اندھے اخلاقی مقامات اور مستقبل کا لائحہ عمل
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عہد میں انسان اخلاقی اعتبار سے نا مکمل اور انحطا ط پذیر رہا ہے، اس کی کی شخصیت و کردار پر اخلاقی دھبے پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اسے اخلاقی لحاظ سے غلطیاں سر زد ہوتی رہی ہیں یہ وہ اخلاقی غلطیاں نہیں ہیں جن کو انفرادی لحاظ سے جرم قرار دیا جاتا ہے، بل کہ بہ حیثیت مجموعی ساری قوم اس میں شریکِ کار بھی رہی ہے اور ہر عہد کا اخلاق آئندہ آنے والے دور میں چیلنج بھی ہوتا رہا۔ مگر اس کے سدھار اور اصلاح کے لیے مصلحین اور معلمین اخلاق بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
انسانی اخلاق جو اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے، بدی کی بجائے نیکی کو پسند کرتا ہے، نا انصافی کے بر عکس عدل کو ترجیح دیتا ہے، بد دیانتی کی بجائے دیانت داری کو اہمیت دیتا ہے۔ بد صورتی سے زیادہ حسن و خیر کو پسند کرتا ہے، ہمیشہ ایک مفید قدر کا انتخاب کرتا ہے، دوسروں کی آزادی اور پسند کا احترام کرتا ہے۔
قانونی اور سماجی اقدار کی پاس داری سے بھی زیادہ اس کا تعلق ایمان اور روح کی پاکیزگی سے ہوتا ہے، کیوں کہ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اس بِناء پر اخلاقی اقدار اور اجتماعی معاشرتی روح کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جو انسان معاشرتی تعاملات، مشاہدے و تجربے، مشق و عمل کے ذریعے کسی مفید شے کا اپنے لیے انتخاب کرتا ہے وہ ایک اخلاقی قدر بن جاتی ہے، اپنی ترقی یافتہ شکل میں اخلاق جمالیات کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ انسانی فکر اور ضمیر کی ایک نہایت ترقی یافتہ اور نفیس صورت ہوتی ہے جو عمل میں ڈھل کر خیر، حسن اور خوش بو بن کر مہک دینا شروع کر دیتا ہے بعض مفکرین کے نزدیک یہ ایک خلقی وصف ہے، جس کو ضمیر کی آواز کہتے ہیں۔
مثالیت پسند اس کا تعلق مذہب اور ما بعد الطبعیات سے منسلک کرتے ہیں، تجربیت پسند ضمیر کو قوت ممیزہ سے تعبیر کرتے ہیں جو تجربے و مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے، معلمینِ اخلاق کے نزدیک زیادہ سے زیادہ خیر دوسروں کے لیے اخلاقِ فاضلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اگر اخلاقی صفت خلقی ہوتی تو قدیم دور کے معاشروں میں وحشت کیوں زیادہ تھی مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا اخلاق ہر عہد میں رُو بہ زوال کیوں رہا ہے۔ قدیم روم میں غلام کھیل کی شکل میں آپس کی لڑائی میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ دیتے تھے۔ اشرافیہ و عوام اسے لطف اندوز ہوتے تھے۔ غلامی کوئی بری چیز نہیں تھی، عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں تھے۔ بل کہ ارسطو بھی عورت کو مرد کے برابر نہیں سمجھتا تھا۔
مذہبی عقاید پر سوال کرنے والوں کو راندۂِ درگاہ سمجھ کر قتل کر دیا جاتا تھا۔ دوسرے مذاہب کا خاتمہ اور نسل کشی جائز تھی۔ بُردہ فروشی کے کار و بار کی ممانعت نہیں تھی۔ لونڈیوں اور غلاموں سے متمتع ہونا جرم نہیں تھا۔ ہندو مذہب میں عورت کو اپنے خاوند کی موت کے ساتھ خود جل کر مرنا ہوتا تھا یہ وہ ا خلاقی دھبے ہیں جو ہمارے آبا و اجداد کو نظر نہیں آتے تھے، اور ساری قوم اس میں شریک تھی۔ ظلم و نا انصافی پر ان کا دل ملول نہیں ہوتا تھا۔
زمانہ کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہی اور ہر عہد کے اخلاق کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور مشق و عمل کے ذریعے اصلاح کا عمل بھی جاری رہا، انسانی ضمیر خلقی نہیں معاشرتی تجربات و آموزش کے ذریعے پالش ہوتا رہا، اگر یہ خلقی ہوتا تو قدیم دور کا انسان اتنا وحشی کیوں تھا۔ انسان اور معاشرہ کتنا ہی تبدیل کیوں نہ ہو جائے، پرانی اقدار کی جگہ نئی اقدار کیوں نہ جگہ لے لیں لیکن کچھ انسانی جبلتیں ہمیشہ قائم رہیں گی جن میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون، مدد، مشکل میں گرے ہوئے انسانوں کی مدد وغیرہ، کیوں کہ معاشرے کا استحصال کرنے والا سرمایہ دار بھی قحط و زلزلہ کے شکار لوگوں کی مدد کر دیتا ہے، مگر اس کے لیے ایک عالم گیر اخلاق کی ضرورت ہے جو عالم گیر نظامِ حکومت قائم کیے بغیر نہیں بن سکتا۔
اس بنا پر تدریجی ارتقاء پر ہر سماج کو اپنی قدر کا تعین اور انحصار کرنا پڑے گا، کیوں کہ اکثر اخلاقی و سماجی قدریں تغیر پذیر ہوتی ہیں اور ان کے سامنے ہم بند نہیں باندھ سکتے، صنعتی ترقی کا اخلاق زرعی عہد کے اخلاق سے مختلف ہے۔ سعودی عرب میں عورتوں کا ڈرائیونگ کرنا اور چہرہ ڈھانپے بغیر چلنا ممنوع تھا، مگر اب وہ سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے، ایشیا میں سر ڈھانپنا اور مغرب میں سر کو ننگا رکھنا ادب کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
ایک وقت میں انگلستان میں انسانی گوشت فروخت ہوتا تھا۔ اب اس کے بارے میں کوئی سوچ نہیں سکتا۔ اب مغربی ممالک میں سور کا گوشت کھایا جاتا ہے مگر ایک لبرل اور گناہ گار مسلمان اس کو کھانا پسند نہیں کرتا۔ چین مین بوڑھے افراد کے لیے کفن ان کے مرنے سے پہلے تیار ہو جاتا تھا اور اس کو زندہ در گور کر دیتے تھے کہ اب وہ مفید نہیں رہا۔
اب وہ قدریں تبدیل ہو چکی ہیں۔ جدید صنعتی معاشروں میں بغیر شادی کے زندگی بسر کرنا ایک معیاری زندگی سمجھا جاتا ہے، جب انسان نے دیکھا کہ شادی ایک طوق غلامی سے کم نہیں تو اس نے تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ کیوں کہ زرعی معاشرے میں خاندان اور فرد کا اوڑھنا بچھونا شادی ہی ہوا کرتی تھی، جنسی تسکین کے لیے عورت بازار میں میسر نہیں تھی، مگر صنعتی معاشرے میں عورت کی دست یابی آسان ہو گئی ،ضبطِ تولید کا سامان بھی دست یاب ہو گیا، رنڈی بازی سے بھی جان چھوٹ گئی۔ کیوں کہ شادی سے پہلے عورت کا جنسی عمل سے گزرنا عام سی بات ہو گئی ہے، پھر فرد خاندانی بندھن سے آزاد ہو گیا خود کماتا اور کھاتا ہے۔
عفت و پردے کا زرعی تصور بھی ختم ہو گیا، ایک تو معاشرتی تحفظ حاصل ہو گیا ،دوسرا ٹیکنالوجی نے چادر و چار دیواری کے تقدس کو پا مال کر دیا ہے، اگر کوئی شادی کرنا بھی چاہتا ہے تو ایک طویل عمر کا حصہ گزرنے کے بعد باری آتی ہے۔ جزو وقتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اپنی بیویوں کے تبادلہ اور اپنی بیوی کی تسکین کے لیے کرائے کے نو جوان کا بند و بست کرنے میں مغربی خاوند ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ایڈوانس معاشروں اور طبقات میں لڑکے اور لڑکیوں کی دوستی معاشرتی اقدار بن چکی ہیں، لڑکی بوائے فرینڈ کو اپنے گھر خوشی سے لا سکتی ہے جب کہ ،زرعی عہد میں دو شیزہ کو سورج کی آنکھ بھی نہیں دیکھتی تھی۔
اب جنسی عمل کھانے پینے کی طرح ایک عام فطری عمل سمجھا جاتا ہے۔ جوں جوں صنعتی ترقی کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے پرانے اخلاق کی جگہ نئے نظام اخلاق کی داغ بیل پڑ رہی ہے۔ اب اگر کچھ فلسفۂِ اخلاق کی مستقل قدر باقی بچی ہے تو وہ انسان دوستی ہی ہے۔ کیا مغربی ممالک میں بسنے والے ایشیائی اور مسلمان باشندے اپنی زرعی اور اسلامی اقدار عزت و ناموس، برادر ی و کنبہ میں شادیاں، رسوم و عبادات وغیرہ کو قائم رکھ سکیں گے،یہ ایک خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔
وقت کے دھارے میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ انسانو ں کو اخلاق کی وہی صور ت قبول ہو گی، جس میں ان کا استحصال نہ ہو، کیوں کہ اخلاق دولت و طاقت کی نا ہمواری کو قبول نہیں کرتا۔ ہمیں ان بدلتی ہوئی قدروں پر ماتم کرنے کی بجائے سماجی انصاف اور طبقاتی تفریق کی خلیج کو کم کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنا ہوں گی۔ جہاں آزادی کے ساتھ ہر انسان بلند اخلاقی اقدار او ر آدرشوں کے ساتھ رہ سکے۔
ہمیں اپنے سماج میں اندھے اخلاقی نقاط یا دھبے ہر جگہ نظر آتے ہیں، جن کی انسانی عقل تائید نہیں کرتی، مگر خاموشی سے ہم ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے معاشرتی نا ہمواریوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جس ملک کی سیاسی معاشیات جتنی زیادہ نا ہموار ہو گی وہاں اخلاقیات کا زیادہ فقدان ہو گا اور اخلاق کے سیاہ اندھے دھبے نظر آئیں گے۔ اخلاقی بحران کی سب سے بڑی وجہ معاشی نا آسودگی کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسی فضا اور محرکات کا جب تک خاتمہ نہ کیا جائے، اخلاقی تنزل بڑھتا رہے گا۔
اعلیٰ انسانی اخلاق اور قوت فکر طبقات کے درمیان وسیع خلیج کو کبھی قبول نہیں کرتی۔ فکری مغالطے اور تعصبات علمی ماحول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک خاص برادری و گروہ میں رہنے والے کا ذہنی افق اتنا وسیع نہیں رہتا وہ کنویں کا مینڈک بن جاتا ہے۔ وہ اپنے مفاد اور تحفظ کے لیے متعصب بن جاتا ہے اور تعصب علم کا دشمن ہے جس سے اخلاقی اندھے پن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیوں کہ وہ انسانوں کے لیے سوچ نہیں رہا ہوتا ہے بَل کہ اس کی سوچ محدود ہو کر رہ جائے گی۔
اخلاقی اندھے پن کی ایک بڑی وجہ خوف اور معاشرتی قدغنیں بھی ہوتی ہیں۔ معاشرتی رسم و رواج کی بے جا پابندی انسانی فطرت کے خلاف ہے، جہاں انسان ذہنی و نفسیاتی لخاظ سے گھٹ جاتا ہے۔ اس کی فطری آزادی سلب ہو جاتی ہے، جبر و خوف کی فضا میں غیر اخلاقی اور غیر علمی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ ایک مخصوص استحصالی طبقہ حکمرانی کے لیے پیدا ہو جاتا ہے، جہاں انسانوں کی محرومیوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
اس کے بر عکس اہلِ ہوس سنگھاسن پر براجمان نظر آتے ہیں۔ وہ معاشرے میں ایسے ٹیبو کو پروان چڑھاتے ہیں، جہاں نسلی اور علاقائی سیاست ،مذہبی منافرت، فرقہ واریت۔ منافقانہ رویے، خاندانی اشرافیہ کے اقتدار کو مفاداتی سیاسی گروہوں کے ذریعے دوام بخشتے ہیں۔ معاشرتی ترقی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔ غربت، نا انصافی اور محرومیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
معاشرے میں عام فرد احساس بیگانگی اور تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اخلاقی اقدار صبر و شکر، تسلیم و رضا اور خوف و غلامی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح اندھے اخلاقی دھبوں سے عوامی ذہن پراگندہ ہو جاتا ہے۔ صحیح اور غلط کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ اخلاقی طور پر زوال پذیر معاشروں میں سماجی برائیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اندھے اخلاقی دھبوں اور نشانات کی خوف کے مارے کوئی نشان دہی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
واعظ اور مصلح بھی اہل اقتدار کی صف میں کھڑے ہو کر ان کی ہم نوائی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اخلاقی بحران جس کا سبب بالائی مقتدر طبقہ ہوتا ہے،جب تک وہ اپنے قول و فعل اور معیار میں عوامیت کا لبادہ نہیں پہنتا اور اپنے اپ کو رول ماڈل کے طور پر پیش نہیں کرتا، سماج میں اخلاقی بحران کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرہ کتنی ہی مادی ترقی کیوں نہ کر لے، جب تک قوموں کا اخلاق بلند نہیں ہوتا اور اپنے لیے بلند وہ اعلیٰ اخلاقی و سماجی وعلمی اقدار کا انتخاب نہیں کرتے۔ ان کی روح بیمار رہے گی۔
انسان نے برائی کو ہر حال میں برائی کہنا پڑے گا۔ اخلاقی اقدار کتنی ہی متغیر اور اضافی کیوں نہ ہوں مگر ہر عہد کا پھر بھی ایک اخلاق ہوتا ہے۔ جس کا تعلق جذبہ و احساس، عقل و فکر اور مروت سے ہوتا ہے۔ ہم انسان کو مکمل کل و پرزوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔ ماحولیاتی آلودگی اور موسموں کی تبدیلی، تیسری دنیا کی معیشتوں پر مغربی سرمایہ دار ممالک کی یلغار، جنگیں، محکوم و مظلوم قوموں کی حقِ خود ارادیت کا مسئلہ، انسانوں کی ہجرت، غربت اور وسیع طبقاتی خلیج، آبادی میں اضافہ اور دوسری طرف بد عنوانی و بد دیانتی پر قائم روایتی اشرافیہ کا کلچر پر خاموشی اختیار کرنا اتنا ہی بڑا اخلاقی جرم ہے جتنا قدیم روما میں کھیل کے دوران غلاموں کے گلے کاٹنا بڑا جرم تھا مگر اس کو کوئی برا نہیں مانتا تھا۔
اس عہد کے فلسفی بھی اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے، جس طرح آج ایک بڑا سیاسی طبقہ پاکستان میں ان اخلاقی برائیوں کے جواز میں دلیلیں گھڑ رہا ہے۔ کیا ہمیں سماج میں یہ اندھے اخلاقی نشان نظر نہیں آتے۔ کیا ہم ان کی نشاندہی کر کے اس کے خاتمہ کے لیے جد و جہد نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں کاہلی و سستی اور ہمت کے فقدان کی وجہ سے انسان ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے، باہمت انسان ہی اخلاقی طور پر بلند ہو سکتے ہیں جن کے اندر جراتِ رندانہ ہوتی ہے، ورنہ بز دلی و منافقت آدمی کو اخلاق سوزی کا عادی بنا دیتی ہے۔
ایمان اور اخلاق کا آپس میں گہرا تعلق ہے اسلامی آئیڈیالوجی کے تحت بھی ایمان کے تین درجے ہیں۔ بڑا درجہ برائی کو قوت کے ذریعے ختم کرنا، دوسرا درجہ زبان کے ذریعے مذمت کرنا اور تیسرا درجہ خاموشی اختیار کرکے دل میں برا ماننا۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ میں اخلاق کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ یعنی عقل و وحی کے ذریعے حق و سچ کی تائید و تصدیق۔
دین اسلام کا فکری مِحوَر و مرکز ہی انسانی اخلاق و کردار کی تعمیر و تشکیل ہے۔ اعمال پر نیت کو فوقیت دی گئی ہے، جب تک نیت درست نہیں بہ ظاہر اعمال کی کوئی اہمیت نہیں یعنی باطن کی صفائی اور راست فکری ایمان و اخلااق کی اساس ہے۔ بقول شاہ ولی اللہ اخلاق فاضلہ ہی وہ صفت یا قدر ہے جو انسان کو جانور سے ممیز کرتی ہے، یعنی ظلم کے مقابلے میں صبر و استقامت و رحم دلی، دولت کے ساتھ سخاوت، شہوت کے بر عکس عفت و حیا وغیرہ۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) فرماتے ہیں، اخلاق یہ ہے کہ آدمی اپنے اعمال کا صلہ نہ لے۔ امام جعفر فرماتے ہیں کہ بد خلق کو سرداری نہیں اور ملوک کو اخوت نہیں۔
کسی کی دل شکنی کرنا اخلاق کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے اور عزت نفس مجروح کرنا خاموش عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ فرمان نبیﷺ ہے جو کام سب سے زیادہ باعثِ مغفرت ہو گا وہ کشادہ روئی اور شیریں زبانی ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں، ادب بہترین کمالات اور خیرات افضل ترین عبادت میں سے ہے۔ ادب نرم گوئی اور شیریں زبانی ہاتھی کو گلے میں دھاگے سے باندہ کر کھنچ سکتی ہے۔ مکارم اخلاق میں ادب و احترام میں ایک روحانی کشش ہوتی ہے، جس سے دوسری روح کو تسکین و مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ادب و محبت کے اثر سے بڑے سے بڑا مادیت پسند بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اگر چِہ وہ اخلاقی اقدار کو ہمیشہ اضافی اقدار کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔
اخلاق و ادب اگر چِہ ذاتی و داخلی نوعیت کی چیز ہے مگر سماج کی عمارت اخلاقی اصولوں پر ہی قائم ہوتی ہے، اگر سارے لوگوں کے ضمیر مردہ ہو جائیں تو جنگل کا راج قائم ہو جائے گا۔ اندرونِ خانہ ضمیر قانون کی عمل داری کو یقینی بناتا ہے اگر اخلاقی قوت کمزور پڑ جائے تو ظلم و انصافی کی روک تھام صرف قانون کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔
جن قوموں کا اخلاق بلند ہوتا ہے وہاں جرائم کی شرح بھی کم ہوتی ہے اخلاق کا دائرۂِ کار انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔ سماجی، قانونی، اخلاقی اور نجی امور بھی اس کے احاطہ میں آتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت بلال (رض) نے خانۂِ کعبہ کی چھت پر اذان دی تو حضرت ابو زر نے غصہ میں کہا اے حبشن کے بیٹے، تو ایسے میں حضور ﷺ وہاں موجود تھے سن کر آپ نے فرمایا اے ابو زر تجھ میں ابھی تک جہالت موجود ہے۔ قوم و رنگ و نسل اضافی قدریں ہیں اصل قدر انسان اور اس کی عزت نفس ہے اس بناء پر اخلاق بھی اضافی قدر کو اہمیت نہیں دیتا۔ قریشِ مکہ کی عورت کے چوری کے واقعہ پر آپﷺ کا فرمان کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کی مرتکب ہوتی تو اس کو وہی سزا ملتی سے مترشح ہوتا ہے کہ قانون و اخلاق کا بھی کتنا باہمی تعلق ہے اگر اخلاق کو درمیان سے حذف کر دیا جائے تو طاقت ور طبقہ من مانیاں کرتا پھرے گا۔ جب طاقت و اختیار فرد کے پاس آ جاتا ہے تو اخلاقی قوت ہی اس کا بہترین استعمال کرنا سکھاتی ہے، ورنہ تعصب، مفاد اور خوف و منافقت سے معاشرے کی سفید اخلاقی چادر پر سیاہ دھبے پڑ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے باقی معاشرے کے افراد کاضمیر بھی مردہ ہو جاتا ہے۔
ترکی کے سلطان مراد کو معمار کا کام پسند نہ آیا تو غصہ میں اس نے معمار کا ہاتھ کاٹ دیا۔ عدالت نے فیصلہ میں سلطان کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو معمار نے بادشاہ کو معاف کر دیا۔ تو اس مقام پر اقبال نے اخلاق و نظام عدل کے حوالے سے کہا، خون شہ رنگین تراز معمار نیست، یعنی بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ قیمتی اور رنگین نہیں ہے۔
اس بنا پر نیکی و بدی، خیر و شر، ظلم و عدل، دیانت داری و بد دیانتی اور دیگر امور کے معاملہ میں انسان قانون سے زیادہ خلقی ضمیر کے تحت فیصلے صادر کرتے ہیں کیوں کہ انسانی ضمیر بہترین قوت فیصلہ کا حامل ہوتا ہے۔
عراق پر امریکی و برطانوی حملہ کے خلاف لندن میں لاکھوں لوگوں کا احتجاج انسانی ضمیر کی آواز تھی۔ اسی طرح کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ انسانی ضمیر و اخلاق کا مسئلہ ہے کہ کوئی انسان دوسرے انسان کے وجود و شعور کی آزادی کو سلب نہیں کر سکتا اور حق خود ارادیت انسانوں کا پیدائشی و فطری حق ہے اور اس حق سے ان کو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
اگر بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو انسانی اخلاق مسلسل ارتقائی مدارج طے کر رہا ہے اور انسانیت اپنی تکمیل کی طرف سفر کر رہی ہے،اگر چِہ تاریخ عالم کے صفحات پر سیاہ اخلاقی دھبے اب بھی موجود ہیں، جس کی مذمت آنے والی نسلیں بھی کرتی رہیں گی۔ جن کو فلسفہ کی زبان میں moral blind spot کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ان اندھے اخلاقی نقطوں کے خلاف بیداری کی مہم میں شامل ہونا سارے انسانوں کا اخلاقی فریضہ ہے، جس کے بغیر کبھی بھی بین الاقوامی اخلاق کی راہیں ہم وار نہیں کی جا سکتی۔