مشتاق احمد یوسفی ، مزاح کے سنگھاسن پر

Naeem Baig
نعیم بیگ

مشتاق احمد یوسفی ، مزاح کے سنگھاسن پر

از، نعیم بیگ


یوسفی صاحب کہتے ہیں ’’ انسان کی حس مزاح ہی چھٹی حس ہے ، یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔
بے نشہ کس کو طاقتِ آشوبِ آگہی
یوں تو مزاح ، مذہب اور الکحل ہر چیز میں باآسانی حل ہوجاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں، لیکن مزاح کے اپنے تقاضے‘ اپنے ادب آداب ہیں۔ شرط اول یہ کہ برہمی ، بیزاری اور کدورت دل میں راہ نہ پائے، ورنہ یہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کر دیتا ہے۔مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی بھی نہ اٹھاسکے کہ یہ دھوآں سا کہاں اٹھتا ہے۔ ‘‘ (۱)
یوسفی صاحب، اپنی تحاریر میں مزاح کے بارے میں جس حسنِ ظن کا اہتمام کرتے ہیں، وہیں حسنِ قبول و گلو سوز کی مشتاقانہ منظر کشی میں خود کو ایک عام شخص سمجھتے ہیں، کسر نفسی ان کی رگ و جان میں پیوست ہے۔ ’’ یہ سرگزشت ایک عام شخص کی کہانی ہے، جس پر الحمدوللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔۔۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا ’اینٹی ہیرو‘ ہونے کا دعوی بھی نہیں کر سکتا۔ عام آدمی تو بے چارہ اتنی سکت و استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی زندگی کو مردم آزادی کے تین مسلمہ ادوار میں تقسیم کرسکے۔ یعنی جوانی میں فضیحت، ڈھلتی عمر میں نصیحت اور بڑھاپے میں وصیت۔ ‘‘ (۲)
تاہم واقعات، مشاہدات اور تاثرات کو رقم کرتے ہوئے وہ کبھی ان علتوں کا شکار نہیں ہوئے۔ میں نے انھیں کبھی خودستائی و بڑائی میں مبتلا نہیں دیکھا ، اس کی تفصیل اجمالاً آگے پیش کرتا ہوں۔ ان کے مرقوم خاکوں میں سب سے پہلے وہ خود اپنا خاکہ پیش کرتے ہیں تاکہ’ ممدوع‘ ہونے کے ناتے اپنے تیر و تفنگ کے پہلے شکار وہ خود بنیں۔ اپنی کتاب’ چراغ تلے ‘ کے مقدمے’ پہلا پتھر‘ میں اپنے خاکے کو جس جاں فشانی سے انھوں نے قرطاس ابیض پر بکھیرا ہے ، کوئی یہ دعویٰ ہی نہیں کر سکتا‘ کہ یوسفی صاحب کن پتھروں پر چل کر گھر کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ قاری دم بخود رہ جاتا ہے کہ کہاں مسکرائے، کہاں کھلکھلا کر ہنس پڑے، کہاں دم سادھ لے کہ دم نکلنے کی بات ہو رہی ہے اور کہاں دم توڑ دے کہ اس کے سانسوں کا زمانہ اس کے سامنے مکمل یوں کھلے میں پڑا ہے‘ کہ نوعمری کی طغیانی اور مہم جوئی، معاصرانہ چشمک اور سکندراعظمی سب ایک ساتھ تہ تیغ ہوئے جاتے ہیں۔
اولاً میری ان سے یادِ اللہ بینکر کی حیثیت سے تھی کہ وہ ہمارے سینئر ترین افسروں میں سے تھے ۔ ہاں البتہ ہم دونوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ ایک ہی بینک’ مسلم کمرشل بنک‘ سے غم روزگار ’کو سہل انگاری‘ کے حوالے کیا تھا۔ وہ ان چنیدہ افسروں میں تھے جنھیں میں ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں سے ہٹ کر جانتا تھا۔ تاہم ان سے مکمل تعارف انکی پہلی کتاب ’چراغ تلے‘ کے دیباچہ ’ پہلا پتھر‘ سے ہوا ۔ جس میں انھوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سے سب سے پہلے اپنا ہی خاکہ پیش کرڈالا۔ حالاں کہ یوسفی صاحب اس وقت انڈر فورٹی تھے اور ابھی بندہِ بشر سے بندہِ عاجزی ( حکمت اور عقل داڑھ کا ایک ساتھ نمودار ہونا) کے مراحل سے نہ گذرے تھے، لیکن اپنے بارے میں منکسر مزاجی بدرجہ اتم موجود تھی ۔ کہتے ہیں ’’ عمر کی اس منزل پر آن پہنچا ہوں کہ اگر کوئی سِن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں‘‘ ۔ (۳)
تاہم مجھے ان سے پہلی تفصیلی ملاقات کا شرف اسے وقت حاصل ہوا جب وہ ایک بار کوئٹہ بینکرز کلب کی دعوت کلام و دہن پر تشریف لائے تھے ۔ شاید نوے کی دھائی کا وسط تھا۔میں ان دنوں کوئٹہ میں تعینات تھا۔ میں شام کو بیگم بچوں سمیت شریک محفل ہوا۔ کوئٹہ کلب کے وسیع و عریض ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ، فضا یوسفی صاحب کی زیر لب مسکراتی ہوئی گفتگو سے معطر تھی اور ہال کے اندر پھیلے مسلسل قہقہوں کو خاموش کرانے کے لئے انتظامیہ کو یوسفی صاحب سے ہی درخواست کرنی پڑتی ۔
محفل کے اختتام پر چلتے ہوئے کہنے لگے صبح آ جانا ۔ تفصیلی ملاقات رہے گی۔ گھر پہنچنے پر رات دیر گئے ڈاکٹر فاروق احمد کا بلوچستان یونیورسٹی سے فون آگیا ۔ کہنے لگے ۔ وائس چانسلر صاحب نے کل کے لئے یوسفی صاحب کو دوپہر کی دعوت دی تھی، لیکن انھوں نے انکار کر دیا ہے‘ کہتے ہیں وقت نہیں‘ دوپہر کو کراچی کی فلائٹ ہے،۔ تم کچھ کرو‘ ہم اردو اور انگلش ڈیپارٹمنٹ والے سبھی منتظر ہیں، لیکن ان کے انکار کے بعد ہماری ہمت نہیں ہو رہی کہ ان پر دباؤ ڈالا جائے۔ میں نے کہا اچھا مجھ پر چھوڑ دو ، کچھ کرتا ہوں ۔
اگلے دن جب ان کی عارضی رہائش گاہ پر پہنچا تو میرے انتظار میں تھے ۔ خوب جم کر گفتگو ہوئی۔ کہتے ہیں نا! جب فوجی یا دو بینکارآپس میں مل بیٹھیں تو پھر گفتگو کا دائرہ ’ رموزِ عاشقاں عاشق بدانند‘ کے مصداق پیشے تک ہی محدود رہتا ہے۔ میں نے جب ان کا پروگرام پوچھا تو کہنے لگے اب دوپہر کو فلائٹ ہے۔ میں نے مزاحاً عرض کیا کہ آپ کا جہاز تو صرف ہماری مرضی سے یہاں سے اڑے گا۔ مسکرائے اور کہنے لگے اچھا!۔۔۔ اب بینکر اس قدر طاقت ور ہو گئے ہیں۔میں نے عرض کیا ،طاقت ور نہیں عاجز ہوگئے ہیں یونیورسٹی کے طلباٗ کے سامنے ، اور ساری تفصیل بتا دی۔ انہوں نے کمال شفقت سے حامی بھر لی۔ میں نے فوراً ان کی فلائٹ ٹائمنگ چیک کی تو خوش قسمتی سے ان کی فلائٹ دو گھنٹے لیٹ تھی ۔ میں نے ایئرپورٹ منیجر جو میرے دوست بھی تھے، کو یوسفی صاحب کی فلائٹ بارے بتا دیا اور تاکید کردی۔ سو یوں پہلی بار کوئٹہ میں ایک محفل ’ عہدِ یوسفی کی ایک دوپہر ‘ کے عنوان سے منعقد ہوئی ، پروگرام کا انتظام و انصرام فوری طور پرسرینہ ہوٹل میں کیا گیااور ساری یونیورسٹی وہیں امنڈ آئی۔
مجھے گفتگو کی تفصیلات تو یاد نہیں رہی ہیں لیکن ذہن کے ایک گوشے میں ایک مسکراہٹ چھپی بیٹھی ہے ، یوسفی صاحب کی گفتگو سے پہلے یونیورسٹی کی کامرس کی پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر قمر جہاں نے اپنے مختصر مضمون میں چھوٹتے ہی کہا ۔۔۔ ’’یوسفی صاحب اس عہد کی سب سے اہم میڈیسن ہیں، اور اس دوائی کا نام ہے ’زینکس‘ ! میں جب بھی ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہوں، بجائے زینکس کھانے کے‘ میں یوسفی صاحب کی کوئی کتاب اٹھا لیتی ہوں اور ایک آدھ گھنٹے میں جسم کے روئیں روئیں سے درد اور غم چھٹ جاتا ہے۔ ‘‘ یوسفی صاحب یہ سن کر دیر تک مسکراتے رہے ۔ اپنی جوابی خطاب میں انھوں نے کہا ۔ ’’مجھے اپنی اس خاصیت کا علم نہ تھا ورنہ میں پوٹینسی بڑھا دیتا۔‘‘ جس پر پوری محفل کشتِ زعفران بن گئی اورمیں دیر تک اس جملے کی گہرائی میں ڈوبا رہا ۔
یوسفی صاحب کے خاکے بظاہر تو زندگی کے خمیر سے اٹھے ان کے چشم دیدواقعات کی اسلوبیاتی تشکیل ہے لیکن جہاں جہاں واقعات اور اسبابِ واقعات میں تقدیم و تاخیر ہو وہاں جس خوبصورتی سے وہ کرداروں کے درمیاں آ کر خوفِ فساد خلق سے سیاہ کو سفید کر دیتے ہیں ،وہ انھی کی زبان و بیاں کا کرشمہ ہے۔
وہ لکھتے ہیں ۔ ’’ اس گڈ مڈ کے باوجود اگر کہیں کسی شخصیت یا حقیقت سے مماثلت پائی جائے تو اسے ’ فکشن‘ کا سقم تصور کیا جائے۔‘‘ (۴)


مزید دیکھیے:  ایک عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی دنیا سے روٹھ  گئےاز، احمد سہیل

یوسفی صاحب کا مکتوب بنام مبشر علی زیدی، العروف اختصار پسند  از، مبشر علی زیدی



زبان اور اِملا کے معاملے میں یوسفی صاحب اکثر اپنی راجستھانی اردو سے نالاں رہے ہیں، اور کم و بیش اپنی ہر کتاب میں کہیں نہ کہیں اس کا ذکر خیر بھی کیا ۔ لطیف پیرائے میں دوستوں سے بیگم تک کی اصلاح لینے کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں، لیکن سچ پوچھئے ، انھوں نے کبھی اپنی راجستھانی بولی بولنے اور لکھنے پر شرمندگی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ دیتے بھی کیوں انھیں ہمیشہ فخر ہی رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مزاح نگار کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ ہنسی ہنسی میں اس طرح کہہ جاتا ہے کہ سننے والے کو بہت بعد میں خبر ہوتی ہے ۔ ’’ میں نے کبھی کسی پختہ کار مولوی یا مزاح نگار کو محض تقریر و تحریر کی پاداش میں جیل جاتے نہیں دیکھا۔ مزاح کی میٹھی مار بھی شوخ آنکھ، پرکار عورت اور دلیر کے وار کی طرح کبھی خالی نہیں جاتی۔ (۵)
اپنے مجموعے ’ خاکم بدہن ‘ کی زبان بارے شان الحق حقی صاحب سے اصلاح لیتے رہے ہیں اور بڑی توجہ اور محبت سے ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے وہ تمام حقائق بھی بیان کر گئے ہیں جو دورانِ تحریر ظہور پذیر ہوئے۔ شان الحقی کی ساتھ اپنی ایک ملاقات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’ ہاں قصور پر خوب یاد آیا۔آپ نے ایک جگہ فوتیدگی لکھا ہے۔ یہ مارواڑیوں کی سی اردو آپ نے کہاں سے سیکھی؟
عرض کیا‘ مارواڑ میں‘ جہاں ہم پیدا ہوئے۔ ہمیں کار سے اتر کر فٹ پاتھ پرگلے لگاتے ہوئے بولے۔ تو گویا‘ اردو آپ کی مادری زبان نہیں ہے! حالاں کہ آپ کی اہلیہ تو اہل زبان ہیں۔ خدا انھیں خوش رکھے‘ کہ انھوں نے ہماری اردو کی نوک پلک سنوارنے میں ہماری بیگم کا ہاتھ بٹایا۔ ‘‘ (۶)
یوسفی صاحب کے ہاں لسانی تشکیلات پر اِن کے اندر چھپے ہوئے کسی شاعر کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ان کے وضع کردہ مناظر معنویت کا اہتمام تو کرتے ہیں، لیکن جذبات و احساسات میں منجمد یا یک پہلو نہیں ۔ وہ اپنے لفظی پیکروں سے ایک زاویہ نہیں دکھاتے بلکہ ان تصاویر کے پیچھے انسانی رشتوں کے بنتے بگڑتے وقت کے نازل کردہ عذاب اور سماج کے دیے گہر ے گھاؤ بھی دِکھا جاتے ہیں۔
۷۰.ء کی دھائی کے آخر میں جب روزگار کے سلسلے میں لندن جانا پڑا تو اس وقت تک ان کے خاکوں کے تین مجموعے ’ چراغ تلے‘ ’خاکم بدہن‘ اور’ زرگزشت‘ اردو ادب میں تہلکہ مچا چکے تھے ۔ تاہم ۱۹۹۰.ء میں منصہ شہود پر آنے والے ان کے مجموعے ’ آبِ گم ‘ نے ایک نیا سماں باندھا۔ یوسفی صاحب اپنی ادبی زندگی کے تین ادوار میں منقسم ہیں ۔ پہلا وہ جس میں انھوں نے اپنی پہلی تین کتابیں تصنیف کیں۔ دوسرا وہ جہاں وہ ایک طویل وقفے کے بعد’ آب گم‘ کے ساتھ نمودار ہوئے اور تیسرا جب دوسرے طویل وقفے کے بعد اپنے ملفوظات و تقایر کا ایک مجموعے ’’ شام شعرِ یاراں ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۴.ء میں ترتیب دیتے ہیں جو پہلے دونوں ادوار اور مختلف شخصیات کے بارے مشتمل ہے۔
اس طرح قارئین اور اہل نقد و نظران ادوار میں شریک ان کے ہاں زبان و بیان اور اسلوبیاتی ندرت دیکھتے ہیں ۔ ہر دور پہلے دور پر اوورلیپ نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی فہم و فکر کو اپنے مخصوص رومانی اور جمالیاتی اسلوب میں ڈھال دیتے ہیں۔ ان کا جمالیاتی شعور اس قدر گہرا اور پختہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے اندر جھانک کر کائنات کی پھیلی ہوئی مسحور کن خوشبو کا جائزہ لیتے ہیں اور لطیف پیرائے میں مزاح کی صورت کھول دیتے ہیں ۔ قاری کو پہلی نظر میں الفاظ ہی ہنسا دیتے ہیں لیکن ذرا سا گہرا شعور رکھنے والا قاری اندر سے جکڑ لیا جاتا ہے۔
انسانی خمیر میں گندھا ہوا وہ ثقافتی پہلو جس پر ایک عام ادیب صرفِ نظر کرتا نظر آتا ہے، ان کے یہاں ادبی جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوسفی صاحب کے ہاں زباں کی عمومی کثافتیں ہر سطر میں نتھرتی نظر آتی ہیں اور یوں انھی کے جانے پہچانے اسلوب سے ہٹ کر طنز و مزاح میں ہر بار ایک نیا طرز تحریر سامنے آتا ہے۔
یوسفی صاحب نے اپنے ہر دورمیں موضوعاتی تنوع کو بے حد اہم جانا ہے ، یوں طنزو مزاح سے بھرپور بیانیہ مزید لطیف اور شگفتگی میں نرم و نازک ہوتا گیا‘ یوں آپ کو ’’آب گم‘‘ کا موضوع اور ذائقہ بالکل مختلف نظر آتا ہے، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ تجربے نے خود اپنے پیرائے اور لہجے کو متعین کیا۔
انسان کی ہجرتوں کا نامختم سفر ، اس کا عذاب اور اس کا ذائقہ تو انھوں نے اپنے پہلے مجموعے میں ہی رقم کیا تھا‘ لیکن ’ زرگزشت‘ میں وہ سفر اپنے عروج پر تھا۔ اس کرب کو ذات اور انسانی انحراف کی صورت تجسیم کرنے کی بجائے انھوں نے ایک اور مشکل راستہ چنا ‘جو ان کے طنز و مزاح کے اس تھکا دینے والے سفر کا موجب بنا۔ انھوں نے وجود کے مضطرب اور مثبت عمل کے استعارہ کو وجہِ مزاح بنایا ،لیکن اسے الہامی یا تصوراتی نہیں ہونے دیا بلکہ اس متن میں انسان کے رنگ بھر دئے۔ وہ وجود کے اثبات کو یقین کی منزلوں تک لے آتے ہیں ،سو مزاح روح کے اندر اتر جاتا ہے ۔
اہم بات یہ تھی کہ اس بارگی خود نوشت سوانح عمری ’’ زرگزشت‘‘ سے ہٹ کر معاملہ دوسروں کی سوانح عمری بلکہ نوعمری تک پہنچا۔ مشاہدے کے وجدان سے ان کے اندر جو گیرائی پیدا ہوئی وہ ان کے قلم میں بے تاب لفظوں کو سرد و گرم کرتے گذری ،وہ انھی کی شان تھی کہ اسے سنبھال گئے۔ ماضی کی یادوں کے بلاوے پر جو داستانی رنگ یوسفی صاحب نے جمایا وہ کسی اور کے بس کا کھیل ہی نہیں تھا۔یوں سوانح عمری میں پوری کہانی اپنی ہی زبانی سچی داستان کہتے ایسے گذری کہ اسے فکشن کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔جہاں چاہا‘ باریک بینی کے اتھاہ سمندر میں اتر گئے اور بات سے بات بناتے ہوئے جزیات نگاری کے عیوب کو لاپروائی سے یکسر بصری سانچے میں ڈھال دیا۔
یہ یوسفی صاحب کے قلم کا اعزاز ہے وہ اپنی کلبیت، طبعی اور ادبی عمر کو تحسین اور تنقیص سے حد درجہ مستغنی سمجھتے ہیں۔چونکہ طبعاً اصول پرست اور عادتاً یاس پسند ہیں لہذا قنوطیت کو قطعاً بار نہیں سمجھتے ۔’ آب گم‘ میں مارک ٹوین اور ڈین سافٹ کا حوالے دیتے ہوئے ان مشاہیر کی قنوطیت کو سراہتے ہیں، اور خود اپنی ان سے ذرا سی مماثلت کو مایوسی کے مترادف نہیں سمجھتے، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
یوسفی صاحب جہاں پروفیشن اور ادبی دنیا میں اپنے قد و کاٹھ سے بلند ترین سطح پر ایستادہ ہیں، وہیں ان کے اندر کا ایک عام شخص ہمیشہ زندہ رہا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی چوتھی کتاب ’ آبِ گم ‘ میں اپنے پہلے مجموعوں کے برعکس ایک عام زندگی سے کردار اٹھائے۔ ’آب گم ‘ کے پہلے خاکے بعنوان ’ حویلی‘ کو ہی دیکھ لیجیے، بشارت علی فاروقی کے چچا اور سسر جیسے کردار راجستھان کی کھوکھ سے بازیافت کئے۔ اس طرح انھوں نے اپنے آپ کو بھی ایک عام آدمی ثابت کیا ہے ،جو بلاشبہ ایک خالص علمی و فکری شخصیت کی انتہا درجہ پر کسرنفسی و عاجزی کا مظہرہے ۔
آپ نے ’آب گم‘ کے کرداروں کو زندگی کی اُن منفرد راہوں سے منتخب کیا ہے، جو ہر جگہ ہر وقت اور ہر لمحے آپ کے وجود کا حصہ بنے رہتے ہیں ۔آپ فطرت کی عکاسی جذبات کی حدت سے انھی کرداروں میں کرتے ہیں۔ آپ کا فکری استغراق بالکل منفرد ہے۔ بظاہر آپ لفظوں سے اپنے رشتے جوڑتے نظر آتے ہیں ، لیکن درحقیت انھی الفاظ کے طلسم سے یوسفی صاحب اپنے اندر کے وجدان کو ایک پروگریسوسمت دیتے ہیں۔ وہ انسان کو کمتر نہیں سمجھتے بلکہ اگر ایسا ہو تو خود اس کے ساتھ کھڑے ہوکر انسانی جذبوں اور رشتوں کا مان رکھ لیتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ اگر مصنف کی فکر ترقی پسندانہ نہ ہو تو وہ چاہے جتنی بھی اہم ، وسیع اور معتبر کیوں نہ ہو ، وہ نثری تجربے میں اپنی جمالیاتی افادیت کو ایک حد تک ہی سنبھالے گی اور بقیہ زائل کر دے گی۔ یوسفی صاحب کے ہاں ایسی ہی امثال ہیں ، وہ اپنی انسان پسندی و اصول پرستی کو سطحی جذباتی رویوں سے اوپر اٹھا لاتے ہیں ، اور ایک بینکر کی طرح ایک ایک پائی کا حساب چکاتے ہوئے‘ طنز و مزاح اور الفاظ کے ہیر پھیر کے سنہرے اوراق میں لپیٹتے ہوئے قاری کو اظہار کی کلاسیکیت کی ارفع روایات کے اندر رہتے ہوئے وہ احساس دے جاتے ہیں جو عام سطح کے مزاح نگار کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اپنے اس دوسرے اور تیسرے دور میں انھوں نے انسانی زندگی کو تجربے کے نچوڑ میں پرکھا ہے جبکہ اولین خاکے ان کے مشاہدے کی بے نظیر مثل ہیں ۔ یہی وجہ ہے، کہ انسانی جمالیات اور رومانیت کا صدیوں پرانا نغمہ بھی ان کے ہاں اتنی ہی توانائی سے گونجتا ہے، جس کی سنگت میں جدید دور کے تقاضے قطعاً رد نہیں ہوتے بلکہ ایک اثاثے کے طور پر سامنے نظر آتے ہیں۔
لکھتے ہیں ۔ ’’ میں نے زندگی کو ایسے ہی لوگوں کے حوالوں سے دیکھا، پرکھا اور چاہا ہے۔ اسے اپنی بدنصیبی ہی سمجھنا کہنا چاہیے کہ جن’بڑے‘ اور ’ کامیاب‘ لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، انھیں بحیثیت انسان بالکل ادھورا ، گرِہ دار اور یک رخا پایا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ جس کثیر تعداد میں قادر مطلق نے عام آدمی بنائے ہیں‘ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بنانے میں اسے خاص لطف آتا ہے ورنہ اتنے سارے کیوں بناتا، اور قرن ہا قرن سے کیوں بناتا چلا جاتا۔ جب ہمیں بھی یہ اتنے ہی اچھے اور پیارے لگتے ہیں تو جاننا چاہیے کہ ہم نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔‘‘ (۷)

حواشی

(۱) دستِ زلیخا از خاکم بدہن ( صفحہ نمبر ۹)
(۲) تزکِ یوسفی از زرگزشت (صفحہ نمبر ۱۰)
(۳) پہلا پتھر از چراغ تلے ( صفحہ نمبر ۱۱)
(۴)تزکِ یوسفی اززرگزشت (صفحہ نمبر۱۱)

(۵) زرگزشت( صفحہ نمبر ۱۳)
(۶) خاکم بدہن (صفحہ نمبر ۱۴)
(۷) آب گم ( صفحہ نمبر ۲۳)

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔