تصویر
افسانہ از، منزہ احتشام گوندل
آؤ، آؤ،
آؤ یہاں بیٹھو، اس صوفے پر، سفید بالوں والے پینسٹھ سالہ آدمی نے اس کو نشست گاہ کی دروازے کے سامنے والی، پچھلی دیوار کے ساتھ لگے صوفے پر بٹھا دیا، اور خود دو بارہ بغلی کمرے میں غائب ہو گیا۔
وہ خاموشی کے ساتھ سکڑ کر وہاں بیٹھ گئی۔ جب گُھنگھریالے سفید بالوں والا وہ پینسٹھ سالہ مصور دو بارہ نشست گاہ کی طرف لوٹا، تو وہ آس پاس کی دیواروں کا جائزہ لے چکی تھی۔ وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا، تو تیسری دیوار کی طرف گھورنے کا آپشن بھی ختم ہو گیا۔ اس کی نظر دو بارہ دائیں طرف والی دیوار کی طرف اٹھ گئی۔ شاہ کار تصویر تھی: برتھ آف اپالو؟ اس نے مصور کی طرف سوالیہ دیکھا۔ ہاں مصور کی نظروں نے اس کی نظروں کی متابعت کی۔
مگر کچھ تشنگی ہے، سر معاف کیجیے گا، وہ بد مزہ ہوئی۔
کیا تشنگی ہے؟ مصور کی آواز کے ساتھ ساتھ لہجے میں بھی مستی در آئی۔
اپالو… یونانی فنِ مصوری کا مرد، وجیہہ ‘مردانہ وجاہت کا نشان‘ تصویر کے اندر کامل عریانی کے ساتھ نیم دراز دکھایا گیا تھا۔ کُہنی کے بل، نیم دراز، کتابی چہرہ، گھنگھریالے بال، سنہری کھال، بھوری آنکھیں، گھٹا ہوا مضبوط بدن، بازوؤں اور رانوں کی مچھلیاں نمایاں، گٹار کے تار کی طرح تنا ہوا پیٹ، کلائیاں اور پنڈلیاں مضبوطی کی گواہی دیتی ہوئی، چیتے کے جیسی پتلی کمر، ریڑھ کی ہڈی کی طرف کھنچی ہوئی ناف، سب مکمل ہے مگر…
ہاں مگر کیا؟ مصور کی بھاری مخمور آواز ابھری۔
مگریہ کہ سر! وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور تصویر کے سامنے جا کر شہادت کی انگلی ’’اپالو‘‘ کے وسط میں رکھ دی۔ یہ کچھ نا مکمل، میرا مطلب ہے نا بالغوں جیسا… آئی مین سر۔ اپالو کے مکمل بالغ وجود کے ساتھ یہ عدم مطابقت ہے وہ چکرا گئی۔
ہوں…مصور بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا یہ اس کی معصومیت کے اظہار کے لیے کرنا پڑا۔
عجیب بات ہے۔ معصومیت کے اظہار کے لیے کس علامت کا سہارا لیا آپ نے سر! وہ دوسری طرف مڑ گئی
مقابل کی دیوار پر اس کی آنکھیں چپک گئیں برتھ آف وینس؟
ہاں
پانی میں نہا کر ساحل پر پاؤں دھرتی ہوئی وینس، جس کے بدن کی چادر ناف تک ڈھلک آئی تھی اور اوپر کا سارا بدن عریاں تھا۔ اعضاء کے تناسب کا شاہ کار… کہ آج تک دنیا میں مقابلۂِ حسن کے لیے اسی کے بدن کے خطوط کو معیار مانا گیا ہے۔ وہ وینس کی ناف کے اندر کہیں کھو سی گئی۔
تمہاری فن پارے کو جانچنے کی صلاحیت کافی اعلیٰ ہے۔
شکریہ سر!
ایک بات کہوں سر! میرے دماغ میں ایک عجیب سی تجویز آئی ہے۔
بولو کیا تجویز ہے۔
وینس کے بدن سے زیادہ متناسب اور پُر کشش بدن رکھنے والی عورتیں بھی ہیں دنیا میں۔ پھردنیا کی حسین ترین عورت کا ٹائٹل اسی کو کیوں مل جاتا ہے جو اس کے اعضاء سے مطابقت رکھتی ہو۔ بت پرستی نہ گئی ہمارے اندر سے۔ ہم پتھروں کو معیار بنا لیتے ہیں۔
پتھر کا کیا ہے اس میں؟ ہاں!
وہ تو پتھر ہے۔ یہ تو فن کار کو خراج جاتا ہے۔ یہ مونا لیزا، وینس، اپالو، یہ سب کچھ تو مائیکل اینجلو ‘لیونارڈو ڈاونچی، پکاسو، کو کریڈٹ جاتا ہے۔ ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ہاں! مصور نے طویل وضاحت پیش کی۔
اس نے اپنی آنکھیں واپس پھیر لیں۔ معصومیت کا اظہار اور خوب صورتی کا اظہار، آمنے سامنے لگی ان دونوں پیٹنگز کا عنوان یہ ہونا چاہیے، حسن اور معصومیت ان کے اظہار میں ہے، اس نے طنزکیا۔ ادھیڑ عمر مصور اس طنز کو برداشت کر گیا۔
ہاں ان کے اظہار میں حسن اور معصومیت ہے اس میں کیا شک ہے ہاں!
مگران کے استعمال سے معصومیت اور حسن کی لا زوال قدریں شکست بھی ہو جاتی ہیں۔
ان کو آمنے سامنے کیوں لگا دیا آپ نے اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ الگ کر دیا۔ مگر آمنے سامنے کر دیا۔ اذیت رسانی کی انتہا ہے
تم سوال بہت پوچھتی ہو کیوں؟
سوال اس لیے پوچھتی ہوں تا کہ خود کوئی گمان کرنے سے بچوں۔ جب سوچنے والے کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملتا تو پھروہ خود ہی کوئی نہ کوئی جواب ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اوربعض اوقات یہ خود ساختہ جواب غلط بھی ہوتا ہے۔ اورغلط جواب اگر پختہ ہو جائے تو تقدیر پر بھی اثر انداز ہو جاتا ہے۔ ہم بہت سی باتیں جواب نہ ملنے پر خود ساختہ طور پر طے کر لیتے ہیں اور پھرسزا پاتے ہیں وہ واپس صوفے پر آ کر بیٹھ گئی۔
میری پیٹنگ بنائیں وہ پُر اعتماد ہوتے ہوئے بولی۔
تمہاری آنکھوں کو میں پینٹ نہیں کر سکوں گا، بھاری آواز گونجی۔
کیوں؟
تم کسی پر اعتبار نہیں کرتیں۔
کرتی ہوں۔
کس پر؟
اپنے آپ پر…
یہ کافی نہیں ہے۔ کسی اور پر بھی کرنا پڑے گا، خود سے ہٹ کر۔
خود سے ہٹ کر تو قابلِ اعتبار کوئی بھی نہیں ہے۔ مگر اس اعتبار ‘نا اعتباری کا پیٹنگ سے کیا تعلق ہے؟
بہت گہرا تعلق ہے۔ آنکھ کے تاثر کے بغیر تصویر لا یعنی ہے، بے معنی اور بے اثر ہے، تصویر کا سارا تاثر ہی آنکھ کے اندر تشکیل پاتا ہے۔ وہاں سے وہ پورے چہرے اور پھر پورے سراپا کی طرف پھیلتا ہے۔ اورتصویر جان دار اورزندہ لگنے لگتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی رنگ ساز ‘رنگ باز‘ آنکھ کے ہر تاثر کو رنگوں کا چولا پہنا سکتا ہے مگر بے اعتباری کو نہیں۔ بے اعتباری پینٹ نہیں ہو سکتی۔ یہ رنگوں کے قابو میں نہیں آتی۔ لہٰذا تمہاری تصویر بنانا بے کار ہے۔ مصور نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
میں اعتبار کیسے قائم کروں اپنے اندر؟ وہ روہانسی ہو گئی۔
قدم قدم پر عشاق کے قافلے رواں دواں ہیں۔ جتنے دماغ اتنے الفاظ‘ جتنے منھ اتنی باتیں، ایک دوجے سے بڑھ کر عشق و محبت کے دعوے کرنے والے موجود ہیں۔ اب تو لفظوں سے بھی اعتبار اٹھ گیا۔ لفظ بھی بے وقعت اور فضول ہو گئے ہیں۔ کوئی انوکھے سے انوکھا لفظ بھی سر خوشی نہیں دیتا۔ گریہ کناں آنکھ کو تو مصور کیا جا سکتا ہے ناں؟
مصور اس کو دیکھتا رہا اور دھویں کے مرغولے اڑاتا رہا۔ کوئی تو ہو گا جو اعتبار بن کر تمہارے دل کی دھرتی میں گڑا ہوا ہے۔ بوڑھے مصور نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گرا دیں۔
ہاں ہے۔ اس کی آنکھوں سے پانی ابل پڑا۔
پھر؟
مگر وہ خود سے ہٹ کر نہیں ہے۔ اس کو میں کبھی اپنے وجود ‘روح، ضمیر‘وجدان‘ لا شعور سے الگ نہیں کر سکی۔ مجھ میں بڑی انا تھی۔ مجھے جب لگا کہ میں کہیں گم ہو رہی ہوں اور میری جگہ کوئی اور گھیرتا جا رہا ہے، تو میں نے بڑی کوشش کی۔ بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ مگراسی کوشش میں وہ میرے اندر سماتا چلا گیا۔ اوریہاں شرط یہ ہے کہ خود سے الگ ہو کر کسی پر اعتبار کروں۔ بوڑھا مصور خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ میں چلتی ہوں اس نے ہینڈ بیگ کے سٹریپ کو پکڑا، ذرا سا رکی، اور پھر دروازے سے باہر نکل گئی۔
شام کافی سرد تھی۔ پہاڑوں کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں شائیں شائیں کرتی گزر رہی تھیں۔ مگر ہال کے اندر ہلکی پھلکی بدن کی ٹکور کرنے والی حرارت تھی۔ ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ مصوری کے موضوع پر کانفرنس تھی، تو وہ بھی چلا آیا، سٹیج کی پشت پر لگی سکرین پر سائیڈ شو میں تصویریں چل رہی تھیں۔ وہ مقرر کی تقریرسے زیادہ ان تصویروں کے سِحَر میں کھویا ہوا تھا کہ اسے اپنے بائیں طرف سے ہلکی سی خوشبو آئی۔ مفلر کے اندر اچھی طرح لپٹی ہوئی گردن کو اس نے ہلکا سا موڑا، تو آنکھیں سیدھی اس کے ماتھے کے ساتھ جا ٹکرائیں اور وہاں سے پھسلیں تو آنکھوں پر اٹک گئیں۔ وہ بھی اس کی طرف دیکھ چکی تھی۔
ہائے! کیا حال ہے۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
ٹھیک ہوں۔
اچھی لگ رہی ہو، وہ ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
کب آئی ہو؟
آج ہی آئی ہوں
بتا دیتی!
کیا فرق پڑتا ہے، مل تو گئے ہم ہمسایے جو ہیں۔ ہمسایہ ٹھنڈ میں گرم چادر کی بُکل جیسا ہوتا ہے جب دیار غیرمیں ملے۔ وہ مسکرائی عجیب سی سرخوشی کے ساتھ اس نے اس کے ہونٹوں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ تمہاری اس لپ اسٹک کا رنگ کون سا ہے؟
جامنی ہے وہ پھر مسکرائی۔
ایک دل نواز سی حدت پھیل کر اس کو گھیرے میں لے رہی تھی۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ساتھ ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کی سانسوں کو محسوس کرنا بھی ایک راحت ہے۔ مقرر کیا کہہ رہا تھا اس نے نہیں سنا۔ اس کی ساری حِسِّیات ساتھ والے سانوں پر مرتکز تھیں، جو اس کے سانسوں کے ساتھ مل کر ایک ہالہ بنا رہے تھے۔ درد جو ہر وقت بدن کو کاٹتا رہتا تھا تب کہیں سو گیا تھا۔ اس نے مفلر پر ہاتھ رکھا۔ بعض جسموں کی محض موجودگی ہی روح کو سرشار کر دیتی ہے۔ وہ اس وقت سامنے کی طرف متوجہ ہو چکی تھی، مگر بیٹھی اس کے ساتھ تھی۔ اس کو اس خیال سے ہی تسکین ہوئی کہ وہ اس کے ساتھ بیٹھی سانس لے رہی ہے۔
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے! بے اختیار اس نے گلزار کی یہ لائن پڑھی
جِیے جاتے ہیں، جِیے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں
جِیے جانا بھی کیسی عادت ہے وہ مسکرائی۔
تم ہر وقت جس درد کو کاٹتے ہو ناں! وہ میری روح کو بھی چھیدتا رہتا ہے۔ وہ سرگوشی میں بولی، تو وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔
مزید دیکھیے: تفسیریں از، نصیر احمد
ٹی ایس ایلیٹ بہ نام جارج آرویل مکتوب: اینیمل فارم کیوں شائع نہیں ہو سکتا انتخاب و ترجمہ از، یاسر چٹھہ
جامنی رنگ جب پھیلتا ہے تو شفق کی تصویر بن جاتا ہے۔ جس کے نیچے سمندر بہہ رہا ہو۔ ہاں سمندر! ابد اور ازل کے کنارے کہاں ملتے ہیں۔ ازل اور ابد کے احساس کے اندر سکون ہے۔ جامنی رنگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ لہر کے اوپر لہر آتی ہے۔ وہ زندہ ہے توانا‘ جیتا جاگتا، شور مچاتا ہوا، کف اڑاتا ہوا، رواں دواں، اس کے اندر حیات ہے۔
وہ دیکھو! اس نے انگلی سے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔
وہ حیرت سے اس کو تک رہی تھی۔ کیا کہہ رہے تھے تم؟ سکرین پر تو لیونارڈو کی ’’دی لاسٹ سَپّر‘‘ دکھائی جا رہی ہے۔
چلو اٹھو کہیں چلتے ہیں۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑاہوا۔ ہال کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ باہر آ گئے۔ باہر رات سیاہ اور گہری تھی۔ وہ ساتھ ساتھ چلنے لگے، رات ان کے آس پاس سے ہو کر گزرے لگی تھی۔
کیسا ہے تمہارا، وہ؟
ٹھیک ہی ہو گا، میری بہت دنوں سے بات نہیں ہوئی۔
کیوں اتنے عرصے تک لا تعلق کیوں ہو جاتی ہو تم؟
شاید ہم دونوں ایک جیسے ہیں اس لیے۔
مقناطیس کے دو ایک جیسے پول ایک دوسرے کو دور دھکیلتے ہیں، اور دو مخالف پول کھینچ کر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اس نے قدیم فلسفے کا سرا پکڑا۔
وہ مقناطیس ہے انسان نہیں۔ وہ چڑِ گئی… پتا نہیں کیوں تم لوگوں نے مادی اشیاء کے خواص اور ذمہ داریوں کو انسانی رویوں اور تعلقات کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ لوہے اور پتھروں کی مثالیں لے کر آ جاتے ہو۔ ریاضی کیا کہتی ہے دو نفی بھی آپس میں مل جائیں تو اثبات ہے، دو اثبات آپس میں مل جائیں تو بھی اثبات ہے۔ اور اگرنفی اور اثبات مل جائیں تو بھی نتیجہ وہی ہے اثبات۔ جب ہر چیز کا جواب اثبات ہے، تو پھر دو مخالف پول والا بکواس کیا ہے اور کیوں ہے، اوراس کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے ہونہہ…
تاریکی ان کے آس پاس سے سرک رہی تھی۔ دونوں بہت قریب قریب چل رہے تھے۔ وہ اس کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بدن کو چھونے کی خواہش اس کے لہو کے خلیوں کے اندر جڑ پکڑ رہی تھی، وہ لا تعلقی سے چل رہی تھی۔ عجیب عورت ہے یہ پھیکی، بے رنگ، گہری الگ الگ، آزاد، بے ربط لفظ اورخیالات اس کے دماغ سے نکل نکل کر ٹھنڈے برفایے ہوئے اندھیرے ہی گم ہوتے گئے۔ اس کا مرکز سلامت تھا۔ وہ اپنے مرکز کو بچائے ہوئے تھی سلامت رکھے ہوئے تھی۔ پھیکی، بے رنگ، گہری اور الگ تھلک، وہ جانتا تھا کہ اس کی اس کو چھونے کی خواہش تشنۂِ تکمیل ہی رہے گی۔
بوڑھا مصور رنگوں کے سٹروک لگارہا تھا۔ سٹروک پر سٹروک لگائے جا رہا تھا۔ رنگ بکھر رہے تھے، پھیل رہے تھے، وہ سنگی مجسمے کی طرح پتھرائی ہوئی بیٹھی تھی۔ بوڑھا اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ وحشیانہ انداز میں کینوس پر سٹروک لگا رہا تھا۔ رات کے منتشر اور آوارہ ٹکڑے ادھر اُدھر کونوں کھدروں، سوراخوں اورنیچی چھت کے گھروں کے اندر پناہ لیے ہوئے تھے۔ دن دھندلایا ہوا تھا۔ سارے رنگ، سبھی رنگ اپنی اپنی شناخت سے وراہی ورا تصویر کے قالب میں ڈھلتے جا رہے تھے۔
اس کی آنکھوں میں اعتبار تو نہیں تھا، وہ مرکز کو سنبھالے بیٹھی تھی۔ مصور ہانپتا ہوا تھک ہار کر بیٹھ گیا، اور ایک کنج لب کو ذرا سا کھینچ کر اور ایک آنکھ قدرے میچ کر اس نے طنزیہ اس کی طرف دیکھا۔ مصورنے رنگوں کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔ آنکھ سے اوجھل پس منظر اور پیش منظر میں اتنے رنگ بھر د یے تھے کہ ناظر کی آنکھ اس کے مرکز کی طرف جا ہی نہ سکتی تھی۔ وہ راستے کے رنگوں کے بھٹکاوے کی شکار ہو جاتی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے آئی۔ کینوس پر رنگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ نیلے ‘پیلے‘ سرخ’ سبز‘ جامنی‘ کاسنی‘ سرمئی رنگوں کے دریا اس کے ہاتھوں کے ناخنوں سے پھوٹ بہے۔ بصارت کو رنگوں نے لپیٹ لیا۔
تصویر مکمل تھی…