اپنے انسان ہونے کی خبر لیجیے
از، فرحت اللہ
فیس بک گروپ ”سائنس کی دُنیا“ پر محترم وہارا امباکر کا ایک مضمون بَہ عنوان ”دوسرے لوگ“ دو بارہ پڑھنے کو مِلا۔ یہ مضمون اگر چہ مَیں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں، مگر موجودہ چند سیاسی تنازعات کے تناظر میں باز خوانی کے سبب دو بارہ فکرمندی نے آن گھیرا۔ راقم کو آج کل پی ٹی ایم اور بلوچستان کے حوالے سے آنے والی خبروں نے اور اُن پہ دو انتہاؤں سے آنے والے آراء نے کافی بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس سبب باہمی دُوریوں کے خَیال سے دہشت زدہ ہو کر اس مُعاملے پہ مختصراً اپنے خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ in group اور out group کے مُعاملے کو کافی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ یہ مُعاملہ صرف اور صرف شُعور کے بَل بُوتے پر حل کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی گروپ سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے مجھے کَون سے منطقی آلات logical tools استعمال کرنے چاہییں کہ مَیں غلط فیصلہ کرنے سے بچ سکوں؟
میرے خیال کے مطابِق یہ کچھ یُوں ہونے چاہییں:
۱) کیا ہَم معروض اور موضوع object & subject کی فلسفیانہ نہ سہی، غَیر فَلسَفیانہ تعریف جانتے ہیں؟
۲) کیا ہم مَنطقی مُغالَطوں کے بارے میں جانتے ہیں؟ اور کیا کبھی ریڈیو، اخبار، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر خبروں و اطلاعات کے وُفُور میں سے منطقی مُغالَطوں کو علیحدہ کرسکتے ہیں یا کبھی کیا ہے؟
۳) کیا ہم “بتائے یا دکھائے گئے حقائِق“ کے پار دیکھنے کی “دُور اَندیشانہ و مُنصِفانہ“ صلاحیت کے بارے میں جانتے ہیں؟
۴) “اگر آپ پروپیگنڈے کے ماہر ہیں، تو آپ خدا کی جگہ لے سکتے ہیں۔“
اگر جوش ملیح آبادی کے اِس قَول کی زمینی معنویت کو مَدِّ نظر رکھا جائے تو کیا ہم پروپیگنڈے کی نفسیات، طاقت اور مختلِف صورتوں مثلًا، سیاسی، مذہبی، صنفی یا ثقافتی پروپیگنڈے کو پہچاننے کی صلاحِیت رکھتے ہیں؟ اور کیا ہم پروپیگنڈے اور زمینی حقائق کے درمِیان فرق دیکھ سکنے کے اَہل ہیں؟
۵) کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ کسی انسان کی طرح کسی اکثریتی یا اقلیتی گروپ کو بھی، بالکل کِسی زندہ مادّی جِسم کی طرح کوئی فوبیا یا سائکوسِس psychosis یا نیوراسس neurosis لاحق ہوسکتا ہے؟ (خاص طَور سے ”شائزوفرینیا!) اگر نہیں تو ہم کوئی الزام نہیں لگا سکتے، بَل کہ سیدھا سیدھا محض بُہتان طَرازی ہی کر سکتے ہیں۔
۶) سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم میڈیا کے ”شر انگیز اور سیاسی یا جُغرافیائی حوالے سے طاقت کے انڈر کنٹرول“ ہونے جیسے کمزور پہلوؤں سے باخبر ہوں؟ اِس سِلسلے میں تاریخ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اوپر مذکورہ بالا مضمون میں بھی حوالے موجود ہیں، امریکہ اور برطانیہ کے عراق اور اِیران کے بارے میں پروپیگنڈے کےلیے میڈیا کو طاقت ور ترین داؤ کے طَور پر استعمال کرنے کی مثال تو بالکل سامنے کی بات ہے۔ انٹرنیٹ پر میڈیا کے اِس گِھناؤنے پہلو کے بارے میں سینکڑوں چھوٹی بڑی مثالیں آسانی سے تلاش کی جاسکتی ہیں۔
(۷) سب سے آخری بات، جِن کی بنیاد اوپر بیان کیے گئے نِکات پر قائم ہے، یہ ہے کہ کیا مَیں دو گروپوں کے درمِیان، کسی ایک کی طرف جانِب داری برتنے سے پہلے مُکمّل توجہ، ایمان داری اور خُلوص سے دونوں کا بیانیہ بِلا تَھکان سُن یا دیکھ پاتا ہُوں؟ اگر نہیں، تو ایمان کی تو بات رہنے دیجیے، اپنے انسان ہونے کی خبر لیجیے۔