٹ‘‘۔ آخر یہ کیا ہے…؟ مضمون ہے…؟ انشائیہ ہے؟ افسانہ ہے؟ اب یہ جو کچھ بھی ہے، ہے تو اردو میں ہی، تو بھلا انگریزی کے اس لفظ ’ویٹ‘ کو یہاں گھسیٹ لانے کی کیا ضرورت تھی۔ اُردو کا ہی لفظ لیا جاتا تو بات صاف ہو جاتی۔ یعنی اگر اس ویٹ سے انتظار مراد ہے تو… ’ووٹ کا انتظار‘ لکھا جا سکتا تھا۔ اگر وزن مراد ہے تو ’ ووٹ کا وزن‘ نام دیا جا سکتا تھا اور اگر اس کے لفظی مفہوم سے گریز کرتے ہوئے ذرا گہری نظر ڈالنی ہے تو اسے وقار یا اہمیت کے معنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے تو ’ووٹ کا وقار‘ ہی کہہ دیا جاتا۔
مگر یہ ویٹ جو بھی ہو، ہے ایک حقیقت اور یہی حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ چوں کہ آج کل یہ رجحان غالب ہے کہ لکھنے والے کی یہ پروبلم نہیں کہ وہ سوچے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ یہ مسئلہ قاری کا ہے کہ وہ رد و تشکیل کے عمل سے گزر کر خود مفہوم تک رسائی حاصل کرے۔ اس لیے یہ فیصلہ آپ کیحیے کہ اسے کس خانے میں ڈالیں گے۔ مجھے تو اصل بات کی طرف آنے دیجیے۔
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ الیکشن کا موسم پھر آ گیا۔ موسم کا تو کام ہی ہے پلٹ پلٹ کر آنا ہے سو وہ آئے گا ہی مگر موسم کا اپنا ایک قانون بھی ہے سال میں ایک ہی بار وہ اپنی باری کا انتظار کر کے آتا ہے۔ اُف توبہ۔۔۔ ابھی تو الیکشن کے موسم کی بات کرنی ہے اور میں اس سے بھٹک کر قدرتی موسم کی بات کرنے لگی۔ شکر ہے موسم نے ابھی اپنا قانون نہیں توڑا ہے۔ مگر اس الیکشن نے تو پچھلے چند سالوں سے سال میں تین بار اُپجائے جانے والی سبزیوں کی کاشت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے۔
جی ہاں پہلے سال میں کوئی بھی سبزی۔ خواہ وہ ٹماٹر ہو یا گوبھی، مٹر ہو یا گاجر، ایک بار اپنی بہار دکھاتی تھی۔ زبان کا ذائقہ کیا تراوٹ پاتا تھا۔ ہر چیز کا بس اپنا مزہ تھا، جس دن گوبھی کی سبزی، یا میتھی کے پراٹھے بن جائیں گھر کی پوری فضا مُعطر ہو جاتی تھی۔ گاجر کا حلوہ، نام آتے ہی بس پوچھیے مت خوشی سے چہروں پر گاجر کا رنگ آ جاتا تھا۔ اور ان چیزوں میں جو صحت بخش عنصر شامل ہوتے تھے، اب کہاں، اب تو ہر تیسرے مہینے دکانوں پر ساری سبزیاں نظر آ جاتی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ سنیے۔۔۔ اس دن میں اپنے یہاں آئے ہوئے رشتے کے ایک چچا کے ساتھ سبزیاں خریدنے بازار گئی تو میرے ضعیف العمر چچا نے کہا: ’’بیٹی۔۔۔ آج تم نے میری گرم جرسی نہیں پہنائی۔ پھر بھی مجھے سردی نہیں لگ رہی ہے،‘‘ تو میں نے کہا، ’’چچا جان بھلا اس گرمی کے موسم میں آپ کو سردی کیوں لگنے لگی۔‘‘ تو وہ چونک کر بولے۔
’’آں… ہاں۔۔۔ یہ تو گرمی کا ہی موسم ہے مگر پھر یہ گوبھی، گاجر، ٹماٹر کی بہتات سبزی منڈی میں کیسے۔۔۔؟ یہ تو جاڑے کے موسم کی بہار ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’چچا جان… اب جو سبزی میں آپ کو کھانے کا پرانا مزہ نہیں ملتا ہے نا۔۔۔ وہ ہم عورتوں کا کھانا پکانے کے شوق سے بد دلی نہیں بل کہ یہی وجہ ہے کہ ہر چیز کی کاشت سال میں ایک بار کے بجائے تین بار ہونے لگی ہے۔ کھاد ڈال کر ان کے سائز اور صورت کو جتنا بھی نکھار لو، ان کی سیرت کے کھوکھلے پن سے تو ہر کوئی جوجھ رہا ہے۔‘‘
لیجیے جناب اب میں پھر ایک نئی ڈگر پر بھٹک گئی۔۔۔ کیا کریں ’ووٹ میں ویٹ‘ ہو تب ہی تو اس مُدے پر ٹِکیں۔ بہ ہر حال بات ہو رہی تھی الیکشن کی یعنی ووٹ کی۔ تو جب الیکشن کا موسم بے موسم کی سبزی کی طرح ہمارے سر پر آہی گیا ہے تو ظاہر ہے یہ صحت بخش بھی نہ ہو گا، مگر اب اس سے نبٹنے کے علاوہ چارہ بھی کیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ا الیکشن کمیشن کا جس نے پچھلی دفعہ غلط قسم کے پرچار پر ،وچار کر کے روک لگا دیا ہے، ورنہ ہندوستان کی آدھی آبادی ہرسال ہونے والے الیکشن کی چیخ و پکار سے بہری ہو جاتی تو ان نیتاؤں کا بھاشن کون سنتا۔ اس لیے باقی آدھی آبادی تو الیکشن میں لڑنے کھڑی ہو جاتی ہے۔
مزید دیکھیے: ووٹ کی طاقت
اب ہر نیتا اپنے اپنے وِچار کے پرچار کے لیے ٹی وی کا استعمال کرتا ہے تا کہ گھر گھر اس کی آواز پہنچ سکے۔ اور اب بے چارے، ہندوستانی اس پرچار سے تنگ آ جائیں تو اپنا غصّہ نیتا جی کے کان اینٹھ کر تو نہیں کر سکتے مگر اپنے ریڈیو، ٹی وی کے کان تو بہ خوشی اینٹھ سکتے ہیں۔ پھر بھی ان ساری باتوں کے با وجود ہر پارٹی کے وچار چاہے، انچاہے ہم تک پہنچے تو ہمارے اپنے ذہن میں بھی وچاروں کی ہانڈی پکنے لگی۔ اور میں نے سوچا کہ اس بار اگر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرو ں تو روز روز کی اس جھنجھٹ سے چھٹکارا ملے گا اور یہ خیال آتے ہی میں خود کو مجرم سمجھنے لگی۔
مجھے لگ رہا تھا کہ اتنا پڑھ لکھ کر اپنے حق کا استعمال نہ کرنا یقیناً جہالت ہے اور مجھ سے بہتر تو گاؤں کی وہ نا خواندہ عورتوں ہیں جو نہ جانے کتنی مشکلوں سے اتنی دور دور سے ووٹ ڈالنے چلی آتی ہیں۔ اگر ہم سو کالڈ پڑھے لکھے لوگ پولنگ والے دن چھٹی کا پورا مزہ ا ٹھاتے ہوئے مُنھ لپیٹ کر نہ سوئیں تو شاید ملک کو ایک اسٹیبل گورنمنٹ ہی مل جائے۔
مگراس نقار خانے میں طُوطی کی آواز سنتا ہی کون ہے۔ جب نیتاؤں کی ہی کوئی نہیں سنتا۔ بہ ہر حال اس کا م پر دور درشن والوں نے پہلے ہی کمر کس رکھی ہے، اسی لیے طرح طرح سے دور دور کی کوڑی لا کر آپ کو درشن کرواتے ہیں۔ اور کیسے کیسے سروے کرکے آپ کے کنفیوژن کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ تا کہ اگر آپ میں سوچنے سمجھنے کی ذرا بھی صلاحیت ہے تو وہ بھی مفقود ہو جائے۔
مگر میں نے حتمی ارادہ کر لیا تھا کہ میں ووٹ ضرور دوں گی۔ اور پہلے دو الیکشن میں تماش بِین کی طرح پوپ کورن کھاتے ہوئے ٹی وی پر سارا تماشا دیکھا تھا۔ مگر تیسری بار خود اس کا حصّہ بننا چاہتی تھی، ملک کے تئیں اپنا فرض ادا کرنا چاہتی تھی۔ ووٹ دینے کا خیال آتے ہی سب سے پہلی پریشانی یہ ہوئی کہ ووٹ کسے دوں؟ سب کا بھاشن نہ چاہ کر بھی سن چکی تھی۔ نہ جانے نیتاؤں کی تقریر میں میں کیا تلاش کر رہی تھی مگر کسی نے مجھے متاثر نہ کیا۔ سب کے اپنا مستقبل سنوار نے کی زیادہ فکر تھی، اسی لیے اب عمر اور تجربے سے متاثر ہونے کا قطعی ارادہ نہ تھا، وعدوں پر اعتبار نہ تھا۔ البتہ ارادوں کا پتا ضرور تھا۔
سب کے ارادے الگ الگ تھے۔ تیور بھی الگ الگ تھے۔ مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ سب میں ایک بات بڑی مُشابِہ تھی۔ ان کے جسموں پر کرتا کھادی کا ہو یا سلک کا۔۔۔ ان کے ہاؤ بھاؤ بتاتے تھے کہ ان کی کھال بہت موٹی اور چکنی ہے۔ شاید مکھن کی مالش سے کھال موٹی اور چکنی ہو جاتی ہو۔
خدا خدا کر کے پولنگ والا دن آ گیا۔ چوں کہ میں کوئی فیصلہ نہ کر سکی تھی کہ ووٹ کسے دوں اس لیے سوچا محلے والوں پر نظر رکھوں کہ ان کا رجحان کدھر ہے، اسی لیے یہ طے کیا کہ آس پاس کے لوگوں کے ساتھ ہی ووٹ دینے جاؤں گی، اس طرح سب کے ساتھ قافلے کی شکل میں نکلی اور گھر کے پاس والے موڑ پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ووٹرز کی آسانی کے لیے کئی پارٹی کی گاڑیاں سڑک پر دوڑ رہی ہیں۔ او ر ابھی میں یہ سوچ رہی تھی کہ ان سیاسی پارٹیوں کو عوام کی دوسری تکلیفوں اور پریشانیوں کا احساس اتنی جلدی کیوں نہیں ہو پاتا کہ ایک بھیڑ کے دھکے کے ساتھ میں ایک ماروتی وین میں چڑھ گئی، یا یوں کہیے کہ چڑھا دی گئی۔
محلے کی بہت سے امائیں بھی ساتھ چڑھ چکی تھیں اس لیے چپ چاپ بیٹھ گئی۔ ہمارے بیٹھنے کے بعد کچھ خواتین نُما حضرات بھی اس میں جگہ پا گئے۔ ان کی پاچھیں یوں کھلی پڑ رہی تھیں، جیسے اپنی بھائی کی بارات میں جا رہے ہیں اور مجھے لگ رہا تھا کہ ہم لوگ سرکس کے جانور ہیں جنھیں ایک گاڑی میں بھر کر کرتب دکھانے لے جایا جا رہا ہے۔ کیوں کہ وین کے چلتے ہی اس میں بیٹھی اماؤں کے بچے جو سڑک پر چھوڑ دیے گئے تھے ہلڑ مچاتے ہوئے کچھ دور تک وین کے پیچھے بھاگتے ہوئے آ گئے، پھر پیچھے چھوٹ گئے۔
پولنگ بوتھ پر پہنچتے ہی کچھ لوگ وین سے اترنے والوں کے آگے پیچھے لگ گئے۔ اور کان میں سر گوشیاں کرنے لگے۔ آپ کو نام چاہیے؟ ادھر آئیے… نام لیجیے۔۔۔؟ عورتیں گروپ کی شکل میں بَٹ گئیں اور ان کے ساتھ جانے لگیں میں تنہا کھڑی رہ گئی کہ کدھر جاؤں۔۔۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا مگر جلد ہی سمجھ گئی کہ مختلف پارٹیوں کے لوگ الگ الگ جگہ پر بیٹھے ووٹ دینے والوں کو نام دے رہے تھے۔ اور اُمید کر رہے تھے کہ انھیں ہی اس نام کا ووٹ ملے۔
بات سمجھ میں آنے پر میں بڑے کانفیڈنس سے اس طرف گئی جہاں ووٹرز لسٹ لیے ایک آدمی بیٹھا تھا۔ اس ٹیبل پر پہنچ کر میں نے ووٹرز لسٹ میں اپنا نام دیکھنے کے لیے کہا۔ مگر میری اس بات پر اس آدمی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور ایسے مجھے نظر انداز کر دیا جیسے میں مخبوط الحواس ہوں۔ تب ایک آدمی کسی طرف سے میرے قریب آ کر بولا، آپ ادھر آئیے… میں اس کے پیچھے گئی۔ وہ ایک درخت کے پاس مجھے لے گیا۔ وہاں زمین پر کچھ لوگ ایک لسٹ لے کر بیٹھے تھے اور ان کے چاروں طرف عورتیں ٹوٹی پڑ رہی تھیں۔
اس آدمی نے کہا یہاں آپ کو نام مل جائے گا۔ میں نے شکر گزار نگاہوں سے اسے دیکھا اور اس کوشش میں لگ گئی کہ لسٹ والے آدمی تک رسائی حاصل کر سکوں مگر مجھے کچھ انتظار کرنا پڑا۔ عورتیں اپنا اپنا نام لے کر ہٹ رہی تھیں، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سب بار بارا پنا نام رٹ رہی ہیں۔ آخرِ کار میری رسائی بھی اس فہرست والے آدمی تک ہوئی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی اس نے کہا، ’’ میڈم، ایک ہی نام بچا ہے یہی لے لیجیے۔ جلدی سے ووٹ دے کر آ جائیے گا، کوئی دھیان نہیں دے گا۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘
تو اس نے کہا۔ ’’در اصل جو نام بچا ہے اس کی عمر ہے بیس سال۔ مگر آپ اب یہی لے لیجیے۔‘‘ اور اس طرح ایک پرچی پر اس نے مجھے وہ نام پکڑا دیا اور میں بے وقوف کی طرح دیکھتی رہ گئی، کہ اپنی عمر سے آدھی عمر والی لڑکی کے نام پر مجھے ووٹ دینا تھا۔ میرا نام تو نا جانے کہاں گُم تھا؛ ممکن ہے اس بیس سال والی لڑکی کے پاس ہو۔ مگر اتنا سمجھ میں آ رہا تھا کہ آپ کے پاس ووٹ ڈالنے کی فرصت ہو نہ ہو آپ کے نام سے ووٹ پڑ ضرور جاتے ہیں، خیر اب تو آ ہی چکی تھی اس لیے اپنا نیا نام رٹتے ہوئے میں ووٹ دینے کے آخری مراحل کی طرف چلی۔
میری سمجھ میں اب کچھ کچھ آ رہا تھا کہ یہ سب کیا چکر ہے، اور میں سوچ رہی تھی کہ کیا سب کچھ اس ملک میں کبھی آرگینائز نہیں کیا جا سکے گا۔ اور قوم کا بھلا کرنے کا جذبہ اس دھکم مکی میں کہیں گم ہو چکا تھا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ہر پارٹی کو ووٹ کے لیے ایک ہاتھ کی ضرورت تھی۔ اگر ان کا بس چلتا تو ووٹرز کو جمع کرکے لے جانے والی گاڑیاں صرف ہاتھوں کو بھر کر لے جاتیں اور ووٹ حاصل کر کے انھیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک آتیں، کیوں کہ اگلے الیکشن تک ہاتھوں کی نئی کھیتی پھر اُگ آتی۔
مگر افسوس کہ ایک ہاتھ کے ساتھ ایک سَر کی گنتی بھی ہو جاتی ہے، اور سر بھی ایسے ایسے جس میں بھُس نہیں بھرے ہیں۔ بل کہ وہ خود بھی سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔ اسی لیے تو نہ جانے ان کی گاڑیوں کا پیٹرول پھونکنے کے بعد اندر جا کر کس کے نام کے آگے ٹھپّہ لگاتے ہوں گے؟ کون جانے؟ مگر اس وقت تو مجھے فیصلہ لینا تھا۔ میری انگلی پر سیاہی لگانے والے آدمی نے ذرا بھُنوئیں سکوڑ کر کہا۔۔۔ ’’آپ کا نام؟‘‘
شکر ہے میرا نام زبان پر آتے آتے رہ گیا، اپنانیا نام میں بھول چکی تھی صرف عمر یاد تھی۔ تبھی اس کے قریب بیٹھے آدمی نے دھیرے سے کہا، ’’جانے دو اپنی ہی گاڑی پر آئی ہیں۔‘‘ جا یے،‘‘ اس نے پردے کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔ میں اندر گئی۔ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی تھی، تھوڑا سوچا۔ لگا باہر بیٹھے آدمی نے میرا کنفیوژن دور کرنے کے لیے اشارہ دیا ہے۔ جس وین پر آئی تھی اس پر لگا بیز یاد کیا، پھر دوسری پارٹی کی گاڑی کا بیز یاد کیا، دل میں ہم دردی پیدا کی (ویسی ہی ہم دردی جیسی ان قوم کے رہنماؤں کے دل میں الیکشن کے وقت ووٹرز کے لیے ہوتی ہے) اور اس طرح اپنی انصاف پسند طبیعت کے تحت دونوں نشانوں پر اس طرح ٹھپّہ لگا دیا کہ دونوں پر برابری سے آدھا آدھا بٹ جائے۔ اور واپسی میں اس وین میں نہیں بیٹھی جس سے آئی تھی بل کہ دوسری پارٹی کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
اور اپنے اس انصاف پر عش عش کر اُٹھی۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ ایسے ووٹ کا ویٹ ہی کسے ہے اور کتنا ہے۔
***