مردانگی کی پس نوشت
از، یاسر چٹھہ
نظر ہے۔ اس کام ہی ہے دیکھنا اور دیکھنے کا شعور سِینچنا۔ نظر کئی منظروں پر اپنی چادر تانے آنکھیں پھاڑے خالی طور پر تَک رہی ہوتی ہے۔ دل اور سوز ملتے ہیں تو نظر کو تکنا سُجھاتے ہیں۔
دل اور سوز ملے ہیں، نظر کو شعور ملتا ہے۔ انتخاب کا لمحہ آتا ہے۔ دل اور سوز ایک لمحے کی تین تقسیموں میں تین منظر دیکھتے ہیں۔ دیکھیے اور برداشت کیجیے، اگر کر سکتے ہیں تو؛ ورنہ پھر چَھلک پڑیے۔
منظرِ اوّل
پاکستان کی اپوزیشن کی جماعتیں ہیں۔ منصوبہ بنتا ہے کہ افطار پارٹی پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی سَر بَر آوردہ شخصیات بلاول ہاؤس میں جمع ہوتی ہیں۔ مریم نواز بھی آتی ہیں۔ شام اگلے دن افطاری کی تقریب کی تصاویر نکلتی ہیں۔
سوشل میڈیا جو تبصرے آتے ہیں وہ آپ کی فوری یاد داشت current memory میں محفوظ ہیں۔ انہیں فاطمہ جناح کے ساتھ رکھے جانے والے رویّے سے ملائیے۔ قدم اٹھائیے، اب ان تبصروں کو بے نظیر بھٹو شہید پر اسمبلی کے اندر اور باہر روا طور طریقوں سے نَتھی کیجیے۔ بڑے بڑے اور تیزی سے قدم لیجیے: ریحام خان کا آنا، ریحام خان کا جانا، کشمالہ طارق، ماروی میمن، فردوس عاشق اعوان… ۔
سب اشارات سے منسلک احساسات جمع کیجیے، اور آخری دَموں پر سانس لیتی انسانیت کو مختصراً کہنے دیجیے:
مریم نواز کی تصویر پر آوارہ کتوں کی طرح سونگھتے کامنٹس کرنے والے…
ابھی بھی جملہ مکمل نہیں کرنا، کچھ مزید آگے آئیے۔
منظرِ دوم
راول پنڈی ہے۔ ماہِ رمضان ہے۔ ایک ہوسٹل سے لڑکی سحری کے لیے باہر نکلتی ہے۔ پولیس والے تحفظ دینے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ وہ اس لڑکی کے ہم راہی کو مار بھگاتے ہیں۔ لڑکی کو اغواء کرتے ہیں۔ ماہِ رمضان ہے، یاد رہے، اور شیطان قید رہے۔ دور ویرانے میں لے جاتے ہیں، اس کا اجتماعی ریپ کرتے ہیں۔ میڈیکل ٹیسٹ زَبر جنسی ثابت کرتا ہے… ۔
اب دو بارہ اپنے سب انسانی حوالے کے احساسات کی جمع بندی کیجیے، اور کہنے دیجیے:
پولیس اہل کاروں کے ریپ کا شکار راول پنڈی ہوسٹل کی لڑکی، کس کے ساتھ سحری پر نکلی، اس کو بنیادی سوال بنانے والے…
پھر سے، جملہ جاری ہے، کے نشانات پر ٹوٹا جملہ fragment ہی رہنے دیجیے۔
منظرِ سوم
پھر اسلام آباد آئیے۔ یہ شہزاد ٹاؤن ہے۔ ایک بچی ہے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ وہ پیدائش کے حادثے میں عورت کے قبیلے کی نکل آئی ہے۔ اس کو بھی اغواء کیا جاتا ہے۔ ہوس ناچتی ہے۔ فرشتہ قتل کر دی جاتی ہے۔ قتل کا مقدمہ نہیں درج ہو پا رہا۔ صفحے ختم ہوئے ہیں، یا انسانیت؟ تحقیقی اور مثبت رپورٹنگ ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے بچی کے قتل پر مشقِ سیاست جاری ہے۔ ہیں جی؟ وہ کب یہاں کی تھیں؟ اس لیے اسے بھلا کون نوچے، کوئی نِگلے ہمارا کیا، ہمیں کیا؟
فرشتہ کے قتل پر سیاست کاری کی بات کہنے والے، اس کے والد کے شناختی کارڈ کو آوارہ کتوں کی طرح سونگھنے والے…
اب بھی جملہ کی تکمیل کو چند لمحے موقوف رکھنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ بس دو ثانیے اور:
ا۔ مریم نواز کی تصویر پر آوارہ کتوں کی طرح سونگھتے کامنٹس کرنے والے…
ب۔ پولیس اہل کاروں کے ریپ کا شکار راول پنڈی ہوسٹل کی لڑکی، کس کے ساتھ سحری پر نکلی، اس کو بنیادی سوال بنانے والے…
ج۔ فرشتہ کے قتل پر سیاست کاری کی بات کہنے والے، اس کے والد کے شناختی کارڈ کو آوارہ کتوں کی طرح سونگھنے والے…
سب کے سب ایک ہی حرام کے چشمے کے پانی سے سیراب ہوئے اَرذل ترین درجے کے انسان ہیں۔
جملہ مکمل ہو گیا۔ لیکن کئی منظر ہیں جو اس وقت نا ہی سطروں لفظوں میں آ پائے ہیں، اور نا ہی آ پائیں گے… پر وہ مناظر اپنی تما تر نحوست کے ساتھ تحتُ الشُّعُور میں موجود واویلا کر رہے ہیں۔
آہا، کیا نصیب ہوتے ہیں ان کے بھی جن کی روح اور جسد پر کیل کانٹے کی طرح ہَل چلتے منظر نا تو بیان میں آتے ہیں، اور نا ایف آئی آر کی کُھرچن بنتے ہیں۔ لیکن وہ قیامتیں ہوتی تو ہیں ناں؟ ہوتی ہیں… ۔
ہوس، شر اور فینتاسی کی ایک ٹائپالوجی کا بیان۔ آپ کے احساس کی مزید نلائی کرنے کا ارادہ ہے۔
دیکھیے، یا بھلے نا دیکھیے! کسی مرد کو عورت اس وقت تک شر، کفر، اور ہوس کا مقام و وقوع نظر آتی ہے جب تک، وہ اسے اپنی فطری، لیکن اپنے ضبط کے منطقے سے باہر کی جنسی fantasies کی عینک سے دیکھتا ہے۔
وہ اپنی پسند اور مرضی سے کسی اور کے ساتھ ہے، اُسے اس کا یہ عمل اپنی آوارہ انا کی شکست کا طویل لمحۂِ پُر خار محسوس ہوتا ہے۔
آوارہ انا، اور وہ بھی اوپر سے بد قسمتی سے ہاری ہوئی انا اور مُتعفن انا، سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی شر نہیں ہوتا، کوئی کفر نہیں ہوتا، کوئی جھوٹ نہیں ہوتا۔
آوارہ اور شکست خوردہ انا دہلی کی بس کی سوار رات دیر سے گھر کو نکلی لڑکی کے جسد کا ریپ کرتی ہے، اس کی روح کو نوچتی ہے؛ اس آوارہ انا اور شکست خوردہ انا کو ہر جینز پہنی لڑکی بد چلن لگتی ہے، دعوتِ گناہ و شر ارزاں کرتی دِکھتی ہے۔
یہ آوارہ انا اپنے نام نہاد اخلاقی نظام کے عدم توازن کو کسی موہوم توازن میں لانے کے لیے کار و کاری کا نظام چالو کرتی ہے، یہ پنچایت لگاتی ہے؛ یہ ہی کم سِن کو یا تو نکاح کی کُنجلی میں جکڑتی ہے، یا تیزاب بن کر گرتی ہے، یا چولہا بن کر پَھٹتی ہے، یا پھر اعتدالیوں کے ہاتھوں تھپڑ بن کر برستی ہے، اور ریپ کی وجۂِ متعفن بنتی ہے۔
اپنی جنس کی متعفن فینتاسی fantasies اور آوارہ انا کو ضبط میں رکھیے تو آپ کو بہادر جانیں، ورنہ اپنے مُنھ سے میاں مٹھو بنے رہنے سے کیا بنے؟