انسان سے انسان تر بننے کی مختاری
از، یاسر چٹھہ
میں نے جتنے لوگوں سے بات کہ سید کاشف رضا کا ناول اسلوبی اور تفہیمی لحاظ سے اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ اس کا مزاح کسی سماجی پچھڑے ہوئے طبقے distressed and exploited پر، خواتین، اقلیتوں، دیہاتیوں، پشتونوں، سکھوں وغیرہ پر طنز کے نشتر چلانے سے تخلیق نہیں ہوا، تو کئی ایک اردو کلچر کے سینے افراد اس نکتہ کو مناسب اہمیت نا دے سکے۔ ما سوائے فرخ ندیم اور راشد سلیم صاحبان کے۔ (جن جن سے بات ہوئی۔)
یہ تو ہے یہاں انسانی ہم احساسی empathy اور تنقیدی بصیرت کی حالت۔
میں نے اپنے آپ سے طے کیا تھا کہ میں کسی gendered متن اور peripheral communities کو تختۂِ مشق بنانے والے مقرر و ادیب اور مکالمہ باز کی بات و خیال پر، اپنے تئیں بہ طورِ مزاحمت، نہیں ہنسوں گا۔ اس میں میرے ساتھ ایک اور دوست کی بھی commitment تھی۔
لیکن مجھے اپنے آپ سے معذرت کرنا ہو گی کہ پچھلے چھ مہینوں کے اندر غیر ارادی طور پر، یعنی reflexively، یا شاید culturally conditioned ہونے کے باعث مجھ سے انحراف deviation ہوتی رہی، اور میں ہنسا۔
یہ ہنسی جو کہ میرے گہرے اور سوچ کے نتیجے میں خلیق شدہ اخلاقیات سے چُوں کہ میل نہیں کھاتی تھی، اس لیے کچھ ہی لمحوں بعد میرے لیے خلش بنی۔ اور یقیناً آپ دوست جانتے ہی ہوں گے کہ خلش اہلِ دل کے لیے سب سے بڑے سزا ہوتی ہے۔ یہ ہر لمحے میں برپا ایک قیامت ہوتی ہے۔ مسلسل آگ میں جلنا ہوتا ہے۔
اپنے بارے میں ایک سچ بتاؤں تو میں کئی ایک متخیلہ واقعات events which haven’t taken place, but which might be on the plane or possibility, or in any work of fiction پر بھی اچھا خاصا رو لیتا ہوں۔ شاید اس کے پیچھے اپنی تربیت خود کرنے اور والدین سے کچھ روشنی حاصل کرنا ہے۔
کئی کتابیں پڑھتے میری آنکھوں میں اچانک جھڑی سی لگ جاتی ہے۔ یہ اور کچھ نہیں ہوتا، بہ جُز ہم احساسی یعنی empathy کے۔
اپنی ہم احساسی empathy کی تربیت کی جا سکتی ہے۔ انسان سے انسان تر بنا جا سکتا ہے، امکانات ہوتے ہیں۔
ہم ان امکانات کو پسِ پشت ڈالتے جاتے ہیں۔ اور آخر میں کئی ایک جانور ہم سے جذباتی و احساسی لحاظ سے آگے نکل جاتے ہیں۔