نظریات علم اور صحافی
از، نصیر احمد
‘سورج مشرق سے نکلتا ہے۔’
پہلے صحافی: برباد ہو گئے وہ لوگ جو ایسے بیانات دیتے ہیں جن کی حقیقیت تجربہ کی جا سکتی ہے۔
مغرب کے فلسفوں کے دیوانے، با طن سے بے گانے، بھاڑے کے ٹٹو (یہ ان کا پسندیدہ فریز ہے، کثرت سے استعمال کر تے ہیں اور کبھی تندی تیزی میں پھسل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں کی ہنستے ہنستے پسلیاں بھی دکھنے لگتی ہیں۔)
شان دار کو معمولی کرتے رہتے ہیں۔ اب جس آئن سٹائن نے اس مبتذل جملے پر اپنے حقائق ترتیب دیے ہیں اسے کیا پتا وہ طناز جسے خورشید کہتے ہیں اور جسے یہ ہندو مت کے زیر اثر سورج کہہ رہا ہے، وہ خورشید جب بام پر نکلتا ہے تو اس کا طنطنہ کب ہوش قائم رہنے دیتا ہے کہ یہ دیکھتے پھریں کہ کدھر سے نکلا اور کدھر ڈوبا۔ یہ سر مستی، یہ بے خودی، یہ بے خبری تو اہل نظر کو ہی عطا ہوتی ہے اور وہ جدھر جدھر نظر کرتے ہیں، ادھر ہی خورشید جگ مگا رہا ہوتا ہے۔
اب خود پرستی میں کھوئے ہوئے کو اسرار عشق و مستی کی کیا خبر۔ اور بے حیا تو بے حجابی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ جس خورشید کی یہ مغرب زدہ بات کر رہا ہے، ایسے لاکھوں خورشید مرد قلندر کے پچھواڑے سے پھڑ پھڑ کرتے نکلتے ہیں۔ اور اس جیسے جاہل ناک سکیڑتے رہتے ہیں مگر جو دانائے راز ہیں، ان کی دنیا نسیم نو روز سے معطر ہوتی رہتی ہے۔
اب آپ شاید یہ سوچنے لگیں کہ مجھے حقیقت کا مطلق نہیں پتا، بظاہر ان ملعونوں کی باتیں سچی لگتی ہیں اور ظاہر سے خیرہ آنکھیں جزوی سچائی کی اسیر ہو جاتی ہیں مگر گہرائی میں جائیں یا پھر لڑکیوں کے کالج کی گلی میں تو آپ خود دیکھ لیں گے کہ خورشید کا سمت سے کیا رابطہ، کبھی ادھر سے نکلتا ہے، کبھی ادھر سے نکلتا ہے، دل میں بیٹھا جگر سے نکلتا ہے، واہ واہ کیا بات کہی ہے میں نے مگر یہ موت سے ڈرے ہوئے دل کو ہائی بلڈ پریشر اور جگر کو یرقان کے ہی تناظر میں دیکھتے رہتے ہیں۔
تو اے دوستو، جب تم سب خود کشی کر کے موت کے خوف سے بے نیاز ہو جاؤ گے تب تمھیں پتا چلے گا کہ دل وہ جام طلا ہے جس سے عشوہ و غمزہ ہمہ دم طلوع ہوتے رہتے ہیں اور یہ وہ نشست گاہ ہے جس میں بیٹھ کر اس جیسے سفید کوؤں کے منتظر رہتے ہیں اور ہم جیسے راہ سلوک کے مسافر پیر طریقت کے دیدار کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اور جب سفید پگڑی، مہندی رچی داڑھی سمیت پیر طریقت طلوع ہوتے ہیں تو تو تپش شوق ہر ذرے پر ایک دل باندھتی ہے (پیر طریقت کی آمد کے بارے میں ان مغرب زدہ نا ہنجاروں کے خیالات بتانے کی ہمت میں خود میں نہیں پاتا) اور جب پیر طریقت کی آواز میں تار و کمانچہ رو نما ہوتے ہیں تن و جان میں لاکھوں خورشید ابلنے لگتے ہیں( یہ نا ہنجار اس عمل کو غراہٹوں کی تال پر کتوں کا رقص کہتے ہیں، جہنم میں جائیں گے۔)
برباد ہو گئے وہ لوگ جو ایسے بیانات دیتے ہیں جن کی حقیقت تجربہ کی جا سکتی ہے۔
‘جن کی شادی نہیں ہوتی انھیں غیر شادی شدہ کہتے ہیں’
دوسرے صحافی: ھونہہ، یہ بھی کوئی بھی بیان ہے، ایسے سوال مجھ سے مت پوچھا کرو۔ جس بات کی سچائی تجزیے سے ثابت ہو جائے، وہ بات کرنے کا کیا فائدہ۔ اور پھر تجزیے سے سچائی تک کب رسائی ہوتی ہے۔ یہ دیکھو ناں یہ اپنے نام ور صحافی پا جی صاحب، تجزیے کرتے کرتے قبر تک پہنچ گئے ہیں، خود بتاؤ انھوں نے ان سارے تجزیوں میں کبھی بھی سچی بات کی ہے؟ اور پھر اپنا اپنا ثقافتی مزاج ہوتا ہے۔ جب ہمارے ثقافتی مزاج میں تجزیہ ہے ہی نہیں، ہم جتنے مرضی تجزیے کریں ہم سچ تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان کتے مردوں کا پتا ہے، چار چار شادیاں کرنے کے بعد نیا معاشقہ شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم غیر شادی شدہ ہیں، ایسی حالت میں تمھاری تجزیاتی صداقت گئی ناں بھاڑ میں۔
تجزیے سے صداقت نہیں ملنے کی، صداقت ملتی ہے چولہے کے قریب بیٹھنے سے، سازشیں سیکھ کر۔ کم از کم مال و دولت جیسی ضروری صداقتوں تک رسائی تو سازش کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اور پھر یہ تجزیہ تو مغربی سازش ہے، ہماری توہین ہے، اب تجزیہ کر کے یادوں میں حنوط شدہ دادا جی کی توہین تو میں نہیں کر سکتا۔ مجھ سے ایسے سوال نہ پو چھا کرو۔
‘انصاف میں حسن ہے’
تیسرے صحافی: واہ واہ اب کہی نے ناں بات، دل میں جا لگی ہے۔ اللہ بخشے مرد مومن کو جب وہ کہتا تھا کہ میں ہڈی دکھاؤں تو یہ دم ہلاتے پہنچ جائیں گے۔ اور جب وہ دم ہلاتے ہڈی پر پہنچتے تھے تو وہ کتنے حسین لگتے تھے، یہی حسن ہی تو انصاف ہے۔
اب تم کہو گے اس بیان کا تمھیں تجزیاتی اور تجرباتی ثبوت چاہیے۔ اک نظر تحریک انصاف کی صفوں کی طرف دیکھو تو سہی، تمھیں حسن ہی حسن نظر آئے گا، یہی حسن ہی تو انصاف ہے۔ اور اسی کو ملتا ہے جو اس کا مستحق ہوتا ہے اور جس سے چھن جاتا ہے، وہ جیلوں میں بیماری کے بہانے کرتا ہے۔
حسن کیا ہے؟ توازن اور تناسب۔ انصاف کیا ہے؟ تناسب اور توازن۔ اور یہ تناسب اور توازن طے کون کرتا ہے؟ جس کے پاس طاقت ہو۔ تو ہو گیا ناں فیصلہ جس کے پاس طاقت ہے وہ توازن اور تناسب طے کر رہا ہے۔ ہمیں اپنا سماجی شعور بر قرار رکھنے کے لیے ایسی ہی گفتگو کی ضرورت ہے جس کی تفسیر ہم اپی مرضی سے کر سکیں۔ یہ تجزیاتی اور تجرباتی گفتگو ہم سے نہیں ہضم ہوتی۔
اب تم غریبوں کی بات کرو گے، غریب میلے کچیلے کپڑوں اور کیچڑ میں لتے پتے کنول کی طرح ہوتے ہیں اب کنول کا کیچڑ سے ناتا ٹوٹ جائے تو ابدی صداقتیں کیسے اجاگر ہوں گی۔ ابدی صداقتیں نہ رہیں تو نہ انصاف رہے گا نہ حسن۔ اور غریبوں کے رونے دھونے کے نتیجے میں جو اعلیٰ ادب تخلیق ہوتا ہے اس کے حسن و انصاف کا کیا ہو گا؟ غربت میں جب کمی آتی ہے تو غزل سے روانی اور بے ساختگی غائب ہو جاتی ہے۔
اب تجزیاتی اور تجرباتی کوڑے کرکٹ کے لیے ہم روحانی طور پر مر جائیں۔ کاش کوڑے کے ڈھیر کے ڈھیر لگے رہیں اور غزل پروین کے خوشے چنتی رہے، اطلس و دیبا بنتی رہے اسی میں انصاف ہے، اسی میں حسن ہے۔