شعر، شعریات، فکشن اور شمس الرحمن فاروقی کی تنقید
از، محمد حمید شاہد
کچھ دن پہلے ابو الکلام قاسمی کی ادارت میں علی گڑھ، بھارت سے شائع ہونے والا نیا ادبی جریدہ سہ ماہی”امروز” ملا۔ یہ اس کا پہلا شمارہ تھا۔ “امروز” کامذکورہ شمارہ اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ اس میں معاصر ادب کو زیر بحث لانے کے لیے کار گر حیلہ کیا گیا ہے۔ یوں کہ،ابو الکلام قاسمی نے کچھ سوالات مرتب کر کے ادیبوں کو لکھ بھیجے تھے۔ تنقید اور فکشن، ہر دو مکالموں کے لیے الگ الگ سوالات مگر ہر ایک مکالمے میں سب ادیبوں کو بھیجے گئے، سوالات ایک جیسے تھے۔
معاصر تنقید والے مکالمے میں شمس الرحمن فاروقی نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے سب کو چونکایا، اسی سے میں اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں۔ فاروقی صاحب کا کہنا تھا:
“نقاد کواتنا بلند اوراہم مرتبہ آپ کیوں دے رہے ہیں؟کیا آپ نے تنقیدی کتابوں،یاتنقیدی تحریروں کی عمر پر نہیں غور کیا؟تنقید توچاردن کی چاندنی ہے (اگر اسے چاندنی کا لقب دیا جا سکے)۔ کم ہی تنقیدیں ایسی ہیں جو اشاعت کے دس پندرہ سال بعد بھی پڑھی جاتی ہوں۔پڑھی جاتی کیا، جانی بھی جاتی ہوں تو بڑی بات ہے۔درسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہم کسی نقاد یا کسی تنقیدی کتاب کو اہمیت دے لیتے ہیں، لیکن درس کی دنیا کے باہر بھی بہت بڑی دنیا ہے۔ اس دنیا میں ادب پڑھنے والے بہت ہیں،اور ان کی تعداد پراس بات سے کوئی اثر نہیں پڑتا کہ کسی نقاد مثلاً شمس الرحمٰن فاروقی نے کسی افسانہ نگار مثلاً انتظار حسین یا قرۃ العین حیدر کے بارے میں کیا رائے ظاہر کی ہے؟
بات یہ ہے کہ آپ لوگ نقاد کو جو اہمیت دیتے ہیں (یا دینا چاہتے ہیں) وہ بچارا اس کا اہل ہی نہیں ہے۔یہ سب ادبی اور سماجی سیاست کے گورکھ دھندے ہیں۔آپ لوگوں نے نقادوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے (یا کر دینا چاہتے ہیں) کہ مصنف کی تقدیر کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ ممکن ہے کچھ طالب علموں کے امتحان کے نتیجے کا فیصلہ کچھ نقادوں کے ہاتھ میں ہو، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ “صاحب! اس سے اتفاق کیسے ممکن ہے کہ تنقید کو”چار دن کی چاندنی” کہہ کر “ڈسپوز ایبل” قرار دے لیں،اور نہ ہی اس بات سے کلی اتفاق ممکن ہے کہ نقاد کی اہمیت کو’سراسر ادبی اور سماجی سیاست کا گورکھ دھندا‘ سمجھ لیں، مگر فاروقی صاحب نے جس پس منظر میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ جو لگ بھگ جھلا کر کہا ہے تو اس مشتعل کرنے والے پس منظر کے موجود ہونے سے انکار کیوں کر ممکن ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ فاروقی صاحب، جو خود اُردو تنقید کا مستند حوالہ ہیں وہ تنقید اور ناقد کے اہم منصب کو یکسر بھلا دینے پر اصرار کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا ہم آزاد، حالی، شبلی ، امداد ا ثر، مسعود حسن رضوی، احتشام حسین، آل احمد سرور اور حسن عسکر ی، وزیر آغا، گوپی چند نارنگ ، سلیم احمد ،سراج منیر،وہاب اشرفی،قاضی افضال حسین، شافع قدوائی،شمیم حنفی ، تحسین فراقی، ابوالکلام قاسمی سے لے کر نئی نسل کے ناقدین ناصر عباس نیر، ضیاالحسن، آصف فرخی، مبین مرزا،امجد طفیل وغیرہ کے علاوہ خود شمس الرحمن فاروقی کے اپنے کام کو نظر اندازکر دیں، کیا ایسا کیا جاسکتا ہے کہ جن کی بہ دولت یہاں وہاں فکرونظر کے چراغ روشن ہوئے اورتخلیقی عمل کے بھید کھلتے رہے ہیں، ان کے سارے کام کو یکسر غیر ادبی سرگرمی کہہ کر ادبی اور سماجی سیاست کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
نہیں ،یقیناً نہیں،اگر ایسا ہوتا توخود فاروقی صاحب میں اتنا حوصلہ تھا اور ہے کہ وہ ایک بانجھ مشقت میں پڑنے کی بجائے اس سے الگ ہو جاتے۔ وہ تنقید کے ساتھ ساری عمر جڑے رہے”لفظ و معنی”،” اثبات و نفی”، “شعر،غیر شعر اور نثر”، ‘شعر شور انگیز”، “ساحری ، شاہی، صاحب قرآنی”،”افسانے کی حمایت میں” سے لے کر” ہمارے لیے منٹو صاحب” تک، وہ مسلسل سفر میں رہے ہیں اور اردو ادب پر نئے جہان روشن کرتے رہے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ تنقید کے بامعنی ہونے پر اُن کاکامل ایمان رہا ہے۔ اُن کا غصہ تو اس صورت حال پر ہے جس میں تنقید، تخلیق اور تخلیقی عمل پر بالادستی قائم کرنے کے جتن کرتی نظر آتی ہے ۔
میں صفدر رشید سے متفق ہوں کہ”آج اردو تنقید کو بے معنویت سے نکالنے کے لیے فاروقی سے زیادہ کوئی اور نقاد ریلے وینٹ نہیں ہے”اور یہ بھی مانتا ہوں کہ”اس کا ایک سبب فاروقی صاحب کے اٹھائے ہوئے سوالات ہیں جو آج بھی اسی طرح قائم ہیں جس طرح پہلے تھے۔” اور یہ بھی کہ “معاصر تنقید کا بیشتر سرمایہ فاروقی کے سوالات کی روشنی میں نئے سوالات قائم کر رہا ہے۔” اُردو تنقید کی بے معنویت کا سبب اگر ایک طرف وہ رویہ ہے جس میں تنقید کے نام پر اُتھلے خیالات کا ڈھیر لگایا جارہا ہے،محض تنقیص یا توصیف ہی کو تنقید سمجھ لیا گیا ہے یا پھرسطحی تبصروں سے کام چلالیا جاتا ہے، تو دوسری طرف وہ”تنقید نما”نیم فلسفیانہ مباحث بھی ہیں جو”نئی تنقید”کے نام پر سامنے آتے رہے ہیں۔ جی، وہی مباحث جن میں تنقید اپنے آپ پر اتراتی اور اپنے آپ میں اُلجھتی رہی ہے۔ اس بے جا نخوت اور الجھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ڈھنگ کے دوچار ایسے نمونے بھی پیش نہ کر سکی جنہیں اس مابعد جدید تنقید کا کرشمہ سمجھ کر قبول کر لیا جاتا۔ ناصر عباس نیر نے اسی جریدے میں اور اسی مکالمے کی ذیل میں تنقیدی عمل کی یوں وضاحت کی ہے:
“جب تنقید کسی فن پارے کے معانی،اورمعنی سازی کے عمل پر غور کرتی ہے تو ظاہر ہے یہ عمل ایک انسانی ذہن میں رونما ہورہاہوتا ہے، اور اس پر اور باتوں کے علاوہ، جمالیاتی حس بھی کہیں نہ کہیں اثرانداز ہورہی ہوتی ہے۔ ہم کسی شے کی تحسین کے جذبات کے بغیر،اس کی تفہیم میں تادیرشامل نہیں رہ سکتے۔جو چیز ہمیں نقص کی حامل نظر آئے، اسے ہم ردّکردیتے ہیں۔ لہٰذا پورا تنقیدی عمل ،یعنی معنی اور معنی سازی کی وضاحت کا عمل اپنے اندر ایک جمالیاتی رو لیے ہوتا ہے۔ یہ عمل کتنی دیر تک جاری رہتا ہے،کن زمانوں تک جاری رہتا ہے،یا کتنی دوراور گہرائی تک جاری رہتا ہے، اسی سے کسی فن پارے کی جمالیاتی سطح سے متعلق بھی ہمیں آگاہی مل جاتی ہے۔”
میں سمجھتا ہوں کہ یہاں جس ’معنی سازی‘ کی بات ہو رہی ہے وہ فن پارے سے باہر اورالگ تھلگ پڑا ہوا کوئی عمل نہیں ہے۔ جاننا ہوگا کہ تخلیقی عمل ، ایک حد تک متن میں معنی کی ایک سے زائد سطحوں پر تشکیل ہونے اور نئے معنی کی گنجائشیں رکھنے کا عمل بھی ہے ۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق میں معنی کا بیج موجود ہوتا ہے اور معنی کے نمو کی گنجائشیں بھی۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ اسی بنیادی نکتے کو ہی لائق اعتنا نہیں سمجھا جا رہا ۔ اس کا نتیجہ جو نکلنا تھا وہ نکلا ۔ اس باب میں جو مشقت ہوئی اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے مگر کئی سال کی مشقت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مابعد جدید تنقید کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا ڈسپلن بن کر بھی ادب اور اس کے تخلیقی عمل سے ایک قاصلے پررہی ہے۔ اوپر جس مکالمے کا ذکر ہوااسی میں شمس الرحمن فاروقی نے ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا:
“مابعد جدید تنقید نے ہمارے یہاں نظریاتی یا نظری بحثیں ضرور اُٹھائی ہیں۔لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے کہ ان بحثوں کا کتنا تعلق ادب فہمی سے ہے اور ان کے ذریعہ یا ان کی بدولت کون سا نیا ادبی اصول یا معیار قائم ہوسکا ہے، یا ان کی بدولت ادب فہمی کے عمل میں کون سی اور کتنی مدد مل سکی ہے۔ کم سے کم میں نے تو اب تک کوئی ما بعد جدید تنقید ایسی نہیں دیکھی جس میں کسی فن پارے یا مصنف کی قدر و قیمت متعین کرنے یا اس کے معنی کو واضح کرنے اور پھر اس معنی کی ادبی قدر متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔”
خیر، پچھلے کچھ سالوں سے میں اردو تنقید کے مزاج میں مثبت تبدیلیاں دیکھ رہا ہوں۔ تنقید اپنی خود سری جھٹک کر تخلیق اور تخلیقی عمل کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ صفد ر رشید کی یہ کتاب تخلیق اور تنقید میں موجود مغائرت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
٭٭٭٭
صفدر رشید اردو ادب کے سنجیدہ قاری ہیں ۔ انہوں نے بین الاقوامی شاعری کے کئی فن پاروں کو اردو میں اور اردو شاعری کو انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک ذہین محقق اور ناقد کے طورپرمنوایا ہے ۔ ان کی اب تک شائع ہونے والی کتابوں میں”مغرب کے اُردو لغت نگار”،”فن ترجمہ کاری”اورفیض احمد فیض کی منتخب نظموں کے انگریزی تراجم”فیض:سلیکٹڈ پوئمیز”بہت اہم ہیں۔ میں نے زیر نظر کتاب کے متن کو لفظ لفظ دیکھا اور صفدر رشید کے قائم کردہ مباحث کوتوجہ سے پڑھا ہے اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شمس الرحمن فاروقی کی تنقید پراب تک ہو چکے کام میں یہ سب سے اہم ، جامع اور لائق توجہ کام ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ’فاروقی فہمی‘ پر ایک سنجیدہ کاوش ہے ، خود اُردو تنقید کو سمجھنے کے لیے بھی اہم حوالہ بننے کے امکانات رکھتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کو اپنی تحقیق،تفہیم اورتجزیے کا موضوع بناتی یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں فاروقی صاحب کی زندگی کے احوال اور علمی ادبی کارناموں کی تفاصیل کی تجمیع کے ساتھ ساتھ ، اُن کی فکری تشکیل کے بنیادی عناصر پر بات کی گئی ہے ۔ اسی باب میں اُردو تنقید کی تاریخ اوران تنقیدی رویوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے جو اُن کے ہم عصروں میں پروان چڑھے تھے۔
کتاب کا یہ حصہ اُردو میں تنقید کی روایت اور بہ طور خاص تاثراتی، جمالیاتی،رومانی، ترقی پسنداور جدید تنقید کے مباحث کوموضوع بناتا ہے۔ اسی حصے میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی ، امداد امام اثرجیسے اردو تنقید کے بنیاد گزاروں پر بات ہوئی تو”آب حیات”،”مقدمہ شعرو شاعری”،” شعرالعجم”،”کاشف الحقائق” جیسی اہم کتب بھی زیر بحث آئی ہیں ۔ وسطی جدید تنقید کے باب میں وحید الدین سلیم، مہدی حسن افادی، عبدالرحمن بجنوری، محی الدین قادری زور، حامد اللہ افسر، عبدالقادر سروری سے لے کر عظمت اللہ خان ، مسعود حسین رضوی ادیب ،غرض ان سب سے ہم آگاہ ہوتے ہیں، جنہیں ہم بھول بیٹھے ہیں۔ صفدر رشید نے “تاثراتی|جمالیاتی|رومانی تنقید” کے عنوان سے نیاز فتح پوری، فراق گورکھپوری اورمجنوں گورکھپوری کے تنقیدی کام پر بات کی ہے تو”ترقی پسند تنقید” کی ذیل میں اختر حسین رائے پوری، احتشام حسین، محمد حسین وغیرہ کورکھ کر ان کے تنقیدی رجحانات کو واضح کیا ہے ۔ یہیں ممتاز شریں ، کلیم الدین احمد، میراجی اور محمد حسن عسکری تک بات پہنچتی ہے جنہوں نے اُردو تنقید پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پھر شمس الرحمن فاروقی کے ہم عصر ناقدین زیر بحث آتے ہیں ، جن میں سلیم احمد، گوپی چند نارنگ ،وزیر آغااور وہاب اشرفی شامل ہیں۔
دوسرے باب میں تنقید فاروقی کے اہم گوشوں کو مفصل بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے اس حصے میں فاروقی کی تنقید میں اُٹھائے گئے ادبی و فکری سوالات اور موضوعات پر بھرپورمکالمہ قائم کیا گیا ہے۔متن کی شرح کا معاملہ ہو یا متن کی قرات و تعبیر کا،خود متن کیا ہے ،متن کے مصنف اور اس کے شارح یعنی شرح کے مصنف کی نوعیت میں فرق کیا ہے، متن کے معنی اور شرح کا انحصار کن باتوں پر ہے، قرات اور شرح کے عمل میں تنقید اپنا کام کیسے کرتی ہے، شعراور افسانے کی تعبیر شرح اور تنقید کے وقت کن امور پر نظر رکھنی چاہیے وغیرہ فاروقی صاحب کی تنقید کے بنیادی موضوع ہوئے ہیں۔
فاروقی صاحب نے جن ادبی معیارات اور پیمانوں کو قائم کیا اور برتا یا جن رجحانات اور وتیروں پر گرفت کی ان کا ذکر”ادب کے غیر ادبی معیار اور ہئیتی جمالیات” کی ذیل میں ہوا ہے۔ یہیں بتایا گیا ہے کہ فاروقی صاحب نے مشرقی شعریات کی بازیافت، فن پارے کااس کی اپنی شعریات کی روشنی میں مطالعہ، ادب کی تخلیق اور تفہیم کے ادبی معیارات اورتخلیق متن سے معنی اخذ کرنے ،جیسے موضوعات کو اپنی تنقید کے محبوب موضوعات کے طور پر برتا اور اس پر جم کر لکھا۔ پھر صفدر رشید نے”جدیدیت”کا عنوان قائم کرکے فاروقی صاحب کی جدیدیت کی تفہیم میں درپیش مشکلات پر بات کی اورفاروقی کی تنقید کے گہرے مطالعے اور ان سے بالمشافہ ملاقات اور مکالمے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فاروقی جدیدیت پسند تو ہیں مگر ان معنوں میں نہیں ،جن معنوں میں بالعموم جدیدیت پسندی کی اصطلاح کو ہمارے ہاں برتا جاتا ہے۔
ان کے ہاں جدیدیت کا مفہوم کیسے اور کہاں مختلف ہوتا ہے، اس پر مفصل بات کی گئی ہے۔ میں اس باب کو کتاب کا اہم ترین باب سمجھتا ہوں اور شاید یہی وہ باب ہے جس کا مطالعہ ان اہم نکات کو واضح کر دیتا ہے جن کی بنیاد پر کھڑی شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کی عمارت الگ اور ممتاز ہو گئی ہے ۔ معاصر صورت حال میں تبدیلی کے باوجود تنقیدِ فاروقی مابعد جدیدیت ، وضعیات اور مابعد وضعیات وغیرہ کو کیوں نہیں مانتی؟ جدیدیت کیوں اور کیسے ابھی تک ریلے وینٹ ہے،اور پس نو آبادیاتی فکر کے تناظر میں فاروقی صاحب کی تنقید کا خاص کارنامہ کیا ہے، جیسے قضایا کو زیر بحث لانے اور”شعریات اور نئی شعریات”کے موضوع پر فاروقی صاحب کے خیالات وضاحت سے پڑھنے کے بعد بجا طور پرہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نظری مباحث ہوں یا اردو اصناف کا مطالعہ،انفرادی تخلیقات کے تجزیے ہوں یا ان کی تعبیر و تشریح، شمس الرحمن فاروقی کی تنقید جس قدر منظم اور مربوط انداز میں سامنے آتی ہے اُردو تنقید کی مجموعی تاریخ میں شاید ہی کسی اور کی توفیقات کا حصہ ہوئی ہو گی۔
کتاب کا تیسرا باب”شاعری کی تنقید”چوتھا”داستان کی تنقید” اور آخری باب”فکشن شعریات کی بحثیں” ہیں، ان تینوں ابواب میں نظری مباحث اور عملی تنقید ہر دو کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ شاعری کے نظری مباحث میں نظم اور غزل کے امتیاز، کلاسیکی غزل کی شعریات، شعر میں آہنگ اور نثری نظم، شعر میں ترسیل اور ابلاغ جب کہ فکشن کے نظری مباحث میں بیانیہ،پلاٹ،کہانی پن،اور سلسلہ مضامین”افسانے کی حمایت میں”کو موضوع بنایا گیا ہے۔ داستان کے باب میں بھی ہندوستانی داستان، داستان کے زوال کے اسباب، داستان کی شعریات وغیرہ جیسے موضوعات جس طرح تنقیدِ فاروقی میں آتے ہیں، اُنہیں مفصل بیان کیا گیا ہے۔ فاروقی صاحب نے جس طرح میر،غالب ، اقبال اور جدیدشعرا کی تفہیم کی یا منشی پریم چند،منٹو،انورسجاد،قمر احسن اوربلراج کومل کے افسانوں کو اپنی عملی تنقید کا موضوع بنایا،اسے بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب کی تنقید پر صفدر رشید کے کام کے اجمالی تعارف کے بعدمیں اس قضیے کی طرف آتا ہوں جو صفدر رشید نے’ تنقیدکیا ہے؟‘ کو سمجھتے سمجھاتے اُٹھا دِیا ہے ۔ جی، میں صفدر رشید سے یہاں تک تو متفق ہوں کہ “تنقید اور تخلیق دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر رشتے میں جڑے ہوئے ادبی رویے ہیں” اور اس کا انکار بھی کون کافر کرے گا کہ”تخلیق تنقیدی شعور کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی” اور یہ کہ ” وہ تنقید کے چوکھٹے میں قید بھی نہیں ہے”لیکن جس بیان سے مجھے جزوی طور پر اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ” تنقید تخلیق سے وابستہ بھی ہے اور اپنا الگ سے تعقلاتی نظام بھی رکھتی ہے، خصوصاً جب سے تنقید کو ایک علمی ڈسکورس کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔”
صورت واقعہ یہ ہے کہ ہماری تنقید اور تخلیق میں مغائرت کا سبب ہی یہی رویہ بنا ہے ۔ کیا یہ سانحہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوا ہے کہ تنقید کے نام پر “علمی ڈسکورس” کا تماشا تو ہوا مگر بہ قول شمس الرحمن فاروقی ” یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے کہ ان بحثوں کا کتنا تعلق ادب فہمی سے ہے اور ان کے ذریعہ یا ان کی بدولت کون سا نیا ادبی اصول یا معیار قائم ہوسکا ہے،یا ان کی بدولت ادب فہمی کے عمل میں کون سی اور کتنی مدد مل سکی ہے۔” صفدر رشید نے جسے “علمی ڈسکورس” کہا،اُس کے رد میں فاروقی صاحب کے محض بیان ہی کو نہیں ،ان کے مجموعی تنقیدی کام کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اور آخر میں جی، مجھے ایک دفعہ پھر صفدر رشید کے الفاظ دہرا لینے دیجئے کہ”آج اردو تنقید کو بے معنویت سے نکالنے کے لیے فاروقی سے زیادہ کوئی اورنقاد ریلے وینٹ نہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ فاروقی کے اٹھائے گئے سوالات اسی طرح قائم ہیں۔معاصر تنقید کا بیشتر سرمایہ فاروقی کے سوالات کی روشنی میں نئے سوالات قائم کر رہا ہے” اور یہ بھی کہ”فاروقی کی تنقید نئے ناقدین کے فکری میلانات کا پیش خیمہ بھی ہے اور ماضی بھی۔”
(ڈاکٹر صفدر رشید کی شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی مطالعہ پر مشتمل کتاب”شعر، شعریات اور فکشن” میں شامل دیباچہ۔ یاد رہے یہ اہم کتاب مجلس ترقی اردو ادب لاہور کی تازہ ترین اشاعت ہے۔)