یہ راستہ کوئی اور ہے از، اقبال حسن خان
تبصرۂِ کتاب از، قمر سبزواری
اپنے خارج اور باطن کو کھوجنے اور جاننے کی خواہش انسانی کی بنیادی جلتوں میں سے ایک ہے۔ بل کہ اگر اس بات کو ذرا باریکی سے دیکھا جائے تو انسان اپنی بقا کی خواہش اور وجود کو لاحق خطرات کے خوف کی ثنویت پر ہی کھڑا ہے اور حقیقت کو جاننے کی خواہش در اصل اسی بقا کو لاحق خطرات کو جاننے اور اُن پر قابو پانے یا اُن پر قادر ہستی کو جاننے کی خواہش ہے۔
خود کو اپنے معاشرے کو اپنی اس کائنات کو اور اپنی زندگی کو جان کر، حیرت کے رستے آگہی کی منزل پر پہنچ کر ہمیں اسی لیے طمانیت حاصل ہوتی ہے کہ ہم لاشعوری طور پر اپنی بقا کو لاحق خطرات سے باخبر ہو کر اپنی بقا کی خواہش کے لیے تسکین کا سامان کرتے ہیں۔
اس آگہی کی منزل تک پہنچنے کے لیے انسان دو طریقے اختیار کرتا آیا ہے ایک تو اس سرنگ کے سرے پر مذہب اُسے روشنی کا جو ہالہ دکھا تا ہے اُس کی طرف آنکھیں بند کر کے سر پٹ بھاگنا اور دوسرا فلسفے کی لاٹھی سے ٹٹول ٹٹول کر ایک ایک قدم بڑھاتے ہوئے روشنی کی تلاش۔
لیکن انسان اس سفر کے دوران ملنے والی حیرتوں ، پیش آنے والے حادثات اور راہ کے پیچ و خم کو اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے کہیں محفوظ بھی کرنا چاہتا ہے ۔ اگر کہانی نہ ہوتی تو انسان کی یہ خواہش کبھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچتی اور اس تاریک سفر کا ہر مسافر ایک کے اوپر ایک گر کر راہ میں ہی دم توڑتے رہتے۔
گو ادب اظہار کا ایک وسیلہ ہے لیکن یہ جو کہانی ہے یہ بجائے خود سچائی کی دریافت کا ایک ذریعہ بھی ہے اور کہانی یہ کام جمالیات سے ہمارے داخل میں موجود حسن کے پیمانے کو معیار بنا کر لیتی ہے۔۔ ہمیں فلسفے میں فکری و منطقی سوالوں کے جواب تو مل جاتے ہیں لیکن احساسات و جذبات کے اظہار کی تشنگی بحرحال باقی رہتی ہے۔ ہمیں سائنس میں کائنات کے چہرے سے سرکتا نقاب تو نظر آجاتا ہے لیکن داخل میں پھیلا سکوت اور اداسی سائنس کی لیبارٹری میں مزید گہری ہونے لگتی ہے۔ نفسیات ہمیں جذبات و احساسات کی آگاہی تو دے دیتی ہے لیکن اُس عمومیت کا کیا کریں جس کا احساس ہوتے ہی ہمارے جذبات مجروح ہونے لگتے ہیں۔ داخل میں تو ہم ہی کائنات ہیں ہم ہی اس کا مرکز ہم ہی شاہد ہیں ہم ہی مشہود ، ہماری آنکھ روتی ہے تو کائنات ڈوبنے لگتی ہے ہمارا دل ڈوبنے لگے تو سب خشک و تر غرق ہونے لگتا ہے یہاں پر تو نفسیات بھی بے بس ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وجودیت کے اظہار کے لیے فلسفے کی بجائے ادب کا سہارا لیا گیا، کیوں کہ موضوعیت ادب کے بغیر اپنا اظہار کر ہی نہیں پاتی۔
کہانی افسانے کی شکل میں ہو تو انفرادی زندگی کسی ایک پہلو سے آگہی اور اُس آگاہی کے اظہار کے لیے ایک وسیلہ ہے لیکن کہانی جب ناول کی صورت میں ہو تو یہ اجتماعیت اور زندگی کے محیط رُخ کے اظہار کا ایک کینوس ہے۔ جو ناول زندگی کے چہرے سے نقاب نہ اتارے کسی نئی حیرت سے روشناس نہ کرائے اُسے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اُسے ایک ناول کہنا مشکل ہو گا۔
مزید دیکھیے: بول کہ لب آزاد ہیں تیرے: کیا واقعی؟ از، خضر حیات
تقسیم برصغیر ہم لوگوں کی زندگیوں پر براہ راست یا بالواسطہ اثر انداز ہونے والا ایک عظیم سانحہ ہے۔ یہ نہ صرف بر صغیر کے لوگوں کی سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والا ایک عظیم سانحہ ہے بل کہ یہ تاریخ عالم کے لحاظ سے بھی بیسویں صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اس سانحہ نے جہاں ایک طرف ہمیں مذہبی لحاظ سے انتہائوں پر دھکیل کر تقسیم کیا وہیں اس کے اثرات ہمارے تہذیبی رنگ پر بھی پڑے۔ اسی سانحے نے ایک طرف ہماری سیاسی سرشت کو ایک نئی وضع دی تو دوسری طرف ہماری معاشی زندگی میں ایسی اتھل پتھل کی کہ الاٹمنٹس ، عہدوں اور کاروبار کے لیے رشوت و سفارش اور راتوں رات قسمت اور اوقات دونوں کے بدے جانے کے امکان کو ہمارے مزاج کا حصہ بنا ڈالا۔
اپنی سماجی زندگی اور قومی مزاج کو سمجھنے کے لیے بھلا تقسیم کو سمجھنے سے بہتر اور کیا ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ اس پر بہت لکھا گیا اور شاید آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔
عبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں کے بعد اس زمان و مکان میں رہ کر اور قریب قریب اُسی زاویہ نگاہ سے دوبارہ قلم اٹھانا بجائے خود ایک ہمت طلب کام تھا لیکن اقبال حسن خان نے یہ کام کیا اور اپنے ہی رنگ میں کیا۔
اس موضوع اور سیٹنگ پر اقبال حسن خان کا پہلا ناول “گلیوں کے لوگ” کے نام سے سامنے آیا تھا۔ جیسا کہ نام سے بھی ظاہر ہے، گلیوں کے لوگ میں کہانی کی توجہ کرداروں اور اُن کے نفسیاتی پہلووّں پر رہی جبکہ یہ راستہ کوئی اور ہے میں ناول نگار نے اُن دو اجتماعی رویوں کی بابت بات کی ہے جو تقسیم کے بعد بالخصوص پاکستان میں پنپنا شروع ہوئے۔ کہانی تقسیم سے پہلے، سرحد کے اُس پار کے ایک ایک عام سے گھر کے عام سے ماحول اور کرداروں سے شروع ہوتی ہے اور پھر وہی منظر پھیلتے پھیلتے مختلف سماجی طبقات اور افراد کو اپنے اندر سمیٹتے ہوئے جن دو اجتماعی رویوں کو اپنے دامن میں سمیٹتا ہے اُن میں سے ایک وہ مایوسی ہے جو وہاں سے ہجرت کر کے آنے والے ایسے لوگوں کو لاحق ہوئی جو باعزت و ایماندارانہ زندگی گزار رہے تھے اور آگے پہنچ کر بھی عزت نفس کے ساتھ رہنا چاہتے تھے، اُن لوگوں کے دلوں پر، اُن کے اذہان پر حتی کہ اُن کے چہروں پر حیرت و استعجاب کا ایک ہی تاثر ثبت ہو کر رہ گیا کہ ” یہ وہ منزل تو نہیں، یہ تو راستہ ہی کوئی اور ہے”۔ دوسرا رویہ اُن لوگوں کا تھا جو وہاں زندگی کی غلط نہج پر تھے اور جنہوں نے یہاں آ کر فقط زر زن زمین کے حصول کو اپنا مقصد بنا لیا، ایسے لوگوں کو حالات کی سنگینی اور ماحول کی بے یقینی نے جیسے جرم، اقربا پروری، دھونس دھاندلی ، بے ایمانی ، شارٹ کٹ اور ہوس پرستی کا جواز فراہم کر دیا۔ اور یہ رویہ ایسا پختہ ہوا کہ آج تک وطن عزیز میں یہ دو زاویہ ہائے فکر و عمل رائج ہیں۔
متذکرہ بالا ما بعد نو آبادیاتی رویوں کے بیان کے ساتھ ناول خوبصورتی سے ایک کنٹراسٹ بھی پیش کرتا ہے۔ ایک ایسا تیسرا رنگ جو متذکرہ بالا دونوں رویوں کا باعث بننے والے حالات و واقعات کی سنگینی اور شدت کو اجاگر کرتا ہے ۔ ناول کی سلیس زبان ، روز مرہ کے محاورے اور ہمارے اپنے شب و روز کے عام سے واقعات کے بیچوں بیچ کہانی کا پلاٹ جب تقسیم کے مخصوص واقعات کو بھی اُسی تانے بانے میں بنتا ہے تو قاری کے ذہن میں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ تقسیم کے وقت اپنی عصمتیں لٹا دینے والی ہزاروں خواتین کہاں گئیں، ظاہر ہے وہ ہمارے درمیان ہی موجود رہیں اور اسی معاشرے کا حصہ بنیں تو اُس جزو کا کُل بن کر کُل پر کیا نفسیاتی اثر پڑا، وہ ہزاروں ولد الحرام کیا ہوئے، لوگوں کے گلے کاٹنے والے، مال و اسباب لوٹنے والے، موقعے سے فائدہ اٹھانے والے کہاں گئے، کیا وہ ہم میں ہی گھل مل کر ہماری مجموعی تصویر کا ہی ایک رنگ نہیں بن گئے۔ دوسری طرف اُن کا اُس کے دکھوں کا کیا بنا جن میں سے کسی کا جگر، کسی کا دل اور کسی کا نور نظر یہ بات ایک عام قاری شاید اُس شدت سے محسوس نہ کر سکے جس شدت سے اس واقع کا کوئی براہ راست متاثر یا مجھ جیسا بالواسطہ شاہد محسوس کر رہا ہے، اگر آپ بھی اس زخم کی شدت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو آپ کو اس ناول میں مذکور ایک سچائیوں میں سے فقط ایک کی کچھ تفصیل سے آگاہ کرتا ہوں۔
یہ جو سردار ٹرک پر خشک میوہ جات اور تجارت کا دیگر مال و اسباب لے کر شمالی علاقہ جات سے وآپس آتے ہوئے مارا گیا تھا
اُس نے آخری سانسیں لیتے ہوئے اپنا سر میرے تایا مرحوم کی گود میں رکھا تھا جن کے کاندھے پر ہاتھ رکھے ایک بچہ یعنی اُن کا سب سے چھوٹا بھائی جو کہ میرے والد صاحب مرحوم تھے وہ کھڑے تھے۔ میرے والد نے اپنی زندگی میں میرے سامنے دو تین بار اس واقع کا ذکر کیا اور ہر بار ایک سانس لے کر خلاء میں کہیں دور نظریں جماتے ہوئے بولے، پتہ نہیں اُس کی بیوی کو پتہ چلا ہو گا یا نہیں، میں تو چھوٹا تھا ، مجھے تو علم ہی نہیں تھا کہ ریڈیو کے پروگرام میں کیسے شرکت کرتے ہیں لیکن بھائی جان تو ریڈیو پاکستان پر گانا ریکارڈ کروانے بھی جایا کرتے تھے لیکن اُن کو بھی کبھی ہمت نہ پڑی کہ وہ خط لکھ کر مطلع کر دیتے، بات ہی ایسی تھی یار ہم کیسے اور کس منہ سے کہتے کہ تمھارا خاوند ہمارے سامنے لیرو لیر کر دیا گیا تھا اور ہم دیکھتے رہے، کچھ بھی تو نہ کر سکے۔
ایک بار جب میرے والد نے اس طرح کا ذکر کیا تو ہماری ایک بزرگ کرایہ دار خاتون، جو ہمارے صحن میں میری والدہ کے پاس بیٹھی تھیں، عجیب سے انداز میں میرے والد صاحب کا منہ دیکھنے لگی۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولیں،
شاہ صاحب، میری ایک بڑی بہن جو کوئی دس بارہ برس کی رہی ہوگی ، ہجرت کے سفر کے دوران سرحد کے اُس پار ہی رہ گئی تھی۔ میری ماں مرتے دم تک اس ہادثے کو لوگوں سے چھپاتی لیکن ساتھ ہی اُس کا انتظار بھی کرتی رہی۔