لو بیٹھ گئی صحیح سے
از، اعظم کمال
یہ فقرہ عورت کے جنسی تجربے کی تشکیل، اس کے اظہار اور مرد کی مطلقاً انانیت کے خلاف کا اپنی نئی جنسی تشکیل کا اعلان ہے۔ عورت کی حیثیت جنسیت کے تمام حوالوں میں ایک پیروکار سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اور عورت کی “idealness” کا معیار بھی اس کاملیت میں ہے۔ مرد نے عورت اور اُسکی جنس کو اس کا ملیت پرستی کے معیار پر جانچا ہے اور چوں کہ وہ ہمیشہ سے “جانچ کے معیار اور اُس کے حوالوں” کا معمار اور منصف تھا (ہے) تو یقیناً ہمیشہ سے جنسی حوالوں میں “اول” کے مقام پر فائز رہا ہے۔ جب کہ عورت نے چوں کہ ہمیشہ کاملیت پرستی کو اپنی ذات کا بنیادی حوالہ جانا ہے تو ہمیشہ وہ مرد کے معیار اور جنسی حوالوں میں اپنا آپ دیکھتی اور تراشتی رہی ہے۔
ان دو تاریخی حقائق نے عورت کی جنس، اُس کے وجود اور اُس کی معاشرے میں “وجودی اظہار” کے متعلق ایک “اخلاقی نظام” کو پروان چڑھایا ہے۔ جس میں مرد ہمیشہ ایک ریفری کے طور پر رہا ہے اور عورت ایک player کے طور پر۔ تو چوں کہ “وجودی اظہار” کی کاملیت یا غیر کا ملیت کے بارے میں مکمل فیصلے کی قوت مرد کے پاس تھی اس لئے عورت اپنے وجودی اظہار کے لیے کن کن تجربوں کی مرہوں منت ہے کے تمام حوالے مرد سے رونما ہوتے تھے (یا ہیں)۔ اس لیے یہ تصویر اور نعرہ غیر اخلاقی بھی ہے اور مجرمانہ بھی۔
8 مارچ کے بعد سے کچھ عورتیں ملعون ٹھہرا دی گئی ہیں۔ اور ملعونیت کا یہ تحفہ نہ صرف مرد )جو کہ ریفری ہے( کی طرف سے دیا گیا ہے بلکہ خود عورت بھی اس میں پیش پیش ہے۔ کئی عورتوں نے نکتہ اٹھایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ایک مظلوم طبقے کی علامت ہے لیکن اظہار کا جو بیانیہ اپنایا گیا ہے وہ سرا سر غیر اخلاقی ہے اور عورت کی تحریک پر ایک خودکش حملے کے مترادف ہے۔
جنسی کسمپری کے حوالے سے تمام “تر بغاوتی نا گزریت” کو سمیٹے ہوئے یہ نعرہ دلکش بھی ہے اور منفرد ۔ دلکش اور منفرد اس لیے کہ عورت نے پہلی مرتبہ اخلاق کو جسمانی اظہار (یہ جسمانی اظہار جنسی نہیں بل کہ وجودی ہے اور وجودی سے میری مراد عورت کس طرح کھڑا ہو سکتی ہے؟ اور کس طرح بیٹھ سکتی ہے؟ وہ گھر میں کس طرح سے بات کرے گی ؟ اور باہر کس طرح بات کرے گی؟) کو دبانے کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ یعنی عورت کے وجود کے اظہار کے تمام پہلو (خط) کسی نہ کسی اخلاقیت کے تابع ہیں اس لیے عورت ہمیشہ مسلسل ایک جانچتی نظر کے تلےرہتی ہے۔
اور جُوں ہی وہ اس اخلاقیت سے رو گر دانی کرتی ہے تواُسے ملعون ٹھہرا دیا جاتا ہے اور چُوں کہ یہ “اخلاقیت پرستی” عورت کو مرد کے بیانیے میں ڈھال دیتی ہے اس لیے اس “اخلاقیت” پر عورت کی طرف سے اپنا حق ایک افضل ترین بغاوت ہے اور اگر عورتیں (اور وہ یقیناً ابھی اپنی تعداد میں محدود ہیں) اس نعرے کے ساتھ اپنی جنسی اور وجودی وابستگی قائم رکھ سکتی ہیں تو ہم یقیناً ایک نئے “وجودی اخلاقیات” کی جانب بڑھ سکیں گے۔ جہاں عورت اپنے وجود اور اس کے اظہار کی بحث میں برابر کی شریک کار ہو گی اور چوں کہ ابھی تک یہ نا ممکن ہے اور بہ ظاہر اک بڑی تعداد میں عورتیں اس نعرے کی بے ساختگی اور اس کی بے اخلاقیت سے ہیجان میں ہیں اس لیے عورت کو ایک نئے مارچ کی تیاری میں لگ جانا چاہیے۔ نئے مارچ تک اُن عورتوں کے لیے کہ جن کو اس نعرے کی غیر اخلاقیت نہیں بھائی اُن کے لئے ایک نظم۔
کمین گاہیں
سات ہزار عورتوں کے چودہ ہزار ہاتھوں کی ستر ہزار انگلیاں
ستر ہزار انگلیاں اُن کے لعب دہن میں اٹی ہوئی
لعب دہن جو اُن کے حافظے کی راکھ ہے۔
ٹپک رہی ہے اُن کے منہ سے جھاگ سی
جھاگ کہ جنسی ضیافتوں کی اَن کہی تاریخ ہے۔
جنسی ضیافتیں جو اپنے ہی عروج میں ڈھل گئیں۔
اب محض گمان ہیں صدیوں کی تھکان ہیں۔
اس تھکان کی گرد سے اٹی ہوئی انگلیاں
افق کو چیرتی فلک کے گلے میں اٹک گئیں
گلے میں اٹک گئیں یا خود سے ہی الجھ گئیں
سات صفوں میں کھڑی سات ہزار فلفسی عورتیں شہوت گاہوں سے ما ورا۔
(کہ شہوت گاہیں کہ جن سے نقب لگا کے
ہزار ہا حملہ آور ایک ہی چست میں عورت کے فاتحین بنے)
شہوت گاہیں جو اسم کا نور تھیں کمیں گاہیں ہوئیں
تو سات ہزار فلفسی عورتوں نے اپنی شہوت گاہوں کوتاریخ میں چُن دیا
شہوت گاہیں جب چُنی گئیں تو ساتھ ہزار فلفسی عورتوں کا حافظہ راکھ ہوا
حافظہ جو ہونے کی شرطِ اولیں ہے جب
جھاگ بن کر سات ہزار فلفسی عورتوں کے منہ
سے ٹپکنے لگا تو وہ عورتیں دیوانگی میں
فلک سے ہی الجھ پڑیں۔
سات ہزار فلسفی عورتیں ہزار ہا برسوں سے
خود اپنی انگلیوں (لعب دہن میں اٹی ہوئی انگلیاں) سے
خود اپنی حافظے کی راکھ کو مسل رہی ہیں۔
کہ اُ ن کو کوئی جلا ملے اور
پھر سے وا ہوں اُن کی شہوت گاہوں کے در
کہ وہ جی سکینہ!