الوداع قادر خان
از، حسین جاوید افروز
جہاں ایک طرف نئے سال 2019 کی آمد کا جشن منایا جارہا تھا وہاں اچانک یہ دلدوز خبر سننے کو ملی کہ بولی وڈ کے مایہ ناز فن کار قادر خان اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہے۔ قادر خان ایک ایسا انسان جس نے ایک زندگی میں ہی کئی زندگیاں زندہ دلی سے جی لیں اور اپنی بزلہ سنجی،ذہانت اور صاف گو فطرت کے بل پر کروڑوں چاہنے والے بنائے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ قادر خان مرحوم کے کئی تعارف ہیں بل کہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔
جب ہم بطور ادا کار ان کی فنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم پر یہ راز کھلتا ہے کہ ایک شاطر ولن سے لے کر ایک کامیڈین تک اور ایک درویش کے کردار سے لے کر مہربان باپ کے کردار تک قادر خان نے اداکاری کے شعبے میں تنوع عطا کیا ۔اسی طرح بطور ایک اسکرپٹ رائٹر سے لے کر ڈائیلاگ رائٹر تک ان کی خداد ادصلاحتیں ان کی مہارت کا منھ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ قادر صاحب بولی وڈ کے کئی کامیاب ادا کاروں کی طرح سونے کا چمچہ لے کر ہرگز پیدا نہیں ہوئے تھے بل کہ ورثے میں ان کو حقیقی معنوں میں زندگی کانٹوں کی سیج کی صورت میسر آئی تھی ۔وہ اکثر اپنی ابتدائی زندگی پر گفتگو کرتے کہ کس طرح مفلسی میں انہوں نے ہوش سنبھالا اور تنگدستی نے جیسے ان کے گھر ڈیرے ہی ڈال دیے تھے۔
ان کا خاندان بمبئی کے سب سے زیادہ بدنام اور خطرناک علاقے کماٹی پورہ میں مقیم تھا جہاں کونسا ایسا جرم تھا جو نہیں ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ کماٹی پورہ جسم فروشی کے ہید کوارٹر کے طور پر بھی بمبئی میں منفی شہرت کا حامل رہا ہے۔ کئی بار تو حالات اتنے کٹھن ہو جاتے کہ ان کو پیٹ بھر کر کھانا ہفتے میں چار دن ہی مل پاتا اور اکثر فاقوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا۔
اسی مفلسی کی بدولت ان کے والدین میں طلاق ہو گئی اور قادر صاحب کو بچپن میں ہی سوتیلے باپ کی پھٹکار کا عذاب سہنا پڑا۔ ایک وقت ان کی زندگی میں ایسا بھی آیا جب انہوں نے دو وقت کی روٹی کھانے کیلئے تعلیم کو خیر آباد کہہ کر مزدور بننے کا فیصلہ کیا ۔لیکن بقول قادر خان یہ میری ماں ہی تھی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا آج تو مزدور بننے کیلئے تعلیم چھوڑے گا تو زندگی بھر دو وقت کی روٹی کے گرد ہی گھومتا رہے گا لہذا پڑھائی جاری رکھ۔ اور یہی وہ وقت تھا جب قادر خان نے نا مساعد حالات کے با وجود تعلیم جاری رکھی۔
ان کے حقیقی والد جو ایک عالم دین تھے انہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور قرآن پاک، دینی تعلیم کی جانب بھی راغب کیا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور وہ وقت بھی آیا جب قادر خان نے سول انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کر لی اور بطور استاد اپنے فرائض انجام دینے لگے۔
بولی وڈ میں جنسی ہراسانی کی یلغار از، حسین جاوید افروز
قادر خان کے مطابق کئی بار بچپن میں سخت کوشی کی زندگی سے نالاں ہو کر وہ اپنی فرسٹریشن اتارنے کے لئے قبرستان چلے جاتے اور خود کلامی میں مشغول ہوجاتے یوں دھیرے دھیرے وہ خود سے مکالمے بولتے چلے جاتے اور یہ عادت اس قدر پختہ ہو گئی کہ وہ راہ چلتے کئی لوگوں کی چال ڈھال اور بات کرنے کے طریقے پر گہرا مشاہدہ کرتے اور اسی سٹائل میں قبرستان میں پیروڈی کرتے ۔اسی طرح انہوں نے لکھنا بھی شروع کیا اور یوں انہوں نے لوکل ٹرین کے نام سے اپنا پہلا کھیل لکھا جو کافی مقبول ہوا ۔اس پر ان کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور بطور انعام پندرہ سو روپے بھی ملے۔
ایک دن ان کو نریندر بیدی فلم ڈائریکٹر نے بلایا اور کہا کہ میری فلم جوانی دیوانی کے لئے مکالمے لکھو ۔قادر صاحب بولے کہ میں نے کبھی فلم کے لئے مکالمے نہیں لکھے ۔مگر بیدی صاحب نے کہا تم کام تو شروع کرو اور دو ماہ میں کام مکمل کر دو۔
بقول قادر خان میں وہاں سے بمبئی کے ساحل میرین ڈرائیو گیا اور محض تین گھنٹے میں ہی کام ختم کرڈالا۔ جب بیدی صاحب کو جاکر کام دکھایا تو انہوں نے بہت داد دی اور یوں سلسلہ چل نکلا۔اسی دور میں من موہن ڈیسائی نے مجھے اپنی فلم روٹی کیلئے مکالمے لکھنے کا ٹاسک دیا اور کہا کہ اگر مجھے کام پسند نہ آیا تو تمھارے سامنے صفحے پھاڑ دوں گا اور اگر مجھے کام بھا گیا تو سر پر بٹھاؤں گا۔خدا کا شکر ہے کہ میرے لکھے گئے مکالمے اتنے ہٹ رہے کہ پھر ہیرو راجیش کھنہ نے زور دیا کہ میری فلم کے مکالمے قادر خان ہی لکھے گا۔ان دنوں فلم انڈسٹری میں دو گروپ تھے ایک پرکاش مہرہ گروپ اور دوسرا ڈیسائی گروپ۔مگر میں دونوں کیلئے مکالمے لکھتا رہا اور اللہ نے عزت دی۔
اب قادر خان کی بطور ڈائیلاگ رائٹر اتنی دھوم مچ گئی کہ ان کو ایک لاکھ تک کا معاوضہ ملنا شروع ہوگیا۔ان کے اثر دار مکالموں کا جادو ہمیں امر اکبر انتھونی، مقدر کا سکندر ،ماسٹر جی، شرابی ،لاوارث،دیش پریمی جیسی لازوال فلموں میں دکھائی دیتا ہے اور ان مکالموں نے امتیابھ بچن کو عروج کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ امتیابھ بچن، قادر خان کی زبانی ڈائیلاگ ریہرسل کے اتنے عادی ہوگئے کہ گھنٹوں ان کے پاس وقت گزارتے اور بعد میں یاد گار انداز میں سین فلمبند کرانا ان کے لئے آسانی سے ممکن ہو جاتا۔ یوں مدراس سے بمبئی تک قادر کے مکالموں کا شہرہ رہا بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ انہوں نے اس حوالے سے با قاعدہ حکومت کی۔
قادر خان کے مکالمے پبلک کے نباض ہوا کرتے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ وہ کبھی بھی خود نمائی کا ہر گز شکار نہیں رہے اور یہی ان کی عظمت کا مُنھ بولتا ثبوت ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے اس حوالے سے مشتاق یوسفی، منٹو، گورکی اورابراہیم جلیس کو پڑھ کر اپنے آپ کو نکھارنے کا خوب موقع ملا۔
بطور رائٹر اپنے دماغ میں ایک آڈیٹوریم بنائیں اور پبلک کو دماغ میں رکھ کر لکھیں۔ قادر خان فخریہ انداز میں کہا کرتے کہ یہ میری ہی تخلیق تھی کہ میں نے بمبئی کی فٹ پاتھ پر بولی جانے والی زبان کو فلموں میں متعارف کرایا۔ اس کے بعد زندگی نے قادر خان کو پھر آزمایا اور دلیپ کمار کے اصرار پر انہوں نے ایکٹنگ کے میدان پر بھی قدم رکھ دیا اور فلم بیراگ سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
بطور اداکار قادر خان نے ایک ولن ،ایک کیریکٹر ایکٹر اورکامیڈین کے طور پر اپنی چھاپ چھوڑی اورکئی چھوٹے غیر معروف ڈائریکٹرز کی فلموں میں اس لئے بھی کام کیا تاکہ ان کو کام ملے ۔ قادر خان نے فلموں میں لاتعداد ڈبل اور ٹرپل کردار نبھائے ۔ان کے نزدیک انگار میں ایک ڈان کا کردار ،وردی میں بیک وقت ایک سفاک ولن اور ایک کامیڈین کا کردار ،قلی میں ایک بے رحم ولن کا کردار اور جیسی کرنی ویسی بھرنی میں ایک بے بس باپ کے کردار ان کے بے حد پسندیدہ رہے ۔لیکن پھر ایک دن ان کے بیٹے نے شکایت کی کہ بابا آپ ولن بنناچھوڑ دیں اس وجہ سے مجھے سکول میں مار پڑتی ہے۔
اس واقعہ کے بعد قادر خان نے فلم ہمت والا سے بطور کامیڈین ایک کردار ادا کیا جس کے بعد ان کے سامنے کامیڈی رولز کی ایک جھڑی سی لگ گئی۔لوگ ہیرو کے علاوہ ان کی وجہ سے بھی فلموں میں دلچسپی لیتے اور یوں باپ نمبری بیٹا دس نمبری،آنکھیں،راجہ بابو،قلی نمبرون،ساجن چلے سسرال،نصیب،ہوشیار ،ہیرو نمبرون ،حسینہ بھاگ جائیگی سے قادر خان نے شکتی کپور اور گوندا کے ساتھ کامیڈی فلموں کی ایسی ٹیم تخلیق کی جس نے ایک دہائی تک عوام کو معیاری فلمیں دیں۔بقول رضا مراد ،قادر خان درست معنوں میں اداکاری کا ڈیپارٹمنٹل سٹور تھے۔قادر خان کا امتیابھ بچن کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا اور دونوں نے ایک ساتھ کئی فلموں جیسے مسٹر نٹور لال ،دو اور دو پانچ ،مقدر کا سکندر ،مہان ،نصیب ،قلی ،فیملی،اندرجیت، ،شہنشاہ،یارانہ،سہاگ،بڑے میاں چھوٹے میاں،انقلاب ،ہم ،کالیا اور عدالت میں مل کر کام کیا ۔لیکن بقول قادر خان ، بچن کے سیاست میں جانے کے بعد ان کے اور بچن کے درمیان فاصلے پیدا ہوگئے اور امتیابھ سے ملنا شائد اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے کبھی تھا۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ آخری عمر تک وہ امتیابھ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کو یاد کرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ امتیابھ نے بھی ان کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے ہی یاد کیا ۔لیکن قادر خان کی بیماری اور زائد عمر کی بدولت ان کے لئے فلمی مصروفیات جاری رکھنا ممکن نہیں رہا اور یوں ان کی محبت کا دم بھرنے والی کئی اہم فلمی شخصیات نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔تاہم ان کے پرانے رفیق شکتی کپور آخری دم تک ان کے ساتھ رہے ۔آخر میں ہم قادر خان کی زندگی کے اس خفیہ گوشے کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو اکثر پڑھنے والے نہیں جانتے۔
چُوں کہ ان کے والد ایک عالم دین تھے لہٰذا ہمیشہ سے قادر صاحب کے دل میں یہ خواہش موجزن رہی کہ وہ دین کی ترویج اور ریسرچ کے حوالے سے کام کریں۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے حیدر آباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے عربی بھی کر لیا۔ اب ان کی خواہش تھی کہ نئی نسل کے لیے عربی میں ایسے شارٹ ٹرم کورسز کرانے کا اہتمام کیا جائے کہ جن کی مدد سے وہ قرآن و حدیث کو سمجھ سکیں۔
وہ اپنے اس نہایت مفید پروگرام کو پاکستان، ہندوستان اور کینیڈا تک پھیلانے کے خواہش مند بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گھر میں بھی اسلامی کتابوں پر مشتمل ایک وسیع لائبریری بھی قائم تھی جہاں وہ پڑھائی لکھائی کا کام جاری رکھتے۔ بطور مسلمان وہ ہمیشہ مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کی بھر مار سے شاکی رہے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے بھی پرجوش داعی رہے۔
آج قادر خان اس دنیا سے بہت دور جا چکے ہیں لیکن وہ اپنی عاجزی اور زندہ دلی کے باعث ہمیشہ اپنے پرستاروں کے دل میں رہیں گے۔ ان کی عاجزی ان ہی کے اس جملے سے عیاں ہوتی ہے کہ میں زندگی کی دوڑ میں بھاگتا رہا اور دوسرے نمبر پر آیا کیوں کہ نمبر ون کے لیے جگہ بہت ہی تنگ تھی۔