فلم ’آئی لینڈ‘ اور پروپیگنڈا سکولز

فلم و عمرانیات

پروپیگنڈا سکولز
Base illustration credit, Le Capte

فلم ’آئی لینڈ‘ اور پروپیگنڈا سکولز

تبصرۂِ فلم از، فرحت اللہ

حقیقی زندگی اور فلم کا تعلق حواس و دماغ کا ہے۔ حقیقی زندگی (حواس)  فلم (دماغ) کےلیے خام مال مُہیّا کرتی ہے۔ جس کو لے کر فلم اپنے طَور سے اُسے پیش کرتا ہے۔ کبھی کبھار دماغ میں آرٹسٹ کی رُوح پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور یوں، جب کبھی فلم آرٹ کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو وہ خواب دِکھانے لگتی ہے۔ تَحریر، تَقریر اور عمل کی آزادی کے خواب، نئی صبح، امکانات اور اُن سے بھی آگے کے..

’فلم اور عُمرانیات‘ کے سِلسِلے میں آج ہم فلم ’آئی لینڈ‘ کے بارے میں گُفتُگو کریں گے۔ فلم ’آئی لینڈ‘ بھی شک و شُبہ سے ہوتی ہوئی اِسی نَوع کے  خواب دِکھاتی ہے۔ ہر سَماج کی طرح ’بَند سماج‘ کا اِستِعارہ لیے یہ فلم مجھے اچّھی لگی۔ اِس لیے بھی کہ ہمیشہ میرے پِیشِ نظر یہ سوال رہتا ہے کہ سَماج فرد کےلیے ہے یا فرد سَماج کےلیے؟ بعینہ یہی سوال خاندان، ریاست اور کائنات کےلیے بھی ہے..
مُختَصر کہانی کچھ یوں ہےـ

ایک مُکمَّل بَند ماحول میں رہنے والے لوگوں کو بڑی بڑی اِسکرِینوں اور اِشتہارات کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ باہَر کی تَباہ شُدہ اور خَوف ناک حد تک زِہریلی دنیا میں مَحفوظ مَقام صرف یہی بچا ہے، جَہاں آپ  مُقِیم ہیں۔ (راقم اِس جگہ کو اِسکول/مدرسہ سمجھتا، مانتا ہے ـ جہاں بَقَولِ نوم چومِسکی، ’عِلم‘ کے نام پر پروپیگنڈے کے ذریعے ایک ”قوم“ کی تَشکیل کی جاتی ہے۔)

ایک اور بھی جگہ ہے جو کُھلے آسمان کے نیچے، نِیلے سَمُندر کے بیچ ایک سَرسَبز و شاداب جَزِیرہ ہے۔ جہاں اِس بَند سَماج کے لوگوں کو دن میں دو بار ’لاٹری‘  کے ذریعے اُس جَزیرے پر بھیجنے کا اِنتِظام بھی ہوتا ہے۔ اِس بَند سَماج کے لوگوں کو خاصے ڈَھلے ڈَھلائے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ ایک سخت مُنَظَّم ٹائم ٹیبل ہے، جس پر یہاں کے لوگوں کو پُوری طرح کار بَند بنانے کے لیے کام کیا جاتا ہے۔

یہاں دو طرح کے لوگ بَستے ہیں۔ ایک تو  سَفید کپڑوں والے شَہری ہیں، جن کی تعلیم و تَربِیَّت کچھ اَیسے نَہَج پر کی جاتی ہے کہ اُن کی ذہنی سَطح پَندرہ سالہ بَچّے سے نہ بَڑھنے پائے۔ مطلب یہ ہوا کہ وہ ’بڑے‘ بَچّے کہلائے جا سکتے ہیں جو زیادہ گہرائی میں نہیں سوچ سکتے۔ دوم کالے کپڑوں والے لوگ، جو دَر اصل یہاں کے مُنتَظمِین ہوتے ہیں۔ ہاں! بلُو اوور آل والے لوگ بھی ہوتےہیں، جو کالے کپڑوں والوں میں سے ہوتے ہیں۔

شَہری بَچگانہ مِزاج کے حامِل ہونے کے سبب لاٹری لگ جانے کے اِمکان کا سوچ کر خُوش ہوتے رہتے ہیں مگر ایک  کِردار سوچ سَکنے والا بھی مِلتا ہے، جو ماحول کے تَکَدُّر اور غَیر فِطری ہونے کو مَحسوس کرتا ہے۔ یہ کِردار ’لِنکولِن سِکس ایکو‘ کا ہے، جو ٹائم ٹیبل کے مطابِق یا مینیو  Menu کے سَبَب مِلنے والی خوراک پہ سوال اُٹھاتا ہے۔ جو مَحسوس کرتا ہے کہ جَزِیرے والی بات کچھ جَم نہیں رہی۔ جو ایک دِن ایک کِیڑے کو اُڑتا دیکھتا ہے اور حَیرت میں پَڑ جاتا ہے کہ اگر باہَری دُنیا زِہریلی ہے تو یہ کِیڑا وہاں کَیسے زندہ رہا ہو گا؟

اِس سوال کا جواب ڈُھونڈنے کےلیے وہ اِس بَند ماحَول کو پاور سَپلائی کرنے والے، کاٹھ کَباڑ سے پُر بوائلر رُوم میں چوری چُھپے چَلا جاتا ہے، جَہاں کے مُنتَظِم ’جیمز میکارڈ‘ کے ساتھ وہ پہلے سے ہی کسی نہ کسی طرح جان پہچان بنا چکا ہوتا ہے۔ وہاں سے اُس کا شَک پُختہ ہو جاتا ہے اور یہاں سے نِکلنے کی سوچنے لگتا ہے۔ یہ یاد رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ لِنکولِن سِکس ایکو کے میڈیکل ٹیسٹس بھی لِیے جاتے ہیں، جِس کا سَبَب اُس کے اِس بَند ماحول کےلیے مُناسِب رَوَیّے کے بَر عَکس رَوَیّے کا ہونا ہوتا ہے۔


مزید دیکھیے:  خدائی نظر کی زد میں، سَماجی رزمِیّہ ’دَ ٹرُومین شو‘ از، فرحت اللہ


اِس موقع پر ’جارڈن ٹو ڈیلٹا‘ نامی لڑکی کو جَزِیرے پر بھیجنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ لِنکولِن سِکس ایکو  اِس لڑکی کی طرف مائِل ہے اور یُوں دل کے ہاتھوں مَجبور ہو کے وہ لڑکی کو جَزیرے پر بھیجے جانے سے پہلے بَھگا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ آگے کِس طَرح وہ دُنیا کو دَریافت کرتے ہیں؟  اور اپنی ’شَناخت‘ کے مُقابِل وہ اَپنے ’نِیستی یا عدم‘ سے کَیسے نِبَٹتے ہیں؟ کیا کچھ مَسائِل پیش آتے ہیں؟ اِس کےلیے آپ فلم دیکھیے گا۔ اور اب فلم میں مَوجود عَلَامات کی طرف آتے ہیں..

۱: جَزِیرہ:  ’فَلسفۂ لِبرِل ازم‘ کے عَلَم بَرداروں میں سے ایک ’رابرٹ نوزیک‘ اپنے مضمون ’یُوٹوپِیا‘ میں لکھتے ہیں…


”… یوٹوپیا اِتنی بَہُت سی مُختلِف اُمنگوں کا مرکز ہے کہ اِسے سمجھنے کےلیے کئی قِسم کے نَظریاتی راستے اِستعمال ہونے چاہییں… یہ سوچ بےبُنیاد ہے کہ ایسا کوئی سَماجی گَروہ ہو گا جو سب کےلیے آئیڈیل بن سکے گا..“

اِس فلم میں جَزیرے  کا تَصوَّر، اِک ذرا اِختِلاف کے ساتھ  ہر سَماج میں (یُوٹوپیا کی صُورت) اور عقائدی نِظام میں (جَنّت کی صُورت)  مَوجود ہوتا ہے۔ ہَر عقائدی نِظام یا سَماج اپنی شَناخت کے گِرد بے لَچک اور مَقرُون concrete رَسُوم و رَوایات کی حُدُود اور  غَیرمَرئی نَظریاتی دیواریں کھڑی کِئے رکھتا ہے۔ اگر سَماج کُھلا ہو تو کوئی سَماج، سَماج نہ رہے، کیوں کہ کِسی بھی قِسم کی حَد بَندی کی عَدم مَوجودگی میں اِمتِیاز یا شَناخت عَنقا ہو جائے گی۔

سو، سَماج یا عقائدی نظام کے تَنگنائیوں میں گُھٹن زَدگی ’اَرضِ مَوعُودہ‘ کے تَصوّر کے طُفیل قابِل بَرداشت ہو جاتی ہے۔ جَیسا کہ فلم کا ڈاکٹر مِرّک کا مُکالَمہ ہمیں بتاتا ہے..

”جزیرہ وہ چیز ہے جو اُنھیں اُمّید دیتی ہے، اُنھیں مقصد دیتی ہےـ“

جَزِیرہ دَراصل، زندگی کے سَپاٹ پَن کو قابِلِ برداشت بنانے، سَماج کے تَنگنائے کو جَھیلنے کے قابِل بنانے کےلیے مَذہَب اور سَماج کا وعدہ ہےـ

’جَزِیرے‘  کو پِچھلے فلمی تَبصِروں میں ’جَذباتی اُتھل پُتَھل‘  کی عَلامَت تَسلیم کیا گیا تھا۔ یہاں فلم کی کہانی کے تَناظُر میں جَزِیرہ ’اُمّید‘ کی عَلامَت ہے، جو مَذہَبی یا سَماجی اَرضِ مَوعُودہ ’جَنّت/یُوٹوپِیا‘ کا قائِم مَقام ٹھہرتا ہے۔ مُختصراً جَزِیرہ ایک یُوٹوپِیا (سر تھامس مُور کا نہیں!)  ہے، جَہاں کوئی کام نہیں اور جَہاں ہر قِسم کی اَبَدی عَیّاشی مُہیّا ہو گی۔

سو! اوپر مذکورہ رابرٹ نوزیک کی بات کے تَناظُر میں، فلم کی یہ عَلامَت، ہَمیں ایک مُتوازی یا مُتبادِل سوچ کی طَرف مُتوَجّہ کرنے کی لا شُعوری کوشِش قرار دی جاسکتی ہے۔ یہی سوچ ہیرو کی ہوتی ہے کہ وہ مُتوازیت کے وُجود کا اِلہامی اِدراک رکھتا ہے اور اِسی اِدراک کی جھلک کو لےکر وہ اپنے موجودہ سَماج کی دیواروں سے ٹکرا جاتا ہے۔

دَروازے  کُھل جائیں  گے
سر  دیوار  سے مارا  کر!

۲:  لاٹری:  آپ نے عظیم لِکھاری ’جارج لوئیس بورخیس‘ کی کہانی ’بابِل میں لاٹری‘ پڑھی ہو گی، جِس میں ’انسانی زندگی میں اِرادے کے ساتھ ساتھ غَیریَقینیّت کی لازمی کارفرمائی‘ کو تاریخ، فَلسفہ و نَفسِیات  کے بجائے ادب کے پَیرایے میں بَیان کیا گیا ہے۔ اِس کہانی کی قِرأت کے ساتھ آپ اِس فلم کے لاٹری والے عَلامَت کو بَخُوبی سمجھ پائیں گے۔ سوشیالوجی اور اَنتھروپالوجی کی رَہنمائی میں (جِن کا ماننا ہے کہ اَوّلین باقاعدہ مَذہَب اور عِلم نُجُوم کا آغاز بابِل ہی سے شُرُوع ہونے کے آثار مِلتے ہیں ـ)  ہَم مَذہَب کے آغاز سے پہلے کے عَہد تک یعنی شِکار اور مَظاہِرِ فِطرَت کے جلال و جمال سے خوف زدگی و مَرعُوبی کے عَہد تک چَلتے ہیں۔ یہاں سے چَند لوگوں کو زندگی میں اِرادے کی موجودگی کے ساتھ ساتھ randomness یعنی بےترتیبی کا تَجرِبہ ہُوا ہو گا، جیسا کہ بورخیس لکھتے ہیں:

”مَیں اُس چیز سے بھی واقِف ہوں، جِس سے یونانی نا واقِف تھے، غَیریَقینیّت سے… جس کا ثُبوت یہ ہے کہ کانسی کی ایک کوٹھڑی میں پھانسی دینے والے کے رومال کے سامنے اُمّید ہمیشہ مجھ سے دامَن گِیر رہی ـ جِس طرح مُسَرّتوں کے بَہاؤ میں خَوف نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا ـ“

کہانی کے مُطابِق، خَوف اور اُمّید کے قُطب Pole کے گِرد گُھومتی زندگی کو خُلاصی دِلانے کی کوشِش کے طَور پر ہی اِنسانی زندگی میں پہلے کوشِش اور اِرادے، بعد میں اِن کے ساتھ غَیریَقینیّت کے ساحِرانہ اِدغام سے مذہَب کا خَمِیر اُٹھا۔
اَب آتے ہیں فلم کی طرف۔ 

فلم میں لاٹری اور  ”بابِل میں لاٹری“ (بورخیس) ایک یُوٹوپیائی وعدہ ہے۔ یہ مَذہَبی اور سَماجی آئیڈیل ہے۔ یہ وَعدہ ہے بَخشِش کا، کَفّارہ ادا ہو جانے کا، اُس گُناہ کے پَچھتاوے کے خاتمے کا، جو ہَم نے نہیں کیا، یہ لاٹری وعدہ ہے کہ آپ وقت کے بَہاؤ میں آج سے (اِمکانی یا احتمالی طَور پر) بہتر کَل کی طرف جا رہے ہیں۔


۳: جِیت پر جَذباتی ہونا: لاٹری کے حوالے سے، نارمل سَماجی کِردار جِیت پر جَذباتی ہو جاتے ہیں مگر کیا یہ خَواص (ذہین اور مَخبُوطُ الحَواس) کےلیے بھی یہ جِیت اُتنی ہی اَہمِیّت رکھتی ہے جِتنا کہ عام لوگوں کےلیے؟ کِسی بھی اِتفّاق پہ خُوش ہونا، حیرت انگیز ہے یا اپنی کوشش و اِرادے کے سبب کامیابی کو چُوم لینا زیادہ ساحِرانہ ہے؟ کیا زیادہ اَہمیّت رکھتا ہے، میرا مُصمِّم اِرادہ یا اِتّفاق و تقدیر کے زیرِ اثر اِرادہ؟

ہے  تیری  مِری ذات  کی یکتائی بَرابَر!
غائِب سے تُو اُبھرا تو مُیَسَّر سے اُٹھا مَیں

۴: ایک خواب کَشتی کا:
لِنکولِن سِکس ایکو کے سوالات اُٹھانے کے غَیرموزوں رَویّے پر اُس کے مُختلِف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور اُس سے اپنے خَیالات اور خواب بیان کرنے کو کَہا جاتا ہے۔ جِس کے جواب میں سِکس  ایکو جواب دیتا ہے کہ مَیں خواب دیکھتا ہوں کہ ”میں ایک بوٹ/کَشتی پر ہوں اور جَزِیرے کی طرف روانہ ہُوں…“

پہلے کے مضامِین میں اِس پہ بات ہو چُکی ہے کہ کَشتی پَرسونا  Persona کی عَلامَت ہے ـ سَمُندر اَننَت تَلاطُم اور بےتَناظُر زندگی perspectiveless life  کا اِسِتِعارہ ہے۔ سَمُندر زندگی یا آنات کے بَہاؤ کی عَلامَت ہے۔

مَخفی اور مَذہَبی عُلُوم میں شامِل ’علمِ الُرّویا‘  کے مطابِق، تَسَلسُل سے کُھلے سَمُندروں کے خواب دیکھنے والے زندگی کو وُسعَت اور گہرائی سے دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ ماہرِنفسیات ’کارل ژونگ‘ بھی اِن عَلامات کی، جَیسے سَمُندر، مَعبَد، سورج اور دیگر اَجرامِ فَلکی کی، ایک شخص Person  کے فَرد Individual بننے کے مراحِل میں، گہری مَعنوِیّت پہ یَقین رکھتا تھا۔

دو بارہ فلم کی طرف: سِکس ایکو ایک کَشتی کے ساتھ جَزِیرے کی طرف جا رہا ہے۔ یہ خواب ڈاکٹر مِرّک کو اِس کے بارے میں پیش آگاہی دیتا ہے۔ خواب میں جارڈن ٹو ڈیلٹا نامی لڑکی بھی ساتھ ہوتی ہے۔ یہاں سے ہم لڑکی کو نَظریہ ماننے کی جُرات کرتے ہیں اور مرد یعنی ہیرو کو قُوّت مانتے ہیں اور اِن دونوں کا اِدغام، سَماج کے مُتوازِیت کو جَنم دیتا ہے۔

(چند دن پہلے ایک دوست نے ایک انگریزی گیت کی وڈیو، سب ٹائٹلز کے ساتھ بھیجی۔  وڈیو دیکھی تو حیرت نے آ لیا کہ یہاں بھی سَمُندر، دریا، نیلا رنگ، سورج کی عَلامات ایک قدیم یک نَوعی ’اَساطِیری داستان‘ mythological saga  کی طرف اِشارہ کر رہا ہے۔ راقم سمجھتا ہے کہ دنیا کا تمام ادب اور آرٹ، زندگی کی یکسانیت اور بےاِنتہا سادگی کو موضوعی طَور سے بیان کرنے کی کوشِش ہے اور یہ سارا آرٹ اور ادب، ایک ابتدائی ’داستانِ آفرِینِش‘ کی بازگَشت recall  ہے… تمام تَہذِیبوں میں اِک ذرا اِختِلافی عَلامات کے ساتھ یکساں مَعنوِیَّت کے اِظہار پر مَبنی کہانیاں اور فَن پارے … کائنات، اِنسان اور زندگی کے آغاز کو، تھوڑے بَہُت مختلِف عَلامَتوں کے ذریعے، تقریباً یکساں حد تک اِظہار کی سطح تک لانے کی کاوِشیں…)

۵: کالے کپڑوں والے مُنتَظمِین:  کالا رنگ دراصل کوئی رنگ ہے ہی نہیں کہ یہ تمام رنگوں کے اِنجِذاب کا نام ہے۔ یہ اِشارہ ہے کہ مُنتَظمِین خوب سمجھتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں؟
سَفید رنگ، سات رنگوں کے اِنعکاس کا نام ہے۔ یہ اس بات کا اِستِعارہ ہے کہ ’شَہری/ طَلَبہ‘ کو تَخَیُّل اور اِنفِرادِیَت کی سَت رنگی سے بَچایا جا رہا ہے۔

بلُو اوورآل والے در اصل  اِس بَند ماحول یا اِسکول کے مخصوص عِلم کے حامِلین کی نُمائندگی کرتے ہیں۔ (جَاہِل مُعاشرے خود کو بَہُت بڑے عِلم کا حامِل سمجھتے ہیں، یہ تو پیش پا اُفتادہ بات ہے۔)

 ۶: یَکسانِیَّت سے بےزاری کا اِظہار:  یہ بات تو ہم ’فلم و عُمرانیات‘ کے سِلسِلے میں لکھے جا چکے پہلے کے مضامین میں مُلاحِظہ کر چکے ہیں کہ آرٹِسٹ بَطورِ ہیرو، باغی، آؤٹ سائیڈر یا  دانِش ور کسی بھی سَماج کو ”آئیڈیل“ کی طرف لے جانے والا فیکٹر ہوتا ہے۔ یہ آئیڈیل کبھی اپنی اَکمل perfect صُورت میں نہیں ہوتا بَل کہ یہ ایک اِجتِہادی reformative  قُبولِیّت سے بَہرہ وَر، اِرتِقاء پَذیر خاکہ ہوتا ہے۔ اب کوئی سَماج بَند کیوں ہوتا ہے؟ اِس کا تعلُّق کئی ایک باتوں سے ہوتا ہے، جس میں رائج نِصاب تعلیم کے ساتھ زیادہ بُنیادی ثَقافَتی رَویّوں کی غَیرلچک پَذیری، سَماج کے دُنیادارانہ مابَعدُ الطَّبیعات میں شامِل انسان دوستی کے مَقامِیّت کے عناصِر پر مُشتَمِل تَصوّرات وغیرہ شامِل ہیں۔

سو، اِس حوالے سے دیکھا جائے تو لنکولِن سِکس ایکو بھی ایک آرٹِسٹ ہوتا ہے۔ جِس کے بارے میں ڈاکٹر مِرّک کہتا ہے کہ ”سب سے پہلا، جِس نے اپنے ماحول کے بارے میں سوال کیے تھے۔ زندگی پر بھی..“
یا جو یکسانِیّت سے تنگ آکر ایک دِن کہہ اُٹھتا ہے کہ …

”یہاں ہر چیز کا رنگ سَفید کیوں ہے؟ اور یہاں جزیرہ پر جانے کے عِلاوہ کچھ اور کیوں نہیں؟“

فَلسسفۂ وُجودِیَّت کا لُبّ لُباب یہ ہے کہ کَیسے ’شَخص‘ سے ’فَرد‘ (وُجُودِ مُصدِّقہ) بَنا جائے اور یہ جانا جائے کہ کیا واقعی زندگی کسی معنوِیَّت کی حامِل ہے؟ اَقدار کی مَعنوِیّت کے مُعامَلے کو بَنظرِ تَشکِیک دیکھا جاتا ہے۔ وُجودی اور فَنکارانہ رَویَّے کا حامِل لِنکولِن سِکس اِیکو یہی کُچھ تو کرتا ہے۔ یہی کُچھ ہم ’دَ گِیوَر، دَ ٹرُومین شو، تَھرٹین فلور، دَ ڈارک سِٹّی، ڈائیوَرجنٹ اور دی میٹرِکس‘ ٹائپ فلموں میں مُلاحِظہ کر چکے ہیں۔

۷: ٹیسٹس:  فلم میں لِنکولِن سِکس ایکو کے چند اِک ٹیسٹ لِیے جاتے ہیں۔ ہم غَور سے دیکھیں تو ہَر سَماج اپنے کِسی رُکن کو تَشکِیک کے مَرض میں مُبتِلا دیکھتا ہے تو اُس کی وَفا داری (خُلوص نہیں!) کا اِمتحان لِیا جاتا ہے۔ کہ سَماج خُلوص سے زیادہ وفاداریوں کے بَل پہ اپنی شَناخَت اور وُجود کو قائِم رکھ پاتا ہے۔  مَذہَبی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ عَقائد کی جانچ پَرکھ یا دُرُستی سے مُتعلّق ہوتا ہے، سَماجی حوالے سے سَماجی اَقدار پر عَمل پذِیری کو بُنیاد بنا کر کِسی انسان کے سَماج میں قُبول ہونے یا نہ ہونے کا لکھا یا اَن لکھا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ رِیاسَتی نُقطۂ نظر سے، کسی انسان کی نام نِہاد ’مُلکی مَفاد یا قوم پرستی‘  کے خلاف یا حق میں، یا پِھر قَول و فعل کو دیکھا جاتا ہے، اِنسان دوستی یا خُلوص کو کوئی وَقعَت نہیں دی جاتی۔ سُقراط، منصُور حَلّاج، گِیارڈانو برُونو، اسپائی نوزا، چے گویرا، سارتر وغیرہ کو اپنی زندگیوں میں اَیسے ہی اپنی وفاداری کے اِمتحان دینے پڑے، جِن میں وہ نا کام رہے لیکن خُلوص کے مُعامَلے وہ آج تک زِندہ و تابِندہ ہیں۔

۸:  گاڈ کمپلیکس: یَہاں خُدا بننے کے خَبط  میں مُبتِلا ڈاکٹر مِرّک کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ”سارے ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں۔ اُنھیں لگتا ہے کہ اُنھیں سب پتا ہے..“

یہاں دیکھیں تو اس فلم کا ڈاکٹر ایک اور فلم ‘د ٹرُومین شو’ کے ‘ڈائریکٹر’ کے برابر کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ گاڈ کَمپلیکس ایک نَفسی  inflated حالت ہے کہ جس میں ایک انسان، دیگر انسانوں سے لے کر ماحول تک قابو رکھنا چاہتا ہے اور یہ سب اِنتہائی ڈِسپلنڈ طَور سے کیا جاتا ہے تاکہ اَکملِیَّت کا تاَثُّر گہرا ہو کر گاڈ کمپلیکس کو مزید تَقوِیَّت دے۔ اس کمپلیکس کے حامِل شَخصیت کو ڈِسپلن، مُکمل کنٹرول اور ڈِکٹیٹر شِپ پسند آتا ہے۔ یہ اِس حوالے سے افلاطون کے ’فَلسفی حُکمران‘ کے مُتوازی شَخصیت ہے۔

۹:  اُڑتا کِیڑا/ حَشرہ (دائرے کے) باہَر کی زندگی کے بارے میں امکان کا ثُبوت ہوتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ اِس  (لِنکولِن سِکس ایکو کے) سَماج کے باہَر زندگی کی نا پَیدگی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا، وہ بالکل بھی دُرُست نہ تھا۔ جِس کا اِظہار ہیرو اِن اَلفاظ میں کرتا ہے کہ ”کوئی بھی باہر زندہ کیسے رہ سکتا ہے؟“ یا پھر  ”وہ آتے کہاں سے ہیں؟”
اِس حوالے کو لے کر  فلم ’تَھرٹین فلور‘ کا نوگو ایریا اور فلم ’دَ گِیور‘  کا بارڈر آف میموری یا بادلوں میں جھانکتی زمین اور دَرخت بھی آپ کو یاد آئے ہوں گے۔

۱۰: فلم میں ایک جگہ ہیرو اور ہیروئن پوچھتے ہیں کہ ”کون ہیں ہم؟“  تو اُنھیں بتایا جاتا ہے کہ ”تم دنیا کے لوگوں کی کاربن کاپی ہو، کلون ہو تم!“

اِس بات کو سمجھنے کےلیے ہَم مُتوازی دنیاؤں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اور وہ دنیائیں ہیں شُعور، تحتِ شُعور اور لا شُعور …
اِس فلم کا پہلا ہاف ایک عُبوری دَور ہوتا ہے شُعور کا، جَب وہ لا شُعور (پاور ہاؤس، ”کاٹھ کباڑ“ سے اَٹا بوائلر روم) کی مدد سے جان جاتا ہے کہ وہ دنیا کے لوگوں (شُعور کی مَفعُولی و مَجہُول حالت کے حامِلین) کی کاربن کاپی ہیں۔ سو وہ کاربن کاپی بننے سے اور شُعور کی قیمت پر اپنی زندگی کو فاصلے پہ رکھ کے جِینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

’لِنکولِن سِکس ایکو‘ جان جاتا ہے کہ اِس سَماج (اِسکول)  میں دوسرے سَماج (عَملی دنیا) میں مَجہولی اور مَفعُولی طوَر سے رہنے، بَسنے کےلیے تیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ اِسکول سے بھاگ نکلتا ہے۔

دنیا کا سب سے مشکل کام ہَر لَمحہ ’حالتِ شُعور‘ میں رہنا ہے۔ یہی فلم کا ہیرو  اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہی کام صوفیائے کرام ’حالتِ حُضوری‘ کے مُتوازی نام سے کرتے ہیں کہ…


’جو دَم غافِل، سو دَم کافِر!“