سماع کی کہانی صوفیہ کی زبانی
از، یاسر اقبال
موسیقی یا راگ کا شوق ایک فطرتی ولولہ ہے۔ کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے رنگ میں اس شوق میں مصروف ہے۔ یہ وہ طبعی جوش ہے جو ہر وجود کو ودیعت کیا گیا ہے۔ آبشاروں سے بھی یہ دل رُبا صدا آتی ہے اور ہوا کی سرسراہٹ میں بھی موسیقیت کا ایک خوش گوار تاثر ملتا ہے۔ آگ میں بھی یہ ولولہ پایا جاتا ہے اور مٹی میں بھی۔ کوئی کسی رنگ میں گا رہا ہے اور کوئی کسی میں۔ ہستی کا ہر ذرہ ہم آہنگ آوازوں کے ساتھ اپنی اپنی لَے میں سرشار ہے۔ ہر وجود اپنی صدا پر خود فنا ہے اور خود ہی اپنی تماش بینی کر رہاہے۔ ہر مادہ کسی نہ کسی رنگ میں صدا بندی کر رہا ہے۔
صدا بندی کا اظہار صرف جان دار چیزوں تک محدود نہیں ہے بے جان چیزوں میں بھی اپنی ایک موسیقی ہوتی ہے۔ رنگوں کے تناسب میں موسیقی، بارش کے برسنے میں ایک ترنم، مرغانِ چمن کی خوش الحانی، کہساروں کی خاموش موسیقی، دریا کی روانی میں ایک سکوت و ٹھہراؤ ایک فطرتی موسیقی کا تاثر دے رہے ہوتے ہیں۔
فن موسیقی کے دائرے میں صرف مغنیان کی اختراع ہی نہیں بل کہ فطرت کے مغنیان بھی اس فن سے گہرا علاقہ رکھتے ہیں۔ مرزا سلطان احمد فن موسیقی کی وضاحت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
”موسیقی یا راگ کا موضوع آواز ہے جب آواز یا آوازوں کے نکالنے، بندش ِترتیب، انضباط، ٹھہراؤ، نقطہئ آغاز و اختتام کا قانون ضابطہ ترتیب دیا جاتا ہے تو اس کا نام راگ یا موسیقی ہو جاتا ہے۔ انسان کے مُنھ سے دوسری اشیا کے تضارب اور تصادم سے جس قدر آوازیں نکلتی ہیں وہ سب کی سب منتشر رنگ میں مبادیات راگ ہیں انھیں جب ایک ضابطہ اور قانون کے ماتحت لایا جاتا ہے تو ان کا نام موسیقی یا راگ ہو جاتا ہے۔“ (فنونِ لطیفہ؛ص۴۴۱)
موسیقی علم الاصوات کی ایک ذیلی شاخ ہے لیکن اس سے مراد وہ آوازیں ہیں جو قوانین فطرت کے مطابق موزوں کی گئی ہیں اور قانونِ فطرت کی رو سے سامع کی داخلی واردات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ امام غزالیؒ نے اسے روحانی غذا کہا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس میں پایا جانے والا مواد پاک ہو۔ بعض احباب موسیقی اور غنا کو ایک ہی درجے پر پرکھتے ہیں۔ موسیقی کا تعلق روح سے ہے جب کہ غنا کا تعلق نفسِ لوازمہ سے ہے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ موسیقی اُن موزوں آوازوں کا مجموعہ ہے جو قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہیں جب کے غنا اُن آوازوں کا مجموعہ ہے جن کا تعلق لذائذِ حسی سے ہوتا ہے اور کلام میں بھی کوئی طہارت نہیں ہوتی۔ سید امداد امام اثر نے موسیقی اور غنا کے فرق کی وضاحت اس طرح کی ہے:
”اگر موسیقی کا علم قوانینِ فطرت پر مبنی نہ ہوتا تو روحِ انسانی کو زنہار اس سے حظ نہیں ملتا اور واقعی امر یہ ہے کہ موسیقی کو لذائذِ حسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بر خلاف غنا سراپا لذتِ حسی سے متعلق ہے اور ہر گز شایان روحِ پاکبازان نہیں ہے۔“ (کاشف الحقائق؛ص۶۵)
موسیقی اور غنا کے اثرات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سید امداد امام اثر کے بہ قول حسی طور پر موسیقی کا جو اثر مزاجِ انسان پر ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سنگ دِلی اس سے دور ہوتی ہے۔ نرم مزاجی اور خدا ترسی کے عناصر اس کی طبیعت میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ مزاج میں رحیمی آتی ہے اور صبر و رضا کی صفتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایذا رسانی اور حق تلفی کے منفی رویوں کا طبیعت سے انخلا ہوتا ہے۔ اپنی بے حقیقی، بے چارگی، بے مائیگی ہویدا ہو جاتی ہے۔ میلان شر و فساد جاتا رہتا ہے۔ انکسار، تحمل، فروتنی، عجز، مروت، حق پسندی، وفا داری، بے غرضی، سیر و چشمی، شجاعت، مردانگی، محبت، خود غرضی، تکبر، تشنج وغیرہ جو رذیل کیفیاتِ بشریہ ہیں اُن کی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔
لیکن وہ چیز جسے ہمارے ہاں موسیقی کہا جاتا ہے وہ موسیقی نہیں غنا ہے جس سے نفس حرام کاری، فسق و فجور، رندی اوباشی وغیرہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے وہ موسیقی نہیں غنا ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے اہلِ تقوٰی اشد من الزنا سمجھتے ہیں۔ اسلامی نقطۂِ نظر سے دیکھا جائے تو موسیقی حسنِ صوت ہے اور اللہ تعالیٰ کا ایک خوب صوت عطیہ ہے۔
قرآن نے بھی خوش الحانی کو خدا کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کوئی نہ کوئی معجزہ ودیعت کیا حضرت داؤد ؑ کو لحنِ داؤدی سے نوازا۔ آپؑ زبور اس خوش الحانی سے پڑھتے تھے کہ پرندے ہوا میں معلق ہو جاتے تھے اور کائنات کی ہر چیز پر ایک سکوت طاری ہوجاتا تھا۔
موسیقی کی غرض و غایت کے حوالے سے امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح لوہے اور پتھر میں آگ مخفی ہوتی ہے اسی طرح دلوں کے باطن میں اسرار چھپے ہوتے ہیں ان کے اظہار کی تدبیر راگ سے بہتر کوئی نہیں ہے۔
داتا علی ہجویریؒ نے بھی کشف المحجوب میں موسیقی اور سماع کی تفصیل کو بڑ ی وضاحت کے ساتھ کیا ہے۔ مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری نے بھی اپنی کتاب ”اسلام اور موسیقی “ میں متعدد مستند حوالوں سے موسیقی کی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ اسلام بھی موسیقی کی خوبیاں جو نیچرل رنگ میں ہیں انھیں قبول کرتا ہے لیکن اگر اس میں مواد شہوانیت کو اپیل کرنے والا ہو تو اس کے برے اثرات سے بھی اپنے متبعین کو ڈراتا ہے۔
تاریخ بر صغیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہوں سے پہلے مشائخ صوفیہ نے موسیقی کی طرف توجہ کی اور حال و قال کی مجالس میں سماع کی صورت میں اس کو جاری رکھا۔ سماع فن موسیقی کا ایک پاکیزہ اور دل کش اسلوب ہے جسے صوفیائے کرام نے بر صغیر میں رواج دیا۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی سماع کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں:
”سماع (بفتحِ سین) اہل لغت کے مطابق مصدر ہے جس کے معنی سننے کے ہیں لیکن اصطلاح میں اچھی آواز، سرور، وجد و حال اور سرود و رقص کے بھی ہیں۔۔۔۔ سماع فتح سے یعنی زبر سے سننے کے معنوں میں ہے اور کسرہ سے یعنی زیر سے فارسی زبان میں سرود و نغمہ کے ہیں۔ سماع ایک کیفیت ہے جو حق تعالیٰ کی جانب سے دل پر وارد ہوتی ہے، دل کو احوالِ غیب بتاتی ہے اور عہد ازل (الست بربکم) کی یاد دلاتی ہے۔ صوفیہ سماع کو رقصِ روح بھی کہتے
ہیں، وہ رقص جو انسان کی روح کو ھویّتِ حقیقت کی فضا میں پہنچا دیتی ہے۔“ (سماع و موسیقی تصوف میں؛ص۱)
ڈاکٹر موصوف نے تذکرۃ اولیا کے حوالے سے سہل بن عبداللہ تستری ؒ کے سماع سننے کا واقعہ بیان کیا ہے کہ آپؒ جب سماع سنتے تو وجد میں آ جاتے تھے اور کئی کئی روز تک اسی وجد کی کیفیت میں رہتے تھے، کھانا بالکل نہیں کھاتے تھے، اگر سردی ہوتی تو پھر بھی انھیں اتنا پسینہ آتا تھا کہ کپڑے تر ہو جاتے تھے۔
سماع آرامِ جان زندگان است
کسی داند کہ اورا جانِ جان است
سماع زندہ انسانوں کے لیے راحت افزا اور راحتِ جان ہے لیکن یہ حقیقت اہل دل اور عشاق ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت احمد بن محمد الطوسی ؒ نے اپنی تالیف بوارق میں لفظ سماع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سماع کا سین اور میم سم ہے یعنی سماع سم یا زہر ہے جو صوفی کو ما سوا اللہ سے لا تعلق کر کے غیبی مقامات پر پہنچا دیتا ہے۔ جہاں صوفی کو سماع سے قربتِ حق حاصل ہوتی ہے۔ سلطان المشایخ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مطابق سماع کے منکرین تین قسم کے لوگ ہیں (۱) جاہل لوگ جو سنت و احادیث سے واقف نہیں (۲) وہ لوگ جو اپنے اعمالِ نیک پر مغرور و متکبر ہیں (۳) وہ لوگ جو ذوقِ سماع سے محروم ہیں۔ ورنہ حسنِ صوت تو جانورکو بھی متاثر کرتی ہے، اونٹ حدی کے نغمے سن کر مست ہو جاتا ہے۔ (سیرالاولیا؛ص۲۳۵)
سماع ایک موزوں آواز ہے اور موزوں آواز حرام کیسے ہو سکتی ہے۔ البتہ مجلس سماع میں حضرت نظام الدین اولیاؒ آلاتِ موسیقی چنگ و رباب اور خواتین کے شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ آپ محفلِ سماع کے قواعد و ضوابط کا بہت خیال رکھتے تھے۔
شیخ بدرالدین غزنوی ؒ نے شیخ فرید الدین گنج شکرؒ سے سوال کیا کہ اہل سماع کی بے ہوشی کہاں سے ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ بے ہوشی الست بربکم سے ہے، جب یہ ندا سنی تھی تو ساری خلقت بے ہوش ہو گئی تھی، اُسی زمانے سے یہ بے ہوشی اہل سماع سنتے ہیں تو بے ہوشی اُن پر اثر کر جاتی ہے اور وہ وجد میں آ جاتے ہیں۔ (سیرالاولیا؛۰۱۵۔۸۰۵)
سماع اور موسیقی کے حوالے سے بر صغیر میں سلسلۂِ چشت کے بزرگوں کا ذکر خصوصیت کا حامل ہے۔ ہندوستان میں سماع کا با قاعدہ آغاز رکھنے والے بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہیں۔ آپ کے ہاں با قاعدہ محفل سماع ہوتی تھی۔ حضرت قطب الدین بختار کاکیؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے خواجہ کی محفل سماع میں اکثر مشائخِ کبار شریک ہو کر فیض یا ب ہوتے تھے جن میں شیخ شہاب الدین سُہروردی ؒ، شیخ محمد کرمانیؒ، شیخ سیف الدین ماجوزیؒ، شیخ احمد بن محمد اصفہانی ؒ، مخدوم زادہ شیخ برہان الدین چشتی ؒ، مولانا بہاالدین بخاریؒ، مولانا محمد بغدادی ؒ، شیخ برہان الدین غزنویؒ، خواجہ سلیمانؒ شامل ہوتے تھے۔ حضرت قطب الدین بختار کاکی ؒ کا وصال بھی محفل سماع میں ایک شعر سننے کے سبب ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ محفل سماع میں شریک تھے جب قوالوں نے یہ شعر پڑھا:
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانی دگیر است
اس شعر سننے کے بعد خواجہ صاحب ؒ پر تین دن تک وجد و حال کی کیفیت طاری رہی آخرِ کار اسی کیفیت میں آپ کی روح پرواز کر گئی۔ سماع کی ترویج میں سلسلۂ چشت کی خانقاہوں کا کلیدی کردار تھا۔ بیش تر بزرگ موسیقی کے علوم میں گہری دسترس رکھتے تھے۔ سماع کے فروغ او ترویج میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کی خانقاہ بہت مشہور تھی حضرت امیر خسروؒ کی آپ سے نسبت اور خسروؒ کا موسیقی میں نئی نئی اختراعات کرنا آپؒ کا ہی فیضانِ نظر تھا۔ ان بزرگوں کے علاوہ حضرت گیسو درازؒ بھی سماع اور موسیقی کی مبادیات کا عملی طور پر گہرا ادرک رکھتے تھے۔ آپ ؒ اکثر فرماتے تھے کہ میں نے سلوک کی منازل تلاوت قرآن اور سماع سے طے کی ہیں۔ ایک بار سماع پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ تان اور لے غزل کے مزاج اور مضمون کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر اشعار میں بیزاری، عجز و انکسار ہے تو پھر اس کا غنائی اسلوب بھی ان اشعار سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
سلاطین میں سلطان التمش پہلا سلطان تھا جو سماع سے شغف رکھتا تھا اور خواجہ قطب الدین بختار کاکیؒ کی خانقاہ پہ جا کر سماع سنتا تھا۔ صوفیہ نے سماع کو باطنی اصلاح، روحانی تشفی اور حق تعالی کی محبت کو دل میں بیدار کرنے کا ذریعہ بنایا۔ خلفائے چشت میں حضرت امیر خسرو کو طوطی تہند کہا گیا۔ سماع اور موسیقی کے حوالے سے آپ کی جو خدمات و اختراعات ہیں اُن کی آج تک نظیر نہیں ملتی۔ آپ اپنے کلام کے لیے خود دھنیں ترتیب دیتے تھے۔
موسیقی کلام، سر اور لے کا مجموعہ ہے آپؒ کے بہ قول اگر موسیقی میں کلام نہ ہو تو یہ محض اوں، آں، ایں کی آوازوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ لہٰذا موسیقی کو با معنی بنانے میں امیر خسرو نے با معنی کلام کو اختیار کرنے پر توجہ دلائی۔ ترانہ،قول، قلبانہ اور غزل جیسے غنائی اسالیب آپ نے متعارف کرائے۔ قوالی جو قول سے مشتق ہے خسروؒ ہی کی ایجاد ہے۔ آپ نے قوالی کا اسلوب جس میں اشعار کی تکرار اور تالیوں کے اضافے کر کے کلام میں بلند آہنگ کے اسلوب کو متعارف کرایا۔
خسرو کے بعد جو دوسرا بڑا نام آتا ہے وہ مخدوم شیخ بہاء الدین برناوی ؒ کا ہے آپ بھی سماع اور موسیقی کے عملی میدان میں مہارت رکھتے تھے۔ کتابِ چشتیہ میں آپ کے احوال تفصیل سے ملتے ہیں۔ فقیر سیف اللہ سیف خاں اپنی کتاب ”راگ درپن“ میں بتاتے ہیں کہ آپ درویش تھے اور سبز رنگ کے فقیری لباس میں ملبوس نظر آتے تھے۔ سلسلۂِ چشت میں سماع کو روح کی غذ ا تصور کیا جاتا ہے گدی نشین درگاہِ اجمیر شریف صاحب زادہ سید فضل المتین چشتی فرماتے ہیں:
”سماع ہم چشتیوں کی روحانی غذا ہے ہم راہ سلوک بہ آسانی اس کے ذریعے بھی طے کرتے ہیں اور اعلیٰ روحانی مقامات اور مدارج حاصل کرتے ہیں۔ سماع کے جائز اور نا جائز ہونے کی بحث چلتی رہی ہے، چلتی رہے گی۔ ہم سنتے آئے ہیں اور سنتے رہیں گے۔“ (سُرودِ رُحانی؛ص۱۲)
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی سماع کی ایک مجلس کا احوال سناتے ہیں کہ شیخ العالم سیف الدین باخرزیؒ کی خدمت میں ایک درویش تھا جس کا نام سدید الدین خوارزمیؒ تھا جو اپنا مال اور اپنی دکان اللہ کی راہ میں دے کر شیخ العالم کی خدمت میں رہتا تھا اوراُ ن کے مطبخ میں خدمت کرتا تھا ایک رات شیخ سماع سن رہے تھے، سدید الدین خدمت سے فارخ ہو کر اور عشاء کی نماز ادا کر کے مجلس ِ سماع میں آ گیا اس وقت قوال یہ کلام پڑھ رہے تھے:
دردی است درین دلم نھانی کان درد ِ مرا دوا تو دانی
چون مرھم بیدلان تو سازی در د ر د دلم فرو نمانی
یارب بہ درِ کہ باز گردم گر تو ز درِ خودم برانی
گر پای سگی درِ تو کوبد دانم کہ تو ضایعش نمانی
از من گنہ آید و من اینم و ز تو کرم آید و تو آنی
گفتم: ارنی و نیست گشتم ازبیم ِ جواب ِ لَن تَرانی
سدید الدین نے نعرہ مارا اور زمین پر گر پڑا اور وفات پاگیا۔(سماع نامہ ہائے فارسی؛ص۹۱۳۔۸۱۳)
سماع کے لیے کلام کا انتخاب خاص نقطہ نظر سے ہونا چاہیے اس کا موضوع اہل دل کی کیفیات سے علاقہ رکھتا ہو۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ عارفانہ کلام کی لفظیات کے معنی مرادی کی بجائے مجازی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اپنے اندر ایک خاص عارفانہ معنویت رکھتے ہیں۔
سلطان المشایخ فرماتے تھے کہ سماع کے اشعار میں جو الفاظ بیان کیے جاتے ہیں ان میں زلف قربت ِ حق کے معنوں میں ہے اور بعض دفعہ یہی زلف جب محبوب کے رخسار کے تِل کو چھپا لیتی ہے تو کافر ہو جاتی ہے۔ (سیر الاولیا؛ص۴۰۵) عارفانہ کلام میں چند منتخب الفاظ و تراکیب کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے (بحوالہ”سماع نامہ ہای فارسی“)
۱۔بُت: ہر وہ چیز جو انسان کے دل کو مطلوب و مقصود ہو، اگر وہ چیز غیر اللہ ہو تو وہ مذموم ہے اور اگر مقامات سلوک میں سے کوئی مقام ہے تو اُس کو قابل ِ تعریف کہا جاتا ہے
۲۔ بت خانہ: وہ دل جس میں دنیا اور آخرت کی طلب ہو۔ اس طرح وہ دل جس میں دینی مقامات میں سے کسی مقام کی طلب ہو
۳۔ترسا: صوفیہ کی اصطلاح میں مردِ روحانی کو کہتے ہیں جو نفس و جسم سے مجرّد ہو کر مرتبہئ روح میں پہنچ جاتا ہے۔
۴۔ترسا بچہ: روحانیت کے پیغام کو ترسا بچہ کہتے ہیں یعنی وہ واردات جو عالم ِ ارواح سے دلوں پر وارد ہوتی ہے وہ تر سا بچہ کہلاتی ہے۔
۵۔خرابات: اس سے مراد رسوم و آداب کو بدل دینا۔اس کے علاوہ خرابات سے مراد وہ قابلِ مذمت وجود بھی ہے جو شراب ِ غرور سے مست ِ غفلت ہو اور جس میں تقلید کرنے کی عادت پختہ ہو چکی ہو۔
۶۔ زلف: ہر وہ چیز جو انسان کو محجوب کردے، اس سے مراد کفر اور حجاب بھی ہے۔
۷۔زُنار: عبادت اور عبودیت میں ہمیشگی کے ساتھ قائم رہنا۔
۸۔شراب: جہاں کہیں بھی شراب کا لفظ آیا اس سے مراد شراب ِ معرفت یا شراب ِ محبت ہے۔
۹۔کعبہ: ہر وہ چیز جو الہٰیت کا مقام و محل ہو۔
۰۱۔کفر: اس کے معنی چپانے کے ہیں۔
۱۱۔محراب و قبلہ: اس سے مراد وہ مقصود و مطلوب ہے جس کی جانب دل اور سِر متوجہ ہو۔
۲۱۔مسجد و مدرسہ و خانقاہ: ان تینوں لفظوں سے مراد ظاہری عادات و رسوم ہیں۔
۳۱۔نماز: اس سے مراد حضورِ حق ہے
۴۱۔آغاش: احاطہئ وجود
۵۱۔ابرو: صفات ِ حق تعالیٰ، جب ان ذات کا پردہ پڑا ہو، کبھی ابرو سے قاب قوسین کی طرف بھی اشارہ کیا جاتاہے اور کبھی ابرو سے الہام ِ غیبی بھی مراد ہوتا ہے۔
۶۱۔بادہ: عشق الہٰی کا فیضان جو سالک کے دل پر وارد ہوتاہے اور اسے مست و بے خود کردیتا ہے۔
۷۱۔بادہ فروش: مرشد، پیر، شیخ
۹۱۔ بلبل: عارف ِ ربانی
۰۲۔بوسہ: عشق و محبت، فیض ِ روحانی
۱۲۔ پیالہ: چشمِ محبوب
۲۲۔ پیر ِ میکدہ: مرشد جسے پیر خرابات اور پیر مغان بھی کہا جاتا ہے
۳۲۔جام: باطن ِ عارف
۴۲۔خال: نقطہئ وحدت
۵۲۔خُم: جائے وقوف
۶۲۔خمار: محبوب و محب کے درمیان حجابات
۷۲۔خمخانہ: عالم غیب و شہادت
۸۲۔رِند: جو رموز و حقایق کو برملا بیان کرتا ہے
۹۲۔ساقی: شراب معرفت پلانے والا، مرشد، محبوب ِ حقیقی
۰۳۔سوزو ساز: سوز یادِ حق میں سوزشِ عشق ہے اور ساز یافتِ ذات ہے۔
مثال کے لیے انھی الفاظ پر اکتفا کیا جاتا ہے وگرنہ ان الفاظ و تراکیب کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کام کے لیے ایک الگ فرہنگ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں ایک زمانے تک سماع کی روایت بھرپور انداز کے ساتھ اپنے جملہ اصول و ضوابط کے ساتھ رائج رہی لیکن جیسے جیسے سماج پر مادہ پرستی غالب آتی گئی موسیقی غنا کی شکل اختیار کرتی گئی۔ اہل لکھنو کے ہاں تو موسیقی مکمل طور پر غنا کے روپ میں نظر آئی۔ موسیقی صوفیہ کے حلقوں سے نکل کر بادشاہوں اور امراء کی محافل میں جگہ پانے لگی۔ جہاں اس کے سامعین اہلِ دل کی بجائے اہلِ طرب ہوتے تھے۔
قوالی سماع کی ہی ایک صورت ہے جو امیر خسروؒ کے ساتھ منسوب ہے۔ قدیم زمانے میں ایران اور ترکی سماع کے حوالے سے اہم مراکز رہے ہیں۔ جہاں صوفیہ و مشائخ کے عرس کی تقریبات کے سلسلے میں سماع کی محافل منعقد کی جاتی تھیں۔ ترکی میں بھی سماع کی روایت بہت مضبوط رہی ہے۔ 1933 میں یعنی اتا ترک کے انقلاب کے بعد ترکی میں سماع ممنوع ہو گیا تھا۔ لیکن 1951 میں پھر محفل سماع برپا کرنے کی اجازت مل گئی۔
مولوی فرقہ نے ایران میں اب بھی سماع کی روایت کو بحال رکھا ہوا ہے۔ موجودہ دور میں بھی سلسلۂِ چشت کے مراکز میں سماع کی محافل کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں اجمیر شریف اور دہلی سماع کے بڑے مراکز ہیں۔ پاکستا ن میں تونسہ شریف، مکھڈ شریف، گولڑا شریف، پاک پتن شریف، سیال شریف، میرا شریف کے ساتھ ساتھ دیگر چشتی خانقاہوں پر حال و قال کی محافل کا خصوصی انعقاد ہوتا ہے۔