اپنی جھریوں سے محبت کرو
از، منزہ احتشام گوندل
ایک وقت آ ئے گا جب ہم ایسے نعرے لگائیں گے۔ اس وقت یورپ میں اپنے جسم سے محبت اور باڈی شیمنگ جیسی اصطلاحات وضع ہوچکی ہیں۔ جس کا مطلب ہے اپنے وجود کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنا۔ اگر آپ موٹے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آ پ خود سے نفرت کرنے لگیں۔ یا آپ کی رنگت سیاہ ہے اور ناک چپٹی ہے تو یہ آ پ کے لیے شرمندگی کا معاملہ ہے۔شرمندگی کی بات یہ ہے کہ آپ کے خوب صورت کلبوت کے اندر ایک بھیانک رویوں والا انسان ہو۔ اعلی انسانی قدروں کو آ پ پائمال کرتے پھریں اور اس بات پہ متفخر رہیں کہ آ پ بڑے سمارٹ اور خوب صورت ہیں۔
سائنس، طب اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں ہماری زندگیاں سہل کی ہیں، ہمارے وسائل میں اضافہ کیا ہے وہاں ہم سے زندگی گزارنے کا قدرتی طریقہ چھین لیا ہے۔ بیسویں صدی کے آ غاز میں ایشیا بالخصوص پاکستان کے اندر جس تیزی سے آ پریشن کے ساتھ بچے کی پیدائش کا رواج پڑا ہے اس سے قبل نہیں تھا۔ یورپ میں حتیٰ الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ بچہ فطری طریقے سے پیدا ہو۔ وہاں ماؤں کی اپنا دودھ پلانے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ماڈرن ہیں اور یورپی مائیں ہماری نانی دادی کی طرح جاہل ہوچکی ہیں۔در اصل ہم جاہل ہیں۔ آنے والے کچھ عشروں میں ان غیر قدرتی چیزوں کے جو نتائج برآمد ہونے والے ہیں ہم ان سے آگاہ نہیں۔
معلوم نہیں ہمارے اندر بہ طور ایک قوم بل کہ ہجوم کہنا زیادہ بہتر ہو گا کیا احساس کمتری ہے کہ ہم کبھی عقل یا استدلال سے کام نہیں لیتے۔ ہمیں دوسروں کی نقالی کرنے اور اپنے آس پاس کے چند ایک لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ معذرت کے ساتھ! کیا ہمارا نصاب اس قدر ناقص ہے۔ یا ہمارے معاشرے کے پاس ہمیں سکھانے کے لیے یہی کچھ ہے؟ سوال تو اٹھتے ہیں۔
کسی میک اپ زدہ نے ہمارے اندر خامی کی نشاندہی کر دی اور ہمیں ٹینشن نے جکڑ لیا۔ اور ہم ایک دم دوسرے شخص کی غلامی میں آ گئے۔ آخر ہم اپنی اصلیت کو پہچان کے اس پہ مطمئن رہنے کا ہنر کیوں نہیں سیکھتے۔
آ ج کل پچپن سال کی عمر میں پچیس سال کا نظر آ نے کا جنون ہماری قوم کے مالدار اور نمائش زدہ طبقے کو لاحق ہوگیا ہے۔جس کی افزائش کی خاطر جگہ جگہ پلاسٹک سرجری،لیپو سکشن اور تھری ڈی جیسے کلینک کھل گئے ہیں۔ آ پ اس کلینک میں اپنی ساٹھ سالہ شکل اور بدن لے کے گھستے ہیں اور تیس سال کے ہوکے نکل آ تے ہیں۔ کمپنیز اپنا مال بنا رہی ہیں مگر حسن اور جوانی کے دلدادگان اپنے مستقبل سے بے خبر ہیں۔نامعلوم ان غیر فطری کوششوں سے کب ان کی عمریں منہا ہونے لگیں اور پھر موت ان کا انتخاب غیر فطری طریقے سے کرے۔
اپنا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے فطری طریقہ خوراک میں سادگی اور جسمانی تحرک ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جتنی آ پ کی زیست ہے اسے آ پ مکمل صحت کے ساتھ بتائیں۔ یہ نہیں کہ آپ ساٹھ سال کی عمر میں لوگوں کو تیس سال کے دکھائی دیں اور پھر اچانک مر جائیں۔ اور یہ شرح اتنی بڑھے کہ یا تو آ پ کو جوان نظر آ نے کے غیر فطری ذرائع کے خلاف جلوس نکالنے پڑیں یا پھر آپ کے دانائے روز گار اس بات کا اعلان کردیں کہ اب زمیں نامی سیارے پہ انسانوں کی عمر فقط پچپن سال رہ گئی ہے۔
سو میرے اچھے ہم وطنو! تھوڑا سا فطرت کے موافقت پیدا کرلو اور کپمنیوں کے پروپیگنڈا میں اتنا نہ آ یا کرو۔ اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھو، اپنی عمر کے ساتھ اپنے اندر آتی تبدیلیوں کو قبول کرنا سیکھو تا کہ تمہاری روحیں تازہ رہیں اور تمہارے دل سدا جوان ہوں۔