کَن ٹُٹّوں والے ٹیکس اور پیسے جمع کرنے کے حیلے بہانے
از، یاسر چٹھہ
کچھ دنوں سے FBR کی طرف سے ای میل پر نوٹس موصول ہوا کہ آپ نے فلاں فلاں برس کا ٹیکس ریٹرن مقررہ تاریخ پر نہیں بھرا۔ نتیجے کے طور پر کم از کم 20 ہزار روپے کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ٹیکس آڈٹ ہو گا، وغیرہ۔ اپنا حساب کتاب لے کر اس ماہ کی 30 تاریخ تک حاضر ہوں۔
ایسا نوٹس راقم کے کچھ اور قریبی احباب کو بھی بھیجا گیا ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں تنخواہ دار طبقہ کہا جاتا ہے۔ ہم تک تنخواہ اس وقت پہنچتی ہے جب اس پر ٹیکس کی رقم پیشگی کاٹ لی جاتی ہے۔ اسے اپنی تنخواہوں سے مہنگی ایف بی آر at source deduction کا نام دیتی ہے۔ اس کاٹ خراش کے بعد بچا کُھچا حصہ بہ طورِ تنخواہ ہم تک پہنچتا ہے۔
پچھلے کچھ فائل کردہ ریٹرنز میں راقم کا سرپلس رقم کے ٹیکس ریٹرنز FBR کے کھاتے میں موجود ہیں۔ اس سرپلس رقم کی خود کار طریقے سے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔
جب تفصیل پتا کی گئی تو معلوم ہوا، اس سرپلس رقم کو اپنے اکاؤنٹ میں واپس منگوانے کے لیے ٹیکس کارندوں کو grease کرنا ضروری ہے۔ کہا، پھر رہنے ہی دیتے ہیں، ملک پر اسی پرانے تسلسل سے دور نازک ہی ہے، شاید یہی ہمارے حصے کا مرہم بن جائے۔ ہم نے وہ قربانی دینا گوارا کی جس کی نیت کا ثواب ہمیں شاید نوٹس کی صورت بھیجا گیا۔
اکیس نومبر کے ڈان اخبار کے اداریے سے صورتِ حال کچھ یوں سامنے آتی ہے:
… The most egregious example of this is the announcement that one million individuals who filed their returns late in the last three years have been automatically selected for audit, and that they can pay Rs. 20,000 for ‘closure of audit’.
No doubt somebody in the bowels of the tax bureaucracy worked on a calculator to determine that such an exercise could yield up to Rs. 20 bn in revenue — not a bad step towards plugging a reported hole of Rs. 100 bn in the first quarter’s tax collection target.
But the exercise looks just like a racket, and a rather insidious one at that, considering it is unfolding while return filing season is in full swing, and the government is trying hard to get more people to file their returns…
یعنی پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود لوگوں سے مزید کھرچ اور کھوج کی جائے۔ جو ہتھے چڑھ گئے ہوئے ہیں انہیں اس طرح رگیدا جائے کہ کسی نئے آنے والے کو جبر ہو کہ بھیا چار قدم دور سے گزر جائیو، تو بھلا ہے۔ اس طرح کے حربے بالکل وہی ذہنی اور نفسیات کا شاخسانہ ہیں جس کے تحت دنیا اور اس خطے میں سب سے زیادہ لائن لاسز والی بجلی اور گیس کی کمپنیوں کی سستی، کاہلی، نا لائقی اور بد عنوانی کا جرمانہ ان صارفین کے کھاتے ڈالا جاتا ہے جو اپنے ان سہولتوں کے ماہانہ بل بر وقت ادا کرنے کے قصور کرتے ہیں۔
یہ اسی بد دماغی کی ہی ایک اور مثال ہے جس میں محاصلات جمع کرنے کا انہیں کوئی اور خیال ذہن میں نہیں آتا: اور آئے بھی کیسے کہ ہیں ہی retarded ذہن کے حامل؛ یہی وہ بد دماغی ہے جو لاہور کی سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے ٹریفک کے قواعد کی خلاف ورزی پر اس قدر جرمانے کرنے کا سوچتی ہے جیسے ان جرمانے زدوں کی ہی وجہ سے امریکہ نے ایبٹ آباد آپریشن کیا تھا۔
یہ جو نیا پاکستان کے نام پر منافقانہ مارشل لائی نائب قاصد حکومت اہلِ وطن پر مسلط ہے، یہ صرف لغویات، نئے نئے نکاح کرنے اور یو ٹرن لینے میں ہی طاق ہے، باقی طور طریقوں میں یہ مکمل ڈرامہ ہی ہے۔ نا اس کے پاس کو ٹھوس منصوبہ ہے۔ یہ گالیاں دیتے دیتے ایک دن جواب سے بیدار ہوئی تو اس پر ملک کی سیادت کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ قدم قدم پر اپنے غیر مناسب ہونے کا ثبوت دینا جیسے ان کی مجبوری ہو۔
گوش گزار کرتے ہیں کہ ٹیکس اکٹھا کریں، یہ حکومتوں اور ان کے عمال کا کام ہوتا ہے؛ گو کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرنے والوں کے سامنے اپنے فرائض کی بابت شفافیت کے لیے جواب دہ ضرور ہوتے ہیں۔ پر ساتھ ہی جان رکھیے کہ حرکتیں وہی نیم آباد علاقوں کی سڑکوں پر موجود کَن ٹُٹّوں والوں کی سے نا کیجیے۔ ایسا تاثر بد قسمتی سے سامنے آ رہا ہے۔
ہم پاکستانی عوام ہیں، ہمیں ہر وقت مفتوحہ قوم مت جانیے۔