یہ کالم ہے! نہیں، یہ تو کہانی ہے
از، یاسر چٹھہ
آپ صحافیانہ تحریروں سے بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں۔
تو؟
آپ سوچتے ہیں کہ ادبی تحریریں پڑھتے ہیں۔
پھر؟
اور آپ جدید افسانوی ادب پڑھتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے آپ کوئی پریس ریلیز پڑھ رہے ہیں جس میں پامال جذباتی زبان واستعارات استعمال کر کے اسے کہانی اور افسانے کہنے کی ضد ملتی ہے۔
ایسی صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟
درخواست ہو سکتی ہے کہ یا تو صحافی کچھ زیادہ محنت کر کے اچھی کہانی کہہ لے،
یا پھر!
یا پھر ادیب فیس بک سٹیٹس اور خبر و مضمون یا کالم کاری سیکھ لے۔
آج ایک بہت نامی لکھاری کی افسانوں کی کتاب کی تقریب پذیرائی جو پاک چائنہ سنٹر اسلام آباد میں ہوئی اس دوران خود قبلہ افسانہ نگار کے اپنی نوزائیدہ کتاب سے پسندیدہ اقتباسات کی قرات سے کچھ مہینوں کے مندرجہ بالا اخذ نتیجے کی مزید تصدیق ہوئی۔
نہیں بھائی یہ حقیقت نگاری کا جمالیاتی المیہ ہے؟
ہیں؟ حقیقت نگاری بھی اس قدر بانجھ ہو سکتی ہے کہ جو تخیل کی توانائی کو جَست بھرنے میں اس قدر تاخیر در پیش کر دے کہ ادیب اخبارات کی خبروں کا نقال کہانی کار لگنے لگے۔ ادیب کو، اگر وہ واقعی تخیل اور ذہنِ رسا رکھتا ہے، تو حقیقت کی امکانی صورت پذیریوں، اور اس کی مکھڑا نکالیوں کے ہونے سے پہلے انہونی کے انداز میں پیش کرے۔ قاری کی حیرت کو مرنے نا دے، اور نا ہی اس حیرت کو کلورو فام لگا کر ہوش چھینے رکھے۔
اگر تو ادیب نے محض منعقدہ، دو لمحوں پہلے کے ظہور شدہ واقعے اور سانحے کو محض جذباتی غلاف چڑھا کر افسانوی ادب میں حقیقت نگاری کا دعویٰ کرنا ہے تو پھر الہامی کتابوں ہی میں کافی کہانیاں ہیں، رپورٹیں ہیں۔
ادیب کو خالق کا عہدہ و ذمے داری نبھانے کی مشق کرنا ہو گی، رپورٹر کی نہیں، یہ اس کا منصب نہیں۔
جو صاحبان پاپولر اصناف میں لکھتے ہیں، انہیں ادب لکھنے سے رخصت لے لینی چاہیے۔ یا پھر اپنی صورتِ حال کا شعور کرنا چاہیے اور اس سے سب کو آگاہ کرنا چاہیے۔
*ایک سال قبل لکھی گئی ایک تحریر سے اقتباس