اور تاریخ کہے گی کہ منگول بڑے ظالم تھے
از، نصیر احمد
کیا کہیں؟ خلیل بد امنی زاد امن کی کسی فردوس میں بھی چلے جائیں، وہاں بھی لپاڈگی اور دھینگا مشتی برپا ہو جائے گی لیکن امن مذاکرات کے لیے دنیا کو نظر وہی آتے ہیں۔
اب تو تیس چالیس سال ہو گئے ہیں، اب تو کچھ یقین آ جانا چاہیے کہ
جٹ ہے نی، جھگڑا پٹ ہے، چودھری چوڑ چپٹ ہے نی
کہ گنوار ہے، بسے بسائے گھر اجاڑ دیتا ہے اور معاملات بگاڑنے والوں کا سردار ہے۔
ماہرین کی شان میں کمی کا دنیا میں بہت گلہ ہے اور بجا بھی ہے مگر پچھلے بیس سال میں ماہرین نے کوئی مسئلہ سلجھایا ہی نہیں۔ ان کی تنخواہیں اور بونس بڑھتے جاتے ہیں لیکن معاملات بگڑتے جاتے ہیں لیکن خلیل کے علاوہ کوئی ماہر ہے ہی نہیں۔ اب تو کہیں کچھ ہنگامہ ہو۔ وجہ پوچھیں تو لوگ کہتے ہیں احمق تمھیں پتا نہیں ادھر سے خلیل گزرے تھے۔
سبوتائی بہادر سے بھی پوچھا کہ یہ چین میں لاکھوں کیوں تہہ تیغ کر دیے۔ وہ کہنے لگے ذہن میں پانچ دس ہی مارنے کا پروگرام تھا لیکن اقوام متحدہ نے خلیل امن مذاکرات کے لیے بھیج دیے، جانے کیا ہوا، سات آٹھ لاکھ مر گئے۔
اب روس پر حملے کا پروگرام ہے، سنا ہے وہاں بھی مذاکرات کے لیے خلیل کو ہی بھیجیں گے، پھر لاکھوں کی گردنیں کٹ جائیں گی اور تاریخ کہے گی کہ منگول بڑے ظالم تھے۔ تمھیں اگر انسانیت سے کچھ ہم دردی ہے، تو خلیل کی بجائے کسی اور کو بھیجو۔ یہ آتا ہے تو پتا نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے، نیلے آسمان کی قسم اور گرگ قدیم کی قسم، ہم تو بس خلیل سے مذاکرات کی کوفت سے ادھر بھاگتے ہیں، دنیا کے لوگ کچھ نازک سے ہو گئے ہیں، اسی بھاگ دوڑ میں بے چارے فوت ہو جاتے ہیں اور سارا الزام ہم پر آجاتا ہے۔
ہماری بھی بدنامی، جانوں کا بھی ضیاع۔ ایک میں ہی نہیں، مقلائی، تولائی، جوجی، جیبی، اوغدائی، اور میرا بھائی جلمی، سب ہی یہی شکوہ کرتے ہیں۔ تم ایسا کرو کہ کوئی اور اچھا سا سفیر بھیجو ورنہ دنیا میں تو لاشیں ہی رہ جائیں گی۔
اٹیلا سے بھی بات چیت ہوئی۔ یار اٹیلے، روم کبیر اتنی بڑی تہذیب ہے، تم نے کیوں تاخت و تاراج کر دی۔ وہ کہنے لگا کہ ہم تو وہاں شہریت سیکھنے گئے تھے، سیزر نے مذاکرات کے لیے خلیل مقرر کیے۔ جانے کیا ہوا تھوڑی دیر بعد تلواریں بلند ہوئیں، نیزے پھینکے جانے لگے، تیر برسنے لگے، بہت روکا کہ ایسا مت کرو ہم نے شہریت سیکھنی ہے، یہ سب کچھ ہمیں زیب نہیں دیتا کسی نے نہیں مانی۔
مزید دیکھیے: خیام و سعدی اور سیاسی جھگڑا (طنز و مزاح) از، نصیر احمد
گدھے کا خواب! از، خالد کرّار
روم کا فلاویس بھی اپنے سپاہیوں کو سمجھاتا رہا کہ یار یہ مہمان ہیں، شہریت سیکھنے آئے ہیں، تم سینیٹ میں بہترین تقریر کے نسخے نکالو، مگر ان تہذیب یافتہ سپاہوں کو پتا نہیں کیا ہوا، انھوں نے خنجر نکال لیے اور ہم بے چاروں پر حملہ آور ہو گئے۔ مانو نہ مانو، یہ خلیل کی بات چیت میں کچھ نشہ ہے جس کے بعد صالح سے صالح شخص کے چہرے پر درندگی سی امڈ آتی ہے۔
ایسا غصہ ہمیں ایک ہی دفعہ زندگی میں آیا جب ہم مشرقی علاقوں میں شہریت کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے تو وہاں کے حکمرانوں نے کسی شاہ محمود قریشی نام کے شخص کو مذاکرات کے لیے بھیج دیا تھا، کیا یہ دونوں بھائی ہیں؟ تو تم لوگ کسی اور شخص کو مذاکرات کے لیے کیوں نہیں بھیجتے؟
ہم نے کہا بھائی اٹیلا، ہم تو کہتے رہتے ہیں مگر اقوام متحدہ ہماری کہاں سنتی ہے۔ ہم نے سوچا ،جاتے جاتے ہلاکو سے بھی پوچھ لیں کہ بھائی چرواہے یہ تم نے کیا کیا؟ فلک اور سعدی گریہ کر رہے ہیں کہ امیر المؤمنین نہیں رہے اور بغداد بھی اجڑ گیا۔
وہ کہنے لگا، قسم لے لو، خاقانِ اعظم کی جاوداں روح کی، ہم تو شاعرِ مشرق کے آباء کے موتیوں کی چمک دمک دیکھنے آئے تھے۔ خبر ملی کہ امیر المؤمنین کی طبیعت نا ساز ہے، کچھ گرم سرد ہو گیا ہے۔
ہمارے ملک میں رضائیاں اچھی بنتی ہیں، ایک اچھی سی رضائی منتخب کر کے اوڑھا دی کہ اچانک کسی نے کہا زلمے خلیل زاد امن مذاکرات کے لیے آئے ہیں۔ پتا نہیں کیا ہوا؟ خلیفہ کا دم گھٹ گیا، مجھے پورا یقین ہے کہ خلیفہ خلیل سے بات چیت کے خوف میں اتنا گھبرائے کہ فردوس مکانی ہو گئے۔
خلیفہ جو راہئِ عدم ہوئے تو ھالابایا کو قسم کا اودھم مچا اور قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، دجلہ بھی سیاہ ہو گیا۔ ہمارا کچھ قصور نہیں مگر فلک بھی ہم سے خفا، سعدی بھی ہم سے ناراض اور مسلمان تو ہر وقت بد دعائیں دیتے رہتے ہیں۔
ہمیں موتی بھی نہیں ملے، اب یہ بے چارہ نصیر الدین بچا ہے، شحنہ دہلی سے گھبرایا ہوا۔ اس کو ساتھ لے جا رہے ہیں۔ مگر تم لوگ بھی ناں، اصل مسئلہ نہیں حل کرتے، اب سنا ہے بغداد کی بحالی کے مذاکرات کی ذمہ داری بھی خلیل کو ہی سونپی ہے۔
اب ہم کیا کہتے، چپ رہے، کہ خلیل کا پردہ منظور تھا۔
شاہ محمود قریشی
مذاکرات نا کام ہو گئے؟ ہمیں خود شاہ محمود قریشی کو دیکھ کر ہی غصہ آ جاتا ہے، امریکی تو راکٹ ہو جاتے ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے شاہ محمود کوشش تو بہت کرتے ہیں مگر انہیں نہ تصنع کا سلیقہ آتا ہے اور نہ آداب۔ اور معاملات اتنے بھدے اور گھناؤنے ہو جاتے ہیں کہ غصے سے آدمی بے قابو سا ہو جاتا ہے۔
کوئی نارمل قسم کے وزیر خارجہ ہوں، ان کی جس بات پر دوسروں ملکوں کی مذاکراتی ٹیموں نے کھلکھلا کر ہنسنا ہے، شاہ محمود وہی ہنسی والی بات اس طرح پیش کریں گے کہ ہنسی والی بات میں ہنسی کا کا جواز ہی ختم ہو جائے گا اور وہ لوگ مُنھ بنا لیں گے۔
اور نارمل حالات میں جس بات سے تبسم کی توقع ہے، شاہ محمود وہ بات کریں گے تو لوگ پرے دیکھنا شروع ہو جائیں گے۔ پھر سفارتی حلقوں میں دُرُشت بات کہنے کا بھی ایک سلیقہ ہوتا ہے، لوگ درشتی کے ساتھ شیرینی کے امکانات زندہ رکھتے ہیں۔
لیکن جب شاہ محمود اس قسم کی کوئی بات کریں گے تو درشتی اس قدر فزوں ہو جائے گی لوگ مُٹھیاں بھینچ لیں گے، دانت پیسنا شروع کر دیں گے، میز کے پایوں کو لاتیں ماریں گے، شاہ محمود کے مُنھ پر مکا مارنے کی خواہش کو روکنے کی کوشش کریں گے۔
ایسے میں شاہ محمود شیرینی کا ذکر اتنے بھدے اور گھناؤنے طریقے سے کریں گےکہ کسی شدید قسم کی نا روائی سے بچنے کے لیے لوگ کھڑکیاں توڑ کر کمرے سے بھاگ جائیں گے یا انتہائی ضبط و تحمل سے کام لیتے ہوئے ملاقات کے خاتمے کے منتظر رہیں گے۔
آپ کو کیا پتا ہو گا، دنیا کے وزرائے خارجہ کو بڑی مشکل سے شاہ محمود سے ملاقات پر راضی کیا جاتا ہے۔ بونس کے لالچ دیے جاتے ہیں۔ اگلی دفعہ وزارتِ عظمیٰ کے، صدارت کے یا بادشاہی کے وعدے کیے جاتے ہیں تب وہ بیس تیس منٹ کی ملاقات کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔
اور خواتین مندوب، سفیر اور وزراء تو سخت بے زار ہیں۔ وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ شاہ محمود بدر بن مغیرہ بنے ہوئے ربیعہ اور اینجلا کو طویل تقاریر سناتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف دردِ سر کی گولیاں لینی پڑتی ہیں یا اپنے نفسیاتی معالجین سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
وہ فل ایلیٹ سے ایک دفعہ ہم نے پوچھا کہ تمھارا چیلنجنگ رویے رکھنے والے طالب علم کے ساتھ پہلا دن کیسا گزرا۔ وہ کہنے لگا، وہ ریل گاڑی بنا میرے آگے پیچھے گھومتا رہا اور میں چپ بیٹھا رہا کہ تربیتی لیکچر میں نے بڑی توجہ سے سنے تھے مگر جب وہ اچانک ریل کی سیٹی بجاتا تو میں بوکھلا سا جاتا لیکن سیٹی کب بجے گی، اس کا اندازہ میں نہیں کر سکا۔ یہ حالت ہوتی ہو گی بیچارے وزیروں کی، سفیروں کی۔
ایک مندوب تو ایک عجیب قسم کا الجھا ہوا، پیچیدہ، گنجلک ملوہ مواد لیے پریشان سے چلے جا رہے تھے۔ ہم نے روک لیے۔ سلام دعا کے پوچھا یہ کیا لیے جا رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے، اوہ یار یہ تمھارے ملک کے وزیر خارجہ سے گفتگو کا خلاصہ ہے۔ اب ڈانٹ پڑے گی اپنے صدر سے، وہ کہے گا یہ کیا اٹھا لائے ہو، لیکن کیا کروں، پندرہ سولہ گھنٹوں کی محنت کے بعد اس پیچیدگی کو اتنا ہی سیدھا کر پایا ہوں۔
یہ تم نے کشائش کے کس عقدہ مشکل کو وزارت خارجہ دے دی ہے۔ کشائش کو بھی بد ہضمی ہو گئی ہے اور عقدہ مشکل کو تو جیسے مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔
پھر وہ کہنے لگے، میرے خیال ہے تم لوگوں کی نیت ہی ٹھیک نہیں ہے۔ تم مذاکرات کامیاب کرنا ہی نہیں چاہتے، اس لیے تم لوگوں نے شاہ محمود کو وزیر خارجہ مقرر کیا ہے۔
خود ہی دیکھ لو، آگہی دام شنیدن بچھاتی رہتی ہے، مگر یہ طائرِ لا ہوتی دام میں آتا ہی نہیں۔ تم اس بات پر مغرور سے ہو گئے ہو، مگر جب بات سمجھ ہی نہیں آئے گی، تو بات بڑھے گی کیسے۔ تمھارے ہاں کے ادب میں نا قابلِ فہم ہونا تو ایک خوبی ہے لیکن ڈپلومیسی میں تو نہیں ہے ناں۔ نا قابلِ فہم ہونا تو پھر قابل برداشت ہے لیکن لیکن ساتھ میں یہ آرائش کے نام پر اتنا کوڑا کرکٹ باندھو گے ، پھر تو بات بالکل ہی نہیں ہو سکے گی۔
یہ تم لوگوں نے شیخ امام بخش ناسخ اور سعادت حسن منٹو کا عجیب سا امتزاج ہم پر لاد دیا ہے کہ صحت ہی بگڑ گئی ہے۔ اوپر سے صاحب خود کو ٹیلی روں (فرانس کے ایک مشہور ڈپلومیٹ) سمجھتے ہیں۔ جس سے غصے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اب ہم اس سے کیا کہتے۔ پہلے جی چاہا سامراج، استعمار، استبداد اور نو آبادیات کے گلے کرنا شروع کر دیں پھر چُوں کہ ہم خود بھی شاہ محمود کو نا پسند کرتے ہیں، ہم نے اس مندوب کی زور و شور سے تائید کی۔