کن فیکون
کہانی از، اعظم کمال
کئی دنوں سے ان دھلا جسم، میلے کچیلے کپڑے اور بد بو کے بھبھوکے۔ وہ جب اپنی ہی غلاظت کے حبس سے دو چار ہوتا۔ “جب” اور “دو چار” اس کے غلاظتی حبس کے احساس کو ایک منفرد وقت اور وجودی کیفیت کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں۔ یعنی اس کو اس غلاظتی حبس (جو کہ وقت کی طوالت کی وجہ سے وجودی تعفن بن چکا تھا) کا احساس وقت کے کسی خاص حصے یا کسی خاص وجودی کیفیت میں ہوتا۔ حالاں کہ اس کے بر عکس وہ ہمہ وقت اس غلاظتی حبس میں مبتلا رہتا۔ تو وہ اس غلاظت سے فرار ہونے کی تدبیریں سوچتا۔ اور کبھی کبھی تو یہ حبس اس کے سر اتنا چڑھ جاتا کہ وہ خود کُشی کا سوچتا۔۔۔۔ مگر وہ ایک کہانی کار تھا۔
ایسا کہانی کار جس کو ہر روز ایک نئی کہانی جننا تھی۔ اور یہی کہانی جننے کی مشق ایک طرح سے اس کے غلاظتی حبس کا علاج تھی کہ کہانی کی سعی میں وہ خود اپنے آپ (اندروں اور بیروں) سے اتنا لا تعلق ہو جاتا کہ اسے خود اپنے ہونے کا احساس تک نہ رہتا۔
مگر ہر روز ایک نئی کہانی تخلیق کرنا بذاتِ خود ایک بحران تھا۔ ہر روز نئی کہانی تخلیق کرنا اصل میں تاریخ، تجربے، ذات، ذات کے تشخص اور دائمی کردار کی نفی کرنا تھا۔۔ اور یہ نفی ایک طرح کی خود کُشی ہی تھی۔ بَل کہ یہی تو حقیقی خود کُشی تھی اور وہ یہ جانتا تھا مگر وہ ایک کہانی کار تھا اور خود اپنے تعفن کی تلافی کے لیے اسے ہر روز ایک کہانی جننا تھی۔
ایک ماہر کہانی کار کی طرح وہ جانتا تھا کہ ہر کہانی اپنی اصل میں (ساخت اور مواد) اپنے مرکزی کردار کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ یعنی اگر کوئی کہانی کار کسی کردار اور اس کے بیرون کو تخلیق کر لے تو کہانی خود بہ خود تخلیق ہو جائے گی۔
کردار کی تخلیق؟ وہ سر کھنگالتا ہے۔۔۔ بے سود۔ وہ برسوں سے اپنے ڈیوڑھی (جہاں شاید ایک چارپائی، ایک چادر اور ایک گھڑے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے) اپنے حبس سے باہر نہیں نکلا۔ وہ جانتا تھا کہ کردار کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ فکر، طبعی ساخت اور احساس (خاص کر کے خوشی اور درد کا احساس) وہ برسوں سے ایک خاص قسم کی غیر از تاریخ اور غیر از تجربہ کی دنیا میں جی رہا تھا۔
یعنی اس کی فکر تاریخی اور تجرباتی لحاظ سے بانجھ تھی۔ وہ جانتا تھا وہ جو کچھ سوچ رہا ہے اور جس طرح سے سوچ رہا ہے وہ بیرونی اثر سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ کیوں کہ اس نے برسوں سے بیرون کا نہ تو مشاہدہ کیا اور نہ ہی اس کے کسی تاریخی یا علمی تجربے میں شامل ہوا۔
مزید دیکھیے: انحراف کہانی از، منزہ احتشام گوندل
وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سوچ کی یہ آزادی (جو کہ تاریخ اور تجربے کی نفی کی وجہ سے نہ تھی بَل کہ غیر تاریخی ۔۔۔ اور غیر علمی کی وجہ سے تھی) وقتی اور عارضی تھی۔ اور اسے معلوم تھا کہ اسے اپنے ہر کردار کے لیے ایک ایسی فکری اساس کی ضرورت تھی جو تاریخی اور تجرباتی طور پر بانجھ ہو، اور یوں وہ اپنے کردار کو ہی بانجھ فکر عطا کرتا ہے۔
فکری طور پر بانجھ کردار اپنی اصل میں سریع الزوال ہوتا ہے۔ عارضی سے زیادہ وقتی، وقتی سے زیادہ عارضی کہانی کار جانتا ہے کہ خوش اندامی اور موزونیت ساخت کے بنیادی وصف ہیں۔ مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ساخت کے یہ وصف ارتقاء کے مرہونِ منت ہیں۔ اس لیے اس کے کردار کی ساخت کا خوش اندامی اور موزونیت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
مگر اس کے کردار کی ساخت کے بنیادی عناصر نہ تو ارتقائی ساخت کے عناصر کی نفی ہوں گے نہ ضد (کیون کہ وہ جانتا تھا کہ ارتقاء اور تاریخ کی ضد اصل میں ان کے وجود کے ہونے کی تصدیق ہے)۔ بَل کہ اس کے بر عکس چُوں کہ اس کے کردار کی فکری اساس بانجھ ہے وہ اپنے کردار کی بناء غیر از ساخت پر رکھے گا۔ ایک معدوم ہوتی ہوئی غیر تغیر پذیر، بے ہنگم ساخت (جیسا کہ ایمیبا)
کردار کی فکری اور ساختی تشکیل کے بعد، کہانی کار اپنے کردار کی جذباتی تشکیل کی طرف توجہ دیتا ہے۔ اور یوں وہ تین احساسات کی طرف توجہ دیتا ہے۔ خوشی، درد اور افزائش نسل۔۔۔۔۔ کہانی کار جانتا ہے کہ چُوں کہ اس کے کردار کی بناء غیر تاریخیت اور غیر تجربیت پر ہے۔ تو اس کے کردار میں خوشی اور درد کے جذبات شروع سے ہوں گے ہی نہیں۔
کہانی کار جانتا ہے کہ خوشی اور درد انفرادی اور ابدی احساسات نہیں ہیں بَل کہ انہوں نے تاریخ اور تجربے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ اس لیے کسی بھی غیر تاریخی اور غیر تجربی کردار میں جذباتی تسلسل میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ اب کہانی کار افزائش کی طرف نظر کرتا ہے۔
کہانی کار پہلی بار ایک مُخمصے سے دو چار ہے۔ اس کا کردار فکری، ساختی اور جذباتی اعتبار سے عارضی ہے اور افزائش “عارضی”کی ضد ہے۔ تو کس طرح سے افزائش اور عارضیت میں موافقت ہو سکتی ہے؟ کہانی کار سوچتا ہے، الجھتا ہے، سٹپٹاتا ہے۔
افزائش نسل؟ عارضیت؟ وقت گزرا جا رہا ہے۔ کہانی کار کو ہر روز ایک کہانی جننی ہے۔ وہ جانتا ہے کہانی کردار میں ہے مگر افزائش نسل؟ پھر اسے یَک لَخت ایک خیال آتا ہے کہ اس کا کردار اپنی تخلیق کے بعد کسی بھی لمحے “ایک” سے “دو” ہو جائے گا۔ خود بہ خود، اپنے آپ۔ یوں خود بہ خود ایک سے دو ہو جانے کے ذریعے اس کی عارضیت، غیر تاریخیت اور غیر تجربیت بھی قائم رہے گی اور اس کی افزائش بھی ہوتی رہے گی۔
کردار تخلیق ہو چکا۔ لیکن کہانی بننے کے لیے اس کردار کو اپنے سانچے سے بیرون کی طرف سفر کرنا ہو گا۔ تخلیق کار اپنی پوری وجودی قوت سے اس کردار کو اپنے آ پ میں سے باہر دھکیل رہا ہے۔ لیکن سانچے کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کردار وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اسی کش مکش میں کہانی کار کو اپنی انتڑیوں میں ایک شدید کسک کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی آ نکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر وہاں کئی دنوں سے مکڑی نے جالا بُن رکھا ہے۔ کہانی کار جانتا ہے کہ ایک اور دن رائیگاں گیا۔ اسے نئی کہانی تخلیق کرنے کے لیے ایک اور دن اپنی حبس میں گزارنا ہو گا۔