انسانی شعور ارتقا پذیر نہیں ہوتا
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
یہ تصور درست نہیں ہے کہ انسانی شعور ارتقا پذیر ہے۔ یہ انسان جب سے انسان ہے، ہمیشہ سے اتنا ہی باشعور ہے جتنا کہ آج کا انسان۔
انسانی شعور سے میری مراد وہ شعور ہے جو اچھائی برائی، ظلم و عدل، مساواتِ انسانی، حریت فکر، تصورِ خالق و معبود جیسے اقدار و تصورات سے جڑا ہوا ہے۔ کوئی انسان ان سے کبھی خالی نہیں ہوا۔ یہ انسانی شعور انسان میں فطری اور اضطراری طورپر پایا جاتا ہے۔ انسانی شعورسے مراد، سماج کا وہ اجتماعی چہرہ نہیں جو بدلتا رہتا ہے اور جسے مقتدرہ اپنے مفادات کے تحت اپنے اپنے دور کے سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے تشکیل دیتی ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں ہر سماج میں ایسے باشعور، باحوصلہ افراد موجود رہے جن سے انسانی اقدار کے بلند ترین شعور کا اظہار ہوا۔ یہ شعور ہوتا تو سب میں ہے، لیکن اس کا اظہار تاریخ میں چند نمایاں افراد کے ذریعے سے ہی سامنے آتا ہے۔ تاریخ کے لیے یہ ممکن تھا اور نہ اس کو یہ دعوی ہے کہ کسی سماج کے کھیت کھلیان میں کام کرنے والے عام فرد کے خیالات بھی اس نے ریکارڈ کیے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ نمایاں افراد کے تذکرے ہی کر سکتی ہے۔
سقراط ہمارے دور کے کسی لبرل سے کم باشعور نہیں تھا، غلامی کے دور میں غلامی کو برا سمجھنے والے موجود ہوا کرتے تھے، بادشاہتوں کے دور میں جمہوریت کا تصور دینے والے قدیم دور کے لوگ تھے، حتی کے حد سے بڑھی ہوئی مساوات کا تصور ہزاروں سال پہلے مزدک دے چکا تھا۔
وقت کے ساتھ انسان کے معلومات، فلسفوں اور نظریات میں اضافہ ہوتا ہے، شعور لیکن مستقل رہتا ہے۔ خارجی معلومات علم میں اضافہ کرتی ہیں، شعور میں نہیں، بسا اوقات خارجی معلومات شعور کو دھندلانے کا باعث بن جاتی ہیں۔ خارجی معلومات کے علاوہ باقی سب شعور سے پھوٹتا ہے، نہ کہ یہ شعور کو جنم دیتے یا اضافہ کرتے ہیں۔ فلسفوں، اور نظریات اس شعور کی ترجمانی سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ مارکس نے جو کہا، وہ کوئی نئی دریافت نہیں تھی۔ سرمایہ داری کے استحصال اور مزدوروں کی حالت کی بہتری کا تصور کوئی نیا نہیں تھا۔ مارکس نے اسے منظم فلسفے کی صورت میں پیش کیا۔ ایسے کسی بھی فلسفے کے پیچھے بنیادی حقیقت سادہ ہوتی ہے جو ہمیشہ سے انسانی شعور میں موجود ہوتی ہے۔
تاریخ میں انسانی شعور کے نمایندہ ایسے باشعور باحوصلہ افراد کی آواز کبھی سنی گئی اور کبھی وہ سٹیٹس کو کی نذر ہوگئی، اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ بعد کی دریافتیں ہیں۔ یہ بعد کی دریافتیں نہیں ہیں، بعد کے ادوار میں سٹیٹس کو ان کو راستہ دینے پر مجبور ہوا۔ اس شعور کو جب اتنے افراد میسر آگئے کہ وہ مقتدرہ پر موثر دباؤ قائم کر سکیں تو مقتدرہ اس شعور کے دباؤ کے آگے جھک گئی، جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اجتماعی ضمیر بالغ ہوا، حالانکہ یہ آوازوں کو دبانے والے اس وقت بھی جانتے تھے اوراب بھی کہ وہ اپنے شعور کے خلاف کر رہے ہیں لیکن سٹیٹس کو انھیں زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
مزید دیکھیے: ہمارے سوال از مبشر علی زیدی
مقتدرہ کا انسانی شعور کے آگے تسلیم کر جانا، درحقیقت سماجی ارتقا ہے جسے ہم انسانی شعور کا ارتقا قرار دے کر خلط مبحث کر بیٹھتے ہیں۔ یعنی سماج ارتقا پا کر مختلف سیاسی اور سماجی عوامل کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ پہلے سے موجود انسانی شعور کو ریاستی اور اجتماعی سطح پر قبول کر لے۔ مثلا مذھبی جبر کے ناجائز ہونے کا فتوی ہر دور میں انسانی شعور دیتا رہا، مگر مقتدرہ کو اسے تسلیم کرنے میں صدیاں لگیں۔ جب اس نے اس کو ترک کیا تو یہ ارتقا شعور میں ہوا یا سماج میں؟ یقنیناً سماج میں۔
اس عمل کو سمجھنے کے لیے ماضی میں دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ آج کے اس دور میں جب کہ یہ سمجھا جاتا ہے انسانی شعور اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، اور آزادی اظہار کی اعلی ترین منازل حاصل کر لی گئی ہیں، ہمارے ہاں ایسے سماج پائے جاتے ہیں جہاں مقتدرہ آزادی اظہار پر پابندی لگاتی ہے، مذھبی جبر بھی قائم ہے۔ افراد اپنی مرضی سے اپنے لیے مذھب چن یا ترک نہیں چن سکتے۔ یہ مقتدرہ جدید دور کی تعلیم یافتہ مقتدرہ بھی ہوتی ہے۔ تو کیا یہ کہا جائے کہ یہ پری میچور انسان ہیں، انھیں انسانی شعور کے ارتقائی مراحل طے کرنے ہیں؟ نہیں، مگر ان کا رویہ دیگر سیاسی اور سماجی عوامل بالفاظ دیگر سٹیٹس کو کے برقرار رکھنے کی خواہش کی بنا پر انسانی شعور کی مخالفت پر کمر بستہ ہے۔
اس سے یہ بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ مقتدرہ ارتقائی طور پر بالغ نہیں ہوتی، حالات کے ہاتھوں مجبورہوتی ہے۔ اسے جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ اسی طرح استحصال کرتی ہے جیسے قبائلی دور یا غلامی یا بادشاہتوں کے دور میں کرتی تھی۔
انسانی شعور پرایسا کوئی وقت نہیں گزرا کہ وہ کبھی کم باشعور رہا ہو۔ اس کا اظہار الفاظ اور رویے کا محتاج ہوتا ہے جسے انسان خارج سے سیکھتا ہے اور باشعور کہلاتا ہے۔ انسان جب جب اس شعور کے مظاہر دیکھتا یا ان کے بارے میں سنتا پڑھتا ہے، ان کی تصدیق اس کے باطن سے صادر ہوتی ہے، خارج سے نہیں، تاہم انسان کا ردعمل بہت سے نفسیاتی، سماجی اور سیاسی عوامل کی بناپر مختلف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے قدیم اور جدید انسان کے شعور میں کوئی ایسا ارتقا نہیں ہوا، کہ پہلے کوئی ایسی قدر اسے معلوم نہ تھی، اور بعد میں معلوم ہوئی۔
اس مقدمے کی بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ مفروضہ بھی درست نہیں کہ قرآن مجید کو آخری کتاب اور محمدرسول اللہ ﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ انسانی شعور ارتقا پا کر اب اس قابل ہو گیا تھا کہ خدا کے آخری پیغام سمجھ سکے جو اپنی کامل شکل میں بھیجا گیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی شعور ہمیشہ سے اسی درجہ کا تھا، جتنا کہ اب ہے، خدا کا مخاطب انسان خدا کا کامل کلام ہی ہمیشہ وصول کرتا رہا۔ ارتقا شریعت میں ہوا، شریعت کے ایک حصے کا تعلق تمدن سے ہے۔ ارتقا تمدن میں تھا، اور خدا کی شریعت یعنی اس کا قانون اس بنا پر حتمی نہیں تھا کہ تمدن ارتقا پذیر تھا۔ سماجی ارتقا کا جب وہ دور شروع ہوا جسے عالم گیریت کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے تو وہ مرحلہ آیا کہ خدا کا آخری پیغام دے دیا جائے، تاریخ میں جس کے محفوظ رہ جانے اور پوری دنیا تک اس کی ترسیل کے ذرائع پیدا ہونے جا رہے تھے۔ اب تمدن میں ایسا کوئی جوہری فرق آنے والا نہیں تھا جو خدا کی حتمی شریعت کے دائرے سے متجاوز ہو سکے۔ یہ شریعت خود جس سماج میں نازل ہوئی، اس کی مقامیت سے بھی ماورا انداز میں پیش کی گئی۔ مقامیت کہیں ہے بھی تو اطلاقی نوعیت کی ہے، (مثلا دوپہر میں آرام کے وقت کے آداب)۔ یہ شریعت کے کسی پہلو پر عمل کرنے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ انبیا کی تاریخ یا تعلیمات گم ہونے کا امکان نہیں رہا تھا۔ اسی بنا مزید انبیا کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
انسانی شعور چوں کہ عقل سے منسلک ہے، اس لیے اپنے اظہار اور اطلاقات میں حد سے تجاوز بھی کرتا ہے، جسے پھر انسانی شعور ہی کی روشنی میں درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سماجی علوم کے مطالعے میں یہی دیکھا جاتا ہے۔ تاہم کسی ایسے مخمصے میں جہاں کوئی فیصلہ ممکن نہ ہو پائے، خدا کی طرف سے آنے والی وحی انسان کے ان تجاوزات میں فیصلہ کن پوزیشن مہیا کردیتی ہے، مثلا سود ہونا چاہیے یا نہیں، اس بحث میں دین نے آخری فیصلہ دے دیا کہ یہ ناجائز ہونا چاہیے۔ یوں مذھب ایک کامل متمدن اور باشعور انسان اور انسانی سماج تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مذھب کی ترجمانی میں تاہم، انسانی فہم کے خطا کا امکان بھی رہتا ہے، جس پر انسانی شعور سوال اٹھاتا ہے۔ وحی کی درست ترجمانی وہی ہوتی ہے جس پر انسانی شعور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ عقلِ عیار البتہ سو بھیس بدل لیتی ہے۔ وہ اس بحث سے خارج ہے۔