لال دین تم خود سوزی کرو تو سہی
از، یاسر چٹھہ
ہمیں اپنی اردو میڈیم طبیعات Physics کی 90 کی دھائی کی کتاب میں، ہٹاؤ، یعنی displacement کی تعریف کچھ اسی طرح کے ہٹے ہوئے سُروں میں پڑھنا یاد ہے:
دو نقطوں points کے درمیان کم سے کم فاصلے کو ہٹاؤ کہتے ہیں۔ (صحیح یاد ہے پروفیسر عمران خالق صاحب کہ محمد اکرام باؤ سے پوچھ لوں۔
اس سلسلے کسی ایسے شاعر نے جس کے پاؤں زمین پر اور نظر سامنے کی بد حالی پر ہے، وہ جو اپنے کوکون میں بیٹھا مفت کی کوک نہیں پیتا رہتا، اس نے جلے دل کے ساتھ جوڑ جوڑا تھا کہ مجھے تو ہٹاؤ اور تبدیلی یک جنس باہم پرواز ہی لگدے ہَن۔
شاعری سے سماجی علوم اور ادب کے دو نقطوں کے درمیان کم سے کم فاصلہ کر دینے کی کوششوں میں ہمہ دم ایک کیے ہوئے نو جوان آعمش حسن عسکری کی طرف آتے ہیں۔ آعمش نے تبدیلی کے بے جوڑ وجود و نا وجود کو definitional جوڑ دینے کی کوشش کچھ یوں کی ہے:
“ملک اس لیے نہیں ترقی کر رہا کہ لیڈر کرپٹ ہیں،” سے لے کر، “ملک اس لیے ترقی نہیں کرتا کیوں کہ عوام کرپٹ ہیں،” تک کے درمیانی فاصلے کو ‘تبدیلی’ کہتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے ایک میاں خلیفہ ریاستِ 2.0 کے آفیشل فیس بُک پیج سے یہ اقتباس بھی شیئر کیا ہے، جس میں جناب خلیفہ رات کو اٹھتے ہیں اور دریا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اکثر ٹھڈا کھا کر گر پڑتے ہیں، لیکن انہیں کسی دریا کے کنارے بھوکا کتا نظر نہیں آتا (جانے پروٹوکول والے بھوکے کتے کدھر بھگا دیتے ہیں)، بَہ ہر حال تبدیلی کی تعریف دیکھیے اور اپنے اپنے سمجھ کے دریا میں چھلانگ لگائیے:
“Only 1 percent Pakistani tax filers are bearing the weight of 220 million Pakistanis, no country can serve its people if they don’t pay tax. Since people don’t pay tax, the government is unable to build hospitals, schools & basic infrastructure for our people”
Prime Minister Imran Khan
ہم البتہ عرض کیے دیتے ہیں کہ ہمارے ایک جاننے والے برطانوی پاکستانی کی کچھ دس بارہ سال قبل پاکستان آمد ہوئی۔ وہ یوتھنا تحریک کے اثر زدہ نہیں تھے۔ وہ برطانیہ میں ہر آمدنی کے کسی کی جیب میں ڈَلنے سے پہلے ہی 30 فی صد کے آس پاس آمدنی ٹیکس income tax کاٹ لینے کے متعلق کہتے پائے گئے؛ اس کے فضائل اور اس کی سختی کی بابت باتیں کی۔ وہ برطانوی پاکستانی پڑھے لکھے اور سمجھ دار تھے، شاید اسی لیے باہرلے ملک رہتے ہوئے بھی یوتھنا تحریک کی کیہوتے کہانیوں Quixotic stories سے بچے ہوے تھے۔ چند دن یہاں گزارنے کے بعد، ہر ایک دوسری، تیسری چیز پر ٹیکس کٹوانے کے ما بعد بولے اٹھے اور ہم نے یاد رکھ لیا:
بھئی، یہاں تو لوگ 30 فی صد سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، بدلے میں صرف طعنے کوسنے کھاتے ہیں کہ یہ مت پوچھو کہ اس ملک نے تمہیں کیا دیا ہے، بَل کہ تم صرف اپنے آپ سے پوچھو کہ تم نے اس ملک کو کیا دیا ہے۔ ویسے یہ کہاوت انہوں نے خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے کثیر زَرِ مبادلہ دے کر منگوائی ہوتی ہے۔ لیکن اپنے نام سے ارزاں کر کے اچھے بھلے علامے بنے ہوتے ہیں۔
پھر سے برطانوی پاکستانی کی بات کی طرف آتے ہیں۔ یعنی یہاں کا گناہ گار قرار شدہ پاکستانی بالواسطہ ٹیکسوں indirect taxes کی مد میں 30 فی صد سے بھی زیادہ ٹیکس دیتا ہے، لیکن اسے کہا جاتا ہے کہ تم نے کیا دیا اس مملکتِ خاک داد کو، خاک تمہارے سَر پر۔
اب ان برطانوی پاکستانی کی بات چھوڑیے، دو بارہ میاں خلیفہ 2.0 کی طرف آئیے جو آپ نے کہا، اور ہم نے اوپر بہ زبانِ انگریزی نقل کیا۔ اب آپ صرف ذہن میں رکھیے اور نعرۂِ تحقیق لگائیے؛ گوگل سے نہیں، مشاہدے سے اور رہی سہی عقل سے۔ لیکن خبر دار جو اس دوران کسی نے اس ہیرے 2.0 کے اپنے ادا شدہ ٹیکسوں کی بابت پوچھا۔
اور لال دین جو تم خود سوزی کے لیے ماچس کی ڈبی خرید کر لائے تھے، اس میں بھی کچھ جی ایس ٹی شامل تھا۔ فون کارڈ میں، بر صغیر کے نئے ٹَکے، جسے عرفِ عام میں ابھی بھی پاکستانی روپیہ کہتے ہیں، پے لوڈ کرنے پر بھی ٹیکس تھا، اس سے کال کرنے پر پھر ٹیکس تھا… اور اور اور…
… تم نے اس ملک کو دیا کیا ہے۔ خود سوزی کرو تو سہی تمہیں ہم نے الٹا نا لٹکا دیا تو…