عمادالدین کی بیوی ایسی کیوں ہے؟
کہانی از، منزہ احتشام گوندل
عماد الدین کی بیوی باسی سبزیاں، باسی سالن اور سبزیوں کے چھلکے شاپر سمیت گھر کے باہر سامنے ہمسایوں کی گندم کی فصل میں پھینکتی ہے۔
ایک ہی بچہ ہے۔ بچی کو ماں کے پاس چھوڑا ہوا ہے۔ پورا ہفتہ بچے کے کپڑے بھی نہیں بدلتی۔ کھانے کو پاپڑ اور سلانٹیاں دے دیتی ہے۔
عماد الدین کی بیوی ملازمت بھی نہیں کرتی۔ اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں۔ ہاں بی اے پاس ہے۔ سارا دن گھر میں فارغ رہتی ہے۔ ساس سسر یا نندوں سے مکمل طور پر الگ ہے۔ کسی سے اس کی بول چال نہیں۔
اس کے سر میں اکثر درد رہنے لگا ہے۔ کیوں کہ سوچتی بہت زیادہ ہے۔ شاید وہ اپنے معاملات میں دکھی ہے۔
کیا عمادالدین جو کہ خود دکان دار ہے۔ بازار میں بیٹھ کے اپنی بیوی کا اصل کردار فخریہ پیش کر سکتا ہے؟
کیا وہ یہ اپنے آ س پاس کے دکان داروں کا بتا سکتا ہے کہ اس کی بیوی واش روم میں پانی بھی نہیں گراتی، سبزیاں اور ان کے چھلکے ہمسایوں کے کھیت میں پھینکتی ہے۔ ایک بچے کی ذمہ داری ہے وہ بھی پوری طرح ادا نہیں کرتی۔
مزید دیکھیے: انسان را، انسان را، انسان را… ۔ از، یاسر چٹھہ
تصویر افسانہ از، منزہ احتشام گوندل
یقیناً وہ ایسا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ اسے اس طرح اپنے اور اپنی بیوی کے کردار کے کمزور کہلائے جانے کا خطرہ ہے۔ اس لیے وہ جھوٹ بولتا ہے اور اپنی بیوی کے سگھڑاپے کے گن گاتا نہیں تھکتا۔ اتنا بولتا ہے کہ اس کی باچھوں میں سے جھاگ بہنے لگتا ہے۔
عماد الدین کی بیوی ایسی کیوں ہے؟
اس لیے کہ اس پہ تنقید کرنے والا کوئی نہیں۔ ساس اپنی اچھائی میں چپ ہے اور نندیں اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔ وہ بری ساس اور بری نندیں نہیں بننا چاہتیں۔ لیکن جب انہیں ارد گرد سے عمادالدین کی بیوی کے کچج پتا چلتے ہیں تو وہ پریشان ضرور ہوتی ہیں۔ اپنی ماں کے آ گے کُڑھتی ہیں۔ لیکن اچھی ساس ہمیشہ انہیں خاموش ہو جانے کا اشارہ کرتی ہے۔ ساس نے ارد گرد اپنا اچھا کردار مستحکم کر لیا ہے۔
لیکن عمادالدین کی بیوی کے حالات دگر گوں ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کی ماں اسے کیوں نہیں سمجھاتی؟
اس کی ماں نے ہی تو اس کی یہ تربیت کی ہے۔ وہ ان عورتوں میں سے ہے جو اپنی شریعت اور اخلاقیات کی کتاب خود لے کر آتی ہیں۔ وہ اپنا ہر قول صحیح اور دوسرے کا ہر عمل غلط مانتی ہے۔
عماد الدین کی اپنی حالت دیکھ کر اس کے آ س پاس کے لوگ چہ مگوئیاں کرتے ہیں۔ مگر منھ پر بات نہیں کرتے۔
کئی کئی دن ایک ہی لباس پہن کر آ تا ہے۔ کسی تقریب میں جائے تو کپڑے استری نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ اپنی بیوی کے سگھڑاپے کی اتنی لمبی داستانیں سناتا ہے تو کیا اس کے کپڑے اس کی بیوی کے سگھڑاپے کے اعمال سے خارج ہیں؟
مگر وہ یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرتے کیوں کہ عمادالدین آ گے سے بھڑک جاتا ہے اور بندوق تک اٹھانے سے باز نہیں آ تا۔
اس ساری کہانی میں عجیب بات یہ ہے کہ عمادالدین اور اس کی بیوی دونوں اپنے لیے اچھے کردار کی تشہیر چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں با وقار اور ذمہ دار شہری سمجھا جائے۔ عمادالدین اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے کٹا ہوا ہے۔ وہ مالی طور پر تو دور اخلاقی
حوالے سے بھی اپنی رشتوں کی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا۔ لیکن وہ اس کا سر عام اظہار بھی نہیں کرتا۔
سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے اعمال سے یک سر الٹ کردار کا طلب گار ہے وہ اپنے کردار کے لیے محنت کیوں نہیں کرتا؟
کیا ہم افراد کو اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ شہریت کے حقوق پورے نہ کریں اور اچھے شہری بھی کہلائیں؟
کیا عمادالدین اور اس کی بیوی پہ مثبت تنقید نہ کر کے اور خاموشی اختیار کر کے اس کی ساس، نندیں اور مائیں بہنیں ٹھیک کر رہی ہیں؟
اس کہانی کے اندر سے بہت سوال نکلتے ہیں۔
ان سوالوں کے جواب ہم سب کو ڈھونڈنے ہیں۔