دیوبندیت پر پھیلتا تخفیف کا خوف
از، حافظ صفوان
یہ ایک بڑا فکری و سیاسی حادثہ ہے کہ برِ عظیم میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے صالحین کے دیگر منظم گروہوں کی طرح دیوبندیت بھی اپنی اصل میں ردِ عمل ہی کی نفسیات پر بنیاد کرتی ہے۔ دیوبندیت کو، بہ حیثیتِ مجموعی، ایک اصلاحی، فکری یا تعمیری تحریک سمجھنا بڑی حد تک صرف خوش عقیدگی ہے۔ ایسے سب گروہ ہمہ وقت pollution اور extinction نیز marginalize ہونے کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ چُناں چہ غیر مسلموں سے کہیں زیادہ خائف ان مسلمانوں سے رہتے ہیں جو ان کے گروہ میں شامل نہ ہوں، یا ان کے اکابر کو آیت اللہ نہ سمجھتے ہوں۔
خوف کی یہی نفسیات ان سب گروہوں کو آپسی تفسیق و تکفیر اور قتل و غارت تک لے جاتی ہے۔ “اسلامی” کہلانے والے یہ سبھی گروہ خود کو اصلح یقین کرتے ہوئے قانونِ بقائے اصلح کی تگا پو میں مصروف رہتے ہیں۔ چُناں چہ ہر گروہ کی نگاہ میں معتوب ترین شخص وہ ہوتا ہے جو ایک وقت تک ان کا “اپنا” ہوتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ ذہن رکھنے لگتا ہے کہ حق اور اہلِ حق اس کے فکری و سیاسی گروہ سے باہر بھی پائے جاسکتے ہیں۔
مزید دیکھیے: جمیعت علمائے اسلام، صد سالہ تاریخ اور مستقبل از، صفتین خان
موت کا خوف: دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کی سونے کی کان از، یاسر چٹھہ
بایں وجہ ہر گروہ میں “جدیدیت” ایک گالی کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے خواہ وہ گروہ کھڑا ہی جدیدیت کے عنوان سے کیا گیا ہو۔ اسی کم نظری کا نتیجہ ہے کہ ابدی آفاقیت کا عَلَم بَردار اسلام اب قصبوں اور گوٹھوں کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، اور اس نبی ﷺ کی امت آج جگہ جگہ قبروں کی مجاوری کر رہی ہے جو صراحت کے ساتھ یہ نصیحت کر گیا تھا کہ میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔
سبھی مذہبی گروہوں کی طرح اس وقت دیوبندیت کو بھی اسی reductionism کا شدید خوف لا حق ہے۔ چُناں چِہ کچھ عرصے سے دیوبندی بھی اپنے انتقال کر جانے والے مشہور آدمی کی قبر کو نزولِ تجلیات و برکات کا محل ہونے پر ایمان لانے اور معنًا پوجنے پجوانے کا کام ایمانًا کرنے لگے ہیں۔