2019 اور پانی پت کی چوتھی لڑائی
از، حسین جاوید افروز
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بر صغیر کی قسمت کا فیصلہ ہر دور میں پانی پت کے تار یخی میدان جنگ میں طے ہوتا چلا آیا ہے ۔اسی پانی پت میں 1527 میں فرغانہ کے بابر نے ابراہیم لودھی سلطنت کوشکست دے کر دلی کو مغلوں کی جھولی میں ڈال دیا۔جبکہ 1556 میں اکبر نے ہیمو کو شکست دے کر ایک بار مغلوں کو ہندوستان پر قابض ہونے میں مدد دی ۔آخری بار پانی پت کا میدان کارزار 1761 میں سجا جب مرہٹوں کا دلی پر چڑھائی کاخواب افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی نے خاک میں ملا دیا ۔آج 2019 میں صدیوں بعد پانی پت کا تاریخی میدان جنگ ایک بار پھر جنگ کے شعلوں سے دہک رہا ہے ۔لیکن ذرا ٹھہرئیے اس بار یہاں جنگ ہاتھیوں ،گھوڑوں اور مغل آرٹلری کے بجائے خالصتاٰ چناوی ماحول میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے تحت لڑی جا رہی ہے اور مقصد وہی ہے کہ یعنی دلی کا حصول ۔
۱۱ اپریل سے 19 مئی تک جاری رہنے والے انتخابی عمل میں دس لاکھ پولنگ سٹیشنز پر نوے لاکھ ہندوستانی ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں23 مئی کو دلی کسی کے لئے یا ہنوز دور است ہو جائیگی اور اور کسی کیلئے دلی دور نہیں رہے گی ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں لوک سبھا کے ان 17 ویں انتخابات نے ساری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے اور انڈین میڈیا کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا بھی اس انتخابی عمل کی لمحہ بھر لمحہ کوریج کررہا ہے ۔آئیے ہندوستانی انتخابات کے کثیر الجہت پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں ۔2019 میں ہندوستانی انتخابات سات شخصیات کے درمیان گھومتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ کردار ممتا بینرجی،پریانکا واڈرا،راہول گاندھی، مایا وتی ،اکھلیش یادیو ،امت شاہ اور نریندر مودی پر مشتمل ہیں۔سب پہلے بات کرتے ہیں 2014 سے اب تک ہندوستانی سیاست کو اپنی گرفت میں لینے والے موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی جو اب کی بار بھی مکمل فارم میں ہیں اور دلی جیتنے کی دوڑ میں سب سے فیورٹ مانے جارہے ہیں۔پچھلے انتخاب میں جہاں بطور” چائے والا“ مودی کا کرشمہ چل گیا وہاں اب کی بار” مودی ہے تو ممکن ہے اور چوکیدار“ کے دلفریب نعروں سے ایک بار پھر ہندوستانی عوام کو لبھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔مودی برانڈ کو کیش کرانے کے لئے کارپوریٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا کا ایک غالب حصہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور ان کی تشہیر پر کئی ہزار کروڑ روپے پانی کی طرح بہا ئے جارہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں مودی بھارت کو وہ اچھے دن نہیں دے پائے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا ۔ یہ بھی صیحح ہے کہ مودی ہر بھارتی کے کھاتے میں لوٹی ہوئی دولت سے پندرہ پندرہ لاکھ روپے نہیں ڈال پایا اور کسان کے لئے شمالی بھارت سے سینٹرل بھارت تک دو وقت کی روٹی کھانا بھی دوبھر ہوگیا ۔جبکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بدترین اثرات سے چھوٹے بیوپاریوں اور تاجروں کی بھی کمر ٹوٹی اوراس کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کو کروڑوں کی تعداد میں نوکریاں ملنے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ۔ اور تو اور ذخیرہ اندوزی اور کالا بازاری روکنے بارے سپیشل کورٹس کے قیام پر بھی تاحال کچھ نہیں ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ مودی کو اب پھینکو یا جملہ گیری کے بادشاہ کے لقب سے بھی نوازا جارہا ہے ۔لیکن ان تمام مسائل کے باوجود مودی بلاشبہ کمیونکیشن کے پی ایچ ڈی ہیں اوران کو خبروں میں رہنا آتا ہے تب ہی حال ہی میں انہوں ایکٹر اکشے کمار کو بھی ایک طویل انٹرویو بھی دیا تاکہ پبلک کو ایک مختلف تاثر دیا جاسکے ۔کبھی وہ ایک ہی شو میں تین مختلف اینکر پرسز کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اور اس الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے بی جے پی کیمپ نے اینٹی پاکستان کارڈ اور ہندوتوا کارڈ کا بھی کھل کر استعمال کرنا شروع کیا ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس بار وہ بھارتی عوام کو محض ترقی اور اچھے دنوں کے بہلاوے پر مطمئن ہرگز نہیں کرپائیں گے ۔اور اس سارے عمل میں مودی کو انڈین میڈیا کے ایک بڑے حصے جس کو اب مودی کا بھونپو یا گودی میڈیا بھی کہا جاتا ہے کی کامل حمایت میسر ہے۔
بھارتی جنتا پارٹی کے منشور کا جائزہ لیں تو یہ بھی ہائپر نیشنل ازم کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔جیسے کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل370 اور اس میں شامل 35اے کا خاتمہ تاکہ کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کا خاتمہ کیا جا سکے ۔رام مندر کے قیام کا عزم تاکہ ہندوتوا کے کارڈ کو کیش کیا جائے ۔جبکہ اس کے برعکس کانگرس کے منشور کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ عوام کے مختلف محروم طبقات کے مسائل کی درست عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔جس میں کسان کو ماہوا ر پیسے دینے کی بات کی گئی ہے اور کسان بجٹ کے قیام پر بھی سنجیدگی دکھائی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ سٹی مئیر کو مزید با اختیار بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے ۔ سب سے اہم بات کہ افسپا جیسے انسانی حقوق کو پامال کرنے والے اقدامات کے خاتمے کا بھی بھرپور عزم کیا گیا ہے۔
راہول گاندھی نے ان پانچ سالوں میں اپنے سیاسی کیرئر کو ایک نیا رخ دیا ہے اور کانگرس کو کھویا ہوا مقام دلانے کیلئے کڑی محنت بھی کی ہے جس کا پھل ان کو دسمبر 2018 میں ہندی بیلٹ کے ریاستی چناؤ میں شاندار طریقے سے ملا ہے ۔جبکہ رفائیل طیارے کی خریداری پر مبینہ کرپشن کے سوال پر بھی راہل نے فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے مودی امبانی گتھ جوڑ کو خوب آڑے ہاتھ لیا ہے اور ”چوکیدار چور ہے “ کے نعرے کا کامیاب پرچار ملک بھر میں کیا ہے ۔لیکن کانگرس کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ایک تو ریاستی چناؤ جیتنے کے بعد وہ اپنے اتحادیوں قدرے فاصلے سے معاملات طے کر رہی ہے جس کی بدولت اتحادی شاکی نظر آ رہے ہیں دوسرا پریانکا گاندھی کی سیاست میں آمد کے ٹرمپ کارڈ کو لے کر بھی کانگرسی کیمپ میں کنفیوژن پایا جاتا ہے کہ کیا پریانکا کو وارنسی سے میدان میں اتارا جائے اورکیا ان کا رول محض کانگرس کی پوسٹر گرل کا ہی رہے گا تاکہ وہ کہیں راہل پر ہی بھاری نہ پڑ جائیں ۔اور سب سے اہم خدشہ جو ماہرین ظاہر کر رہے ہیں کہ پریانکا کو اتنی دیر سے کیوں لانچ کیا گیا کیونکہ یوپی میں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچا ہے کہ بی جے پی کو کھدیڑ سکیں۔
لہذا بہتر ہوتا کہ ان کی کرشماتی شخصیت کو راجستھان یا مدھیہ پردیش میں استعمال کیا جاتا۔ راہل کے لئے اس وقت سب سے اہم چیلنج ہم خیال ریاستوں کے اتحاد جس کو مہا گٹھ بندھن کہا جاتا ہے اس کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ بنانا ہے تاکہ مودی لہر کا جم کر سامنا کیا جاسکے ۔اسی طرح اس بار اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کی قیادت یعنی مایا وتی اور اکھلیش یادیو نے آپسی اختلافات بھلا کر جس طرح اتحاد بنایا ہے اس نے یوپی جیسے 80 لوک سبھا کی سیٹیں رکھنے والی ریاست میں مودی لہر کو بیک فٹ پر کھڑا کردیا ہے کیونکہ اب تک کے سروے اور پولز کے مطابق اس بار بوا اور بھتیجے کا یہ اتحاد 80 میں سے 45 سیٹیں کم از کم لے جاتا دکھائی دے رہا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو 2014 کے مقابلے میں چالیس سے زائد سیٹیں گنوانا پڑ سکتی ہے ۔یوں ریجنل کھلاڑیوں میں مایا وتی اور اکھلیش نمایاں اہمیت اختیار کرچکے ہیں ۔اسی طرح مغربی بنگال میں وزیر اعلیٰ اور ترنمول کانگرس کی سربراہ ممتا بینر جی بھرپور طاقت لئے اپنے سیاسی وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔اگرچہ اپنے طور پر بھارتی جنتا پارٹی نے مشن23 پر نظریں جمائی ہوئیں ہیں مگر ماہرین کی نگاہ میں ممتا ہی ایک بار پھر کلکتہ سے دارجیلنگ تک بنگال فتح کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اسی لئے ممتا بینر جی کی اہمیت ان عوامل کو دیکھتے ہوئے اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہا اب بھارتی سیاست میں اقتدار کی حصہ داری میں ریجنل جماعتوں کا حصہ لوک سبھا کی مجموعی نشستوں میں45 فیصد تک پھیل چکاہے اور یوں قریب 300 نشستوں پر ریجنل جماعتوں کا اثر غالب ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔اسی طرح سیاسی منظر نامے میں مودی کے دائیں ہاتھ اور بھارتی جنتا پارٹی کے چانکیہ سمجھے جانے والے امت شاہ بھی پچھلے چند سالوں میں انتخابی سائنس سمجھنے والے جادوگر کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ امت شاہ ہی تھے جو کشمیر سے کنیا کماری تک اپنی جماعت کی تنظیم اور انتخابی صلاحیت کو ہر دم متحرک رکھے ہو ئے ہیں۔اس بار بھی ان کی انتخابی حرکیات پر گہری نظر اور پلاننگ بھارتی جنتا پارٹی کیلئے اقتدار میں واپسی کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے ۔آئیے اب مختصراٰ اہم ریاستوں میں کانگرس اور بی جے پی کی لہر کا جائزہ لیتے ہیں ۔یوپی میں ریجنل کھلاڑیوں اکھلیش یادیو اور مایاوتی کھل کر مودی کو ٹکر دیتے دکھائی دیتے ہیں اور اس بار ماضی کی طرح مودی لہر یہاں کمزور دکھائی دے رہی ہے۔
جب کہ کانگرس کو اگرچہ نشستیں کم ہی ملیں گی مگر وہ اپر کاسٹ کو جس طرح ٹارگٹ کر رہی ہے وہ بھی مودی کیلئے تشویش کا سبب بن رہا ہے ۔یاد رہے کہ لکھنو سے ہی راستہ دلی میں ایوان اقتدار تک جاتا ہے ۔بہار میں لالو پرشاد جیل میں ہونے کے باوجود نتیش کمار کے جنتا دل یونائیٹڈ اور بھارتی جنتا پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی کوششوں میں مگن ہے یعنی یہاں بھی مودی جی کو سخت مقابلا کرنا ہوگا۔علاوہ ازیں بیگو سرائے کی نشست پر کنہیا لال بھی بھاجپا کو سخت چیلنج دے رہا ہے ۔جبکہ دوسری طرف مغربی بنگال ممتا بینری جی کی کچھار کی حیثیت رکھتاہے جہاں دعوؤں کے باوجود مودی جی کی جماعت کو ٹکنے میں مشکلات درپیش ہیں ۔جبکہ دلی کی سات لوک سبھا سیٹوں پر اس بار عام آدمی پارٹی کی ہوا موجود نہیں ہے اور کانگرس کے ساتھ ان کا اتحاد نہ ہونا سیدھے بھاجپا کو فائدہ دیتا دکھائی دے رہا ہے ۔جبکہ اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور ہریانہ میں بھی مودی لہر کا اثر برقرار دکھائی دیتا ہے ۔شیوا جی کی ریاست مہاراشٹر میں بھی شیو سینا سے اتحاد کی بدولت بھاجپا مضبوط پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ گواکی ساحلی ریاست میں بھی سیاسی ہوا مودی کے موافق چل رہی ہے ۔البتہ ہندی بیلٹ سمجھے جانی والی ریاستوں مدھیہ پردیش ،راجستھان ،چھتیس گڑھ،میں اصل پانی پت کی سیاسی جنگ ہونے کا امکان ہے کیونکہ دسمبر میں ہی ریاستی چناؤ کے نتائج نے بھاجپا کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان ریاستوں کے دیہاتی علاقوں میں بھاجپا کے خلاف منفی جذبات ابل رہے ہیں جو کہ مودی جی کو خاصا پریشان کرسکتے ہیں۔یاد رہے 2014 میں اس ہندی بیلٹ میں مودی لہر سب کو بہا لے گئی تھی ۔اسی طرح اڑیسہ میں نوین پٹنائک ،تلنگانہ میں کے چندر شیکھر راؤ ،اور آندھرا میں تیلگو دیشام پارٹی کے چندرا بابو نائیڈو، مودی لہر کے سامنے بطور علاقائی صوبیدار مضبوط بند باندھے کھڑے ہیں جو کہ بھاجپا کیلئے ہرگز نیک شگون نہیں ہے ۔تامل ناڈو میں راہل اور سٹالن کے اتحاد ،جبکہ کیرالا میں لیفٹ اور پنجاب،کرناٹک ،میں کانگرس انتہائی مستحکم پوزیشن میں کھڑے ہیں۔ البتہ مودی کے گڑھ گجرات میں اگرچہ فتح کا امکانات بھاجپا کے حق میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں مگر ماہرین کے مطابق کانگرس یہاں اتنی آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالے گی کیونکہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں ریاستی چناؤ میں بھاجپا کی بمشکل فتح سب کو ازبر یاد ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب بھی بی جے پی نے ترقی کو بنیاد پر کر چناؤ جیتنے کی کوشش کی ان کو کامیابی نہیں ملی ،2004 میں واجپائی کا shining India برینڈ جس طرح پٹ گیا وہ اس کی بہترین مثال ہے۔
مگر یہ حقائق بھی اہم ہیں کہ جب بھی بھارتی جنتا پارٹی نے جنگی جنون کی بنیاد پر الیکشن لڑا ان کو کامیابی ملی جس کی مثال ایک بار پھر واجپائی دور میں سامنے آئی جب 1998 کے جوہری دھماکوں اور 1999 کی کارگل جنگ کی بدولت اٹل جی ایک بار پھر دلی پر قابض ہوگئے ۔معروف صحافی راجدیپ سر ڈیسائی کے بقول ”یوپی میں مودی جی وارنسسی کی سیٹ سے کھڑے ہوکر نہایت کامیابی سے ہندو توا کارڈ کھیلتے ہوئے یوپی جیتنے کی کوشش کی ہے جس کا اثر پڑیگا۔ جبکہ راہول گاندھی کو سوچنا پڑے گا کہ پریانکا کی سیاسی لانچنگ میں گہرائی سے پلاننگ کیوں نہیں کی گئی؟اور دلی میں ایک جانب تو اروند کیجری وال سے اتحاد کی باتیں ہوتی ہیں تو دوسری جانب ٹوئٹر پر کیجریوال سے لڑائی بھی چل رہی ہے راہول شائد بھول گئے ہیں کہ جنتا کنفیوژ لیڈر پسند نہیں کرتی ۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ مودی کا پلواما اور بالاکوٹ سرجیکل سٹرائک کا کارڈ اپنا اثر کھو چکا ہے۔
لہٰذا اب ہندوتوا کی پالیسی پر ہی فوکس ہے۔میرے خیال میں220 سیٹوں پر ریجنل ازم چھایا رہے گا اور الیکشن کا اصل دنگل بنگال اور یوپی میں ہی ہوگا اور بلاشبہ یہ ریاستیں ہی گیم چینجرثابت ہوں گی“ ۔اسی طرح معروف سیاسی دانشور یوگندر یادیو کے مطابق” ہر الیکشن کو تین مرکبات کے گرد ہی گھومنا چاہیے ۔لیڈر ،جنتا اور گورننس۔ ویسے بنیادی موضوعات تو معیشت ،بیروزگاری اور کسان کے مسائل ہی ہیں۔مگر ماننا پڑے گا کہ مودی نے جنگی جنون کو نہایت ڈھٹائی سے بیچا ہے ۔ میرے خیال میں اب بالا کوٹ سٹرائک کے بعد این ڈی اے اتحاد 230سیٹیں لے سکتا ہے جو پلواما سے قبل شائد 170 تک ہی محدود رہتی“۔23 مئی اب زیادہ دور نہیں رہ گئی ہے ۔اور اس روز معلوم ہوجا ئے گا کہ انڈین عوام نے ہندوتوا کی لہر میں بہہ جانے کا فیصلہ کیا ہے یا انہوں نے بنیادی مسائل کے حل کیلئے اپنا فرمان سنایا ہے۔
لیکن جاتے جاتے اتنا تو سمجھ میں آتا ہی ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کون اس سیاسی پانی پت کا معرکہ مارے گا؟ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نریندر مودی کے اس پانچ سالہ دور نے ہندوستانی سماج کی سیکولر اور تکثیر پسندانہ روح کو ہندوتوا اور برہمن غلبے کے جنون کی مدد سے خاکستر کردیا ہے ۔اس تکلیف دہ امر کو ارون دتی رائے نے نہایت کرب سے یوں بیان کیا ہے کہ” آج ہندوستانی مسلمان کو ہر دم یہ خوف ہے کہ کہیں وہ کسی ہندو ہجوم کے اندھے جنون کا نشانہ نہ بنادیا جائے ۔بھارت کے طول و عرض میں اقلیتیں نہایت دباؤ اور کرب تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ مودی کی اس بار جیت ہمارے سماج کو فاشسٹ ہتھکنڈوں کے ذریعے بھسم کردے گی ۔راشٹریہ سیوک سنگھ کا نظریہ اگلے پانچ برس خوفناک تباہی کا سبب بنے گا ۔ میں مودی راج ایک بار پھر دیکھنے کے بجائے ہندوستان میں انتشار دیکھنے کو فوقیت دوں گی “۔