موت کا خاتمہ
از، نصیر احمد
(ولاڈیمیر پوٹن کے نام)
پریانشو کتے نے سوامی نیتی نیتی کے قدموں میں لوٹتے ہوئے لاڈ سے کہا سر،آخر کار آپ کی محنت رنگ لائی۔ آپ کی روشن رہنمائی میں، دن رات انتھک محنت کرتے ہوئے، ہم وہ کائناتی معاملہ سلجھانے میں کامیاب ہو گئے جسے استعماری اور سامراجی سائنسدان سلجھا نہ سکے۔ وسائل و وقت تو صرف ہوئے مگر ہم موت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آج میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی عوام کو یہ خوشخبری دے سکتے ہیں کہ موت ہمارے ملک سے رخصت ہو گئی ہے۔
آپ کی شخصیت کے پر تو سے ایک اور خورشید کا فروغ ہوا ہے جس کی روشنی میں ہماری عوام ابد تک چمکتی دمکتی رہے گی۔ اب بس زندگی ہی زندگی، رعنائی ہی رعنائی اور آپ کے نقوش قدم سے کھلتے ہوئے گلابوں کے سلسلے۔ پریانشو کتے کی یہ بات سن کر سوامی نیتی نیتی کی خوشی ان انتہاوں سے ہم کنار ہوئے جن کو چھونا پریانشو کتے کی چرب زبانی کے لیے بھی ممکن نہ رہا۔ ان کی چند پریشانیوں میں موت کو ترجیح حاصل تھی۔ ایک لحاظ سے موت بھی ان کی مٹھی میں ہی تھی، جسے چاہتے ، وہ دے دیتے لیکن موت کے خاتمے کے بھی خواہاں تھے۔
اپنے سے پہلے آنے والے آمروں کی زندگیوں کے انھوں نے تفصیلی مطالعے کیے ہوئے تھے۔ اور مطالعہ بھی ایسا جو زندگی کا مدرس بن جائے۔ ایسا مطالعہ وہ مردود مرزا صاحب بھی کرتے تھے لیکن وہ استعماریوں اور سامراجیوں کی آزادیوں کے قدردان تھے۔قدر دان کیا، وہ خود بھی استعماری اور سامراجی ہی تھے۔
استعماریوں اور سامراجیوں کی طرح فطانت، آزادی، جمہوریت، شہریت اور انسانی حقوق کی بے معنی دنیا میں کھوئے رہتے۔ اب تو سال ہو گئے مگر ان دنوں ان کی بہت بھد اڑتی تھی۔ بے چارے نے کیا کچھ نہ سہا مگر غلامی میں بہت ڈھیٹ ہو گیا تھا، اپنی بات پر اڑا رہا۔ بہرحال، فاتحہ اور درود کے بغیر ہی وہ مرزا صاحب مردود ہوئے اور اجداد کے مقدس فرامین نے اخلاف کے دل قابو میں کر لیے۔ خیر،ایسی بے وقعت ہستیوں کے نام کیا لینے ہمارے لیے تو سوامی نیتی نیتی ہی آفتاب و مہتاب ہیں۔ اور سوامی نیتی نیتی بہت خوش ہوئے۔ اب انھیں کسی ڈاچے میں تنہا آگے پیچھے سے ڈز ڈز کرتے مرنے کا خوف نہیں رہا۔ اور نہ ہی پائپوں سے گھسیٹ کر نکالے جانے کا ڈر اور نہ ہی ملکوں ملکوں رسوا ہونے کی وحشت کے سائے اب انھیں تنگ کر سکتے تھے۔ اور پھر سوامی کی دریا دلی دیکھیں، جس خوف سے وہ آزاد ہوئے، اس خوف سے اپنے بے چارے عوام کو بھی آزاد کرنے کی ٹھان لی۔ مسکراتے ہوئے انھوں نے پریانشو کتے سے انسانی جسم پر وقت کی لائی ہوئی خستگی اور کہنگی کے بارے میں استفسار کیا۔
پریانشو کتے نے جواب دیا۔ اب سب کچھ مشین کی طرح ہے، سب کچھ بدل سکتا ہے، ناک،کان، ہاتھ پاوں، دل، دماغ، بدلے جا سکتے ہیں، بہتر کیے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوری سر بگا ڑے جا سکتے ہیں۔ پریانشو کتے نے سوامی نیتی نیتی کی پیشانی پر پھیلتی شکنیں دیکھ لی تھیں۔ سوامی نیتی نیتی نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا ہے، اب ان کے دماغ اور چھوٹے کر دیں اور جسم کچھ توانا کر دیں گے اور جو بات نہیں سنے گا اس کو سڑنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ جسم کا ایک دائمی زوال؟ ھاھاھا، جب ساتھ والے بھاری چوتڑ مٹکاتے پھریں گے تو اپنی نکلی ہوئی ہڈیاں تسلیم و تعمیل کو پختہ تر کر دیں گی۔ پھر سوامی نیتی نیتی کو کچھ یاد آگیا، درد کا کیا؟ یہ یاد رکھنا درد کا مٹنا عام نہیں کر سکتے۔ درد ہی تو ہماری کامیابی ہے۔ درد مٹ گیا تو چھوٹے دماغوں کے با وجود انھیں قابو میں نہیں کیا جا سکتا۔ تم بس اتنا یاد رکھنا درد نہیں مٹانا، درد کا رشتہ مٹانے پر اپنے سائنسی تجربات کرتے رہنا۔ درد ہی تو تعمیل سکھاتا ہے ، درد ہی تو آزادی کی، تجربے کی، تخلیق کی، تخیل کی سرکشی کا مسیحا ہے۔
مزید دیکھیے: بے مقصد امیدیں از، نصیر احمد
ایک منظر کا افسانہ، ایک افسانے کی حقیقت از، جواد حسنین بشر
پریانشو کتے نے کہا سر ،آپ کے وژن سے ہٹنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ نہ جسمانی اذیت مٹے گی ،نہ نفسیاتی اور نہ معاشرتی۔ اور نہ ہی توہین و تذلیل سے متعلق اور نہ ہی بدبوئیں سونگھنے کی حس۔ مگر صرف اور صرف آپ کے لیے ایک خصوصی پروڈکٹ پر کام ہو رہا ہے، بس کچھ فنڈز کی کمی ہے۔ سوامی نیتی نیتی نے خفگی سے کہا۔ اتنے اہم کام میں فنڈز کی وجہ سے تاخیر۔
کسم بلی کو کہو فورا فنڈز جاری کرے۔ اور اس آدھے آدمی ادھانشو سے بھی اپنی ریسرچ شئیر کر دو کیونکہ وہ ذایقے، لمس، بینائی، خوشبو، سیکس اور سماعت سے متعلق مسرتوں کے خاتمے پر کام کررہا ہے۔سماجی طور پر تو ہم اس میں بہت کامیاب ہو گئے ہیں مگر سائنسی حوالے سے اس میں کچھ خاص ترقی نہیں ہوئی ہے۔ ہم سماجی طور پر کامیاب تو ہیں مگر اس میں اخراجات بہت آتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ہے کہ ادھر کسی جگہ خوشی نمودار ہو، ادھر ہم بٹن سا دبائیں اور خوشی غائب ہو جائے۔ خوشی ایسا تجربہ ہے، اگر عام ہو جائے تو مراتب کا دھیان نہیں رکھا جا سکتا۔ اور مرتبوں کا نظام بگڑ جائے تو اجتماعی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔اور پھر خوشی اسی کو ملنی چاہیے جو ہماری نظروں میں اس کا مستحق ہے۔
اس بات پر پریانشو کتے نے سوامی نیتی نیتی کے قدموں میں وہ لوٹیں لگائیں کہ سوامی نیتی نیتی کو اسے کچھ دھتکارنا پڑا۔ اب بس بھی کرو، تم جاو، اور باہر بیٹھے صحافی استرا زئی کو اندر بھیج دو۔ اور تھوڑی دیر میں استرا زئی آ دھمکا۔ استرا زئی کو پریانشو کتے سے کچھ زیادہ مرتبہ حاصل تھا کہ استرا زئی نے عوام کے سامنے غم کو خوشی اور خوشی کو غم ثابت کرنا ہوتا تھا اور اور استرے سے خیالات کی وہ کانٹ چھانٹ کرنی ہوتی تھی کہ خبر منٹو کا افسانہ بن جاتی تھی۔ اتنا تعفن کہ ایک دفعہ استرا زئی کی خبر سنتے سنتے آزاد خیال مچھڑ کو وہ الٹیاں ہوئیں کہ پھر وہ حالات حاضرہ سے آگاہ ہونے کی آرزو ہی کھو بیٹھا۔اور وہ لپی لاڈلی جسے خوشبووں سے عشق تھا، استرا زئی کی خبریں سنتے سنتے اتنی بد حواس ہوئی کہ سونگھنے سے ہی انکاری ہو گئی۔
یونہی بے چاری ناک بند کیے کیے مر گئی۔بدبوووں کی مواصلاتی ترسیل کا بھی کچھ ایسا نظام وضع ہو گیا ہے کہ استرا زئی سکرین پر آتے ہی جیسے ہی چنگھاڑ کر ‘احمق ناظرینو’ کہتا تو کبھی سانس رکتی ، کبھی دم گھٹتا ، کبھی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ، کبھی کانوں میں رگڑ گھسٹ کی ناگواریاں بسیرا کر لیتیں ۔لاکھوں حادثے ، کروڑوں سانحے ہوتے،ہسپتالوں میں ایمرجنسیاں لگانی پڑتیں اور حیوانات کے شفا خانوں میں لاشیں ڈھونے والے ٹرکوں کی قطاریں لگ جاتیں ۔ سوامی نیتی نیتی استرا زئی کی ان صلاحیتوں کی وجہ سے استرا زئی کو کچھ قربتوں سے نوازتے ہیں۔اسے گھٹنے چھونے کی اجازت ہے اور کبھی استرا زئی کی کسی کامیابی کی وجہ سے سوامی نیتی نیتی کچھ موڈ میں ہوں تو استرا زئی کو گھٹنوں سے کچھ اوپر دست و جبین کو گلزار آشنا کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ سنا ہے، اس سعادت کے بعد استرا زئی سالوں نہیں نہاتا۔اس کے اس عمل کو صحافتی اصطلاحوں میں تعفن کی شیرازہ بندی کہا جاتا ہے اور نوجوان صحافیوں کے لیے استرا زئی کا یہ اسلوب مشعل راہ ہے۔
آج تو روز عید تھا اور دست و جبین کی گل پاشی ہونی تھی، سو ہوئی۔ سوامی نیتی نیتی ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ میرے استرے، موت ختم، حیات جاوداں، آج تیرے امتحان کا دن ہے۔ آج اپنے دہن گوزخیز میں وہ عطرو مشک و عنبر بھر لے کہ موت سے سیاہ چہرے بھی شگفتہ و تابندہ ہو جائیں۔پورا نگر خوشی کی خوشبو سے معطر ہو جائے۔پھر تیرا دف پر زر ہو گا۔یہ ہر طرف اڑتی پھرتی بے کیف سی خاک گوہر ہو جائے۔ جو بھی خستہ اور غم دیدہ ہے اپنی شیرین نوائی سے اسے سلطان کر دے، سنجر کر دے۔ خبر دار، گرچہ آج موت کے خاتمے کا دن ہے مگر تجھے ہم موت دے دیں گے۔ اور سٹوڈیو جانے سے پہلے اس مردود مرزا صاحب کے سنگ مزار پر جوتے بھی مارتے جانا جو کہتا تھا کہ انفرادیت، شہریت، جمہوریت اور انسانیت نہ ہو گی تو سائنس کا معیار پست ہو جائے گا۔ ھاھا، احمق، کاش وہ زندہ رہتا اور سائنس کی یہ ترقیاں دے کر دائمی طور پر سلگتا رہتا۔
یہ سخن سن کر مگر بے چارے استرا زئی کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ وہ موت کے خاتمے پر خوش ہونے کی بجائے غم گین ہو گیا مگر غم چھپانے کا اسے ہنر آتا تھا۔ اس نے سوامی نیتی نیتی کی بھرپور خوشامد کی مگر اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ سوامی نیتی نیتی اس کے دل میں جھانک نہ سکیں۔ اپنے دست جبین کو گلزار آشنا کیا اور سٹوڈیو کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن استرا زئی کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ حکم کے مطابق سٹوڈیو جانے سے پہلے وہ ان مردود مرزا صاحب کی قبر پر بھی گیا۔ اور حکم کے مطابق سنگ مزار پر جوتے بھی برسائے۔مگر فریضہ انجام دینے کے بعد وہ سنگ مزار سے چمٹ کر اتنا رویا کہ سارے جہاں میں آنسو ہی آنسو ہو گئے۔ اور ان آنسوؤں میں بے چارے استرا زئی کا دل پارہ پارہ ہوتا رہا۔ یہ تصور کہ اسے تا ابد اپنے دست و جبین کو گلزار آشنا کر نا پڑے گا،اس کی جان لینے لگا۔ سارے میں قدر ومنزلت کے لیے سب کچھ کرنا ضروری تھا مگر استرا زئی کے ذہن میں کوئی منزل تھی جس میں سوامی نیتی نیتی نہیں تھے، اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک اچھی زندگی کی منزل۔
اور وہ منزل ان مردود مرزا صاحب کی منزلوں کی طرح خواب ہی ثابت ہوئی۔مگر وہ مرزا صاحب کوئی اور آدمی تھے، اور جب استرا زئی نے اپنی منزل کا ان کی منزلوں سے موازنہ کیا تو استرا زئی کو وہ ندامت ہوئی کہ اس کے پاس جینے کا کوئی جواز نہ رہا۔کیرولین، میری جان دیکھو تو سہی،جس دن موت ختم ہوئی استرا زئی جینے کا حوصلہ ہی کھو بیٹا۔ او کیرولین، کتنا بڑا المیہ یہ ہے۔ المیہ کہ طربیہ، جہاں پہ میں ہوں وہاں سے کچھ پلے نہیں پڑتا کہ میرا دماغ بھی تو چھوٹا کر دیا گیا ہے اور اس چھوٹے دماغ اور بیلوں جیسے جثے کے سنگ مجھے ہمیشہ زندہ رہنا ہو گا۔ لگتا ہے، اب رونے کی میری باری ہے۔ رونے کی کہ ہنسنے کی۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
استرا زئی تو پھر بھی بڑا آدمی ہے، جس مزار پر نہ کوئی شمع ہے اور نہ کوئی سوگوار اس مزار پر وہ اپنے بجپن کے یار کی یاد میں رو رہا ہے، ہم تو اس مزار کے پاس پھٹکتے ہی نہیں۔ اب تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ استرا زئی نے اس شام اپنے منہ میں احمق ناظرینوں کو بےوقوف بنانے کے لیے عطر و مشک و عنبر نہیں بھرے ، سانسیں رکتی رہیں، دم گھٹتے رہے،ہسپتالوں میں رش بڑھتا رہا، اور حیوانات کے شفا خانوں میں ٹرکوں کی قطاریں لگتی رہیں۔ اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ سوامی نیتی نیتی نے اس کے لیے موت کے خاتمے کے دن موت کا جو ہویدا کیا تھا، وہ امکان اس کی حقیقت بن جائے۔ استرا زئی، موت کے خاتمے کے دن مرنے چلا تھا مگر وہ سوامی نیتی نیتی کو دھوکہ نہیں دے سکا تھا۔ بے چارہ پگلا،کسی اچھی بات کے لیے ٹوٹتا دل سوامی نیتی نیتی کی دل وجود کو چیرتی نگاہوں سے کب پوشیدہ رہ سکتا تھا۔بے چارہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کے دست وجبین گلزار آشنا بھی ہوتے ہیں، اس کو خستگی اور کہنگی بھی سہنا پڑتی ہے، درد بھی ہر وقت اس کی جان زار میں موجود رہتا ہے اور تذلیل و توہین بھی اس کی بہت کی جاتی ہے۔ اس رات موت کے خاتمے پر سوامی نیتی نیتی کے سوا سب ہی ملول تھے۔سب کا تو خیر نہیں کہہ سکتے، جن کو تھوڑا بہت جانتے ہیں، وہ سب تو پریشان تھے، سب ہی افسردہ و غمزدہ۔
چنگڑ گروپ اوف گلوبل کمیونیکشن کے پھول گاوں کے مولوی صاحب جن کے لیے موجودہ سے آئندہ ہمیشہ اہم رہا وہ بھی گھبرائے ہوئے تھے۔ دائمی زندگی سے تو اتنا پیا رکرتے تھے کہ سڑکوں پر لیٹے رہتے تھے کہ کوئی گاڑی آئے اور انھیں کچل دے۔ پہلے تو مانتے ہی نہیں تھے مگر جب کہا سائنس ہے تو دل گرفتہ سے ہو گئے۔ میں تو اس مجاہد جس نے استعماری کو پتھروں سے کچل دیا تھا، مرنے کے بعد ملنے کی امید میں زندہ ہوں، اب کیا ہوگا؟ نہیں یار تم جھوٹ بولتےہو۔ موت کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ سائنس جھوٹی ہے۔ چاند پر جانے کا بھی کہتے تھے، مگر اب پتا چلا ہے، کوئی چاند واند نہیں تھا، ایریزونا میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے تھے۔
سب صیہونی سازش ہے۔ سوامی جی کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اس گروپ کے دوسرے رکن سنہری بندر نے جب سنا کہ موت مر گئی تو وہ کچھ دیر کے لیے دائمی کیلوں کی لالچ میں تھوڑے سے خوش ہوئے مگر انھیں باغوں کے ارد گرد لگی تاریں اور اں باغ میں جانے سے روکنے کے پکے بندوبست یا د آگئے۔ اب سوامی کی نگری میں ایک دائمی زندگی جس میں کیلا ایک دائمی خیال ہی رہے، وہ زندگی جینے کا کہاں سے جگر آئے۔سنہری بندر بھی افسردہ ہو گئے۔ اسی گروپ کے تیسرے رکن تارا بھائی نے بھی دنیا میں دائمی زندگی کو ماننے سے انکار کر دیا مگر کچھ سائنس کے درست ہونے کی جانب ان کا ذہن جاتا تو وہ بھی دکھی ہو جاتے۔ اس گروپ کے سب لوگوں نے اپنے ایک ممبر کالا شاہ کاکو (جو کہ کسی ایسی جگہ رہتے تھے جہاں سائنس کے ساتھ انفرادیت، جمہوریت، شہریت اور انسانیت بھی باقی تھی ) کی وطن نہ لوٹ کر آنے کے لیے بہت منت سماجت کی۔یار تمھیں نہ دیکھا ، دکھ تو ہو گا مگر کوئی بات نہیں، مگر ایک ایسی دائمی گزارنے کا جس میں اپنی مرضی سے نہ کچھ دیکھ سکو، نہ کچھ سن سکو، نہ کچھ سکو، نہ کچھ چکھ سکو، نہ کچھ سونگھ سکو اور نہ کچھ چھو سکو، نہ کسی کو چوم سکو، نہ سوچ سکو، نہ لکھ سکو اور ان حسیاتی حقوق سے شناسائی کی قیمت یہی ہے کہ سوامی نیتی نیتی جی کے غلام بن جاو، ایسی زندگی جی کر کیا کرو گے؟جہاں پر ہو، وہاں خوش ہو، وہیں رہو۔ اس گروپ کے خود ساختہ رہنما مہا چنگڑ نے جب یہ خبر سنی تو ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ وہ تو معاشرے میں محبت، عزت، دولت اور شہرت کے بغیر بس فکر و خندہ اور کچھ حسیاتی سرور کے سہارے جیے جا رہے تھے، جب انھوں نے سنا دائمی زندگی تو ملے گی مگر نہ وہ کچھ سوچ پائیں گے، نہ ہنس پائیں گے اور نہ ہی فرح کی سیاہ زلفوں پر پانی کی بوندوں کو جھلمل جھلمل کرتے ستاروں سے ملا پائیں گے، وہ تو جیتے جی ہی مر گئے۔ اور وہ درندہ حسینہ بھی بہت پریشان ہوئی۔ وہ درندہ تو نہیں تھی، وہ مردود مرزا صاحب اگر زندہ ہوتے تو اسے بھی ستارہ انسانیت کا تمغہ دے دیتے ۔ منہ پر اس حسینہ نے کتے اس لیے باندھے ہوئے تھے کہ وہ بھیڑیوں سے بچی رہے۔ بند منہ کے ساتھ دائمی زندگی کا سن کر وہ بھی نڈھال ہو گئی۔ اب کس کس کا بتائیں، بیجو باورا بھی سر بہ زانو تھا کہ اس کا مسئلہ تشنگی تھا، اب جو تشنگی کو دوام ملا تو وہ بھی ہاتھ پاوں پھینک بیٹھا۔ انکل مستی کو جب یہ خبر ہوئی کی تھوڑی سی بھی نہیں ملے گی،ہمیشہ کے لیے،تو بین کرنے لگے۔
سنگ سرد و سنگ سخت و سنگ خارا کواس بات کا غم تھا کہ سوامی نیتی نیتی تو ہمیشہ زندہ رہیں، اب اس کی باری ہی نہیں آئے گی۔ سوامی جی کے کارندوں میں اکثر کو یہی غم تھا کہ جعلی قدر ومنزلت کے لیے اصلی انسانیت بھی کھوئی اور طاقت بھی نہیں ملے گی، کبھی بھی نہیں۔
یہ سوچ کر انھیں ہول سے آنے لگتے۔ اور بھی تھے ، سب کا بتائیں تو بات ہی نہ ختم ہو۔ کسی نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ سائنس سوامی نیتی نیتی کی باندی ہو جائے گی۔ اور باندی ہو کر ترقی بھی کرتی رہے گی۔ سوامی نیتی نیتی کی بندگی میں دائمی زندگی کوئی بھی جینا نہیں چاہتا تھا۔ اور دور کہیں کسی تجربہ گاہ میں آدھا آدمی ادھانشو اور پریانشو کتا بات چیت کر رہے تھے۔ مائی فٹ، نہ موت ختم ہو گی، نہ درد اور نہ کہنگی، ابھی تک تو نہیں ہوئی ہے اور امکانات بھی اتنے روشن نہیں ہیں۔ آخر کار ڈاچے میں آگے پیچھے سے ڈز ڈز ہی ہو گی یا کوئی اور بھیانک انجام۔ ہو سکتا ہے بھیانک نہ ہی مگر درد بھی ہو گا، جسم وجان پر زوال بھی آئے گا اور انجام بھی ہو گا۔ اور ہم بے معنی ہو کر کیا تخلیق کر سکتے ہیں؟ کیا ایجاد کر سکتے ہیں؟ کیا اختراع کر سکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ نقالی، مگر کوئی بنائے تو نقل کریں ناں۔ پریانشو کتے نے کہا۔ تو پھر یہ سب کیا ہے، یہ سارے پروجیکٹ؟
آدھے آدمی ادھانشو نے کہا۔ ہمیں پیسے مل رہے ہیں، بہت ساری عیاشی بھی کرتے ہیں۔ بہت پوچھ گچھ ہوئی توکسی تکنیکی مسئلے کا قصہ چھیڑ دیں گے، یا کسی سادہ دل کو بلی کا بکرا بنا دیں گے۔ اب حماقت سے اتنے مزے منسلک ہوں تو ہم نے تو فسانہ و فسوں کے سلسلے دراز ہی کرنے ہیں۔ پریانشو کتے نے کہا۔ تو پھر کسی طریقےسے لوگوں کو تو اپنی جعلی سائنس کی کچھ خبر دے دو۔ بے چاروں کی سوامی کی بندگی میں دائمی زندگی کی اذیت سے تو جان چھوٹے۔ میرا مطلب کہیں تو نوجوان طالب جو اچھا سائنسدان بننا چاہتا تھا، زندہ ہو گا۔ آدھے آدمی ادھانشو نے کہا۔ یار یہ احمق سچی بات کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ ان کو سچی بتائی تو اپنی ہی جان جائے گی۔
جس کو بتائیں گے، وہی سب سے پہلے سوامی کے پاس پہنچے گا۔ اور وہ طالب علم اچھا سائنس دان نہ بن سکا، وہ تو کب کا مر چکا۔ یہ کہہ کر پریانشو کتا قہقہے لگانے لگا۔ کبھی اس کے قہقہے بہت خوف ناک ہو جاتے اور کبھی ان میں کچھ تاسف در آتا۔ شاید پریانشو کتے کے کہنے باوجود اچھا سائنسدان بننے کا خواہاں طالب علم کہیں زندہ تھا۔ مگر آدھے آدمی ادھانشو نے ذہن بنا لیا تھا کہ وہ سوامی نیتی نیتی جی کو پریانشو کتے کی دھوکہ دہی کے بارے میں سب کچھ بتا دے۔