سر سید اور مولانا مودودی نے کاٹھ کی ہنڈیا چڑھائی؟
از، طارق احمد صدیقی
مکمل نظام حیات چھاپ مودودی پرستوں کے دماغ سے مذہبی برتری کا بھوت اب تک نہیں اترا۔ وہ مختلف طریقوں سے، مثلاً کبھی روایتی علمائے دین کو برا بھلا کہنے کے ذریعے تو کبھی اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی “غلط فہمیوں” کے ازالہ کی بات کرتے ہوئے٬ بالواسطہ یا بلا واسطہ٬ بہت سے اسلامی قوانین و ہدایات کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ “اسلام میں نہیں ہیں” اور “بعد کی ایجاد” ہیں، یعنی انہیں “ملاؤں” نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ مثلاً غلامی کی رسم ہمارے مذہب میں نہیں ہے، ہمارے مذہب میں مرتد کے قتل کی سزا نہیں ہے، ذی روح کی مصوری اور فلم ٹی وی دیکھنا حرام نہیں ہے، وغیرہ۔
یہ مدافعت کی پوری ایک نفسیات ہے اور بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ اس نفسیات کا سبب یہ ہے کہ ہم اب تک زندگی کے حقائق سے آنکھیں چار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کہنا کہ “ہمارے ہاں فلاں بات نہیں ہے اور وہ بعد کی ایجاد و اضافہ ہے” در اصل اپنے تصورِ حیات کی غلطی کو اپنی ہی آنکھوں سے پوشیدہ رکھنا ہے، جہاں تک دوسروں کی بات ہے انہیں خوب معلوم ہے کہ ماضی میں ہمارے ہاں کیا تھا اور کیا نہیں۔
مسئلہ خود ہمارا ہے کہ زندگی کے حقائق کا ہم کیوں سامنا نہیں کرنا چاہتے؟ اس لیے کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ خدانخواستہ ہمارا تصورِ حیات ہی غلط ہو جائے، اور ہمارے مقدس عقائد میں ہی کوئی ابدی حقیقت نہ ہو تو کیا ہو گا! چناں چہ اسی ڈر سے نجات پانے کے لیے ہم تاویلات کے دفتر کے دفتر گھڑ لیتے ہیں کہ ہمارے یہ نہیں ہے، ہمارے ہاں وہ نہیں اور ہمارا نظریۂِ حیات تو بالکل معصوم، ازلی و ابدی اور حقانی ہے۔ یہ فتنہ ہندوستان میں مودودی اور ان کے مقلدین کا پھیلایا ہوا ہے۔
روایتی علمائےکرام انگریزی استعمار کے غلبہ کے بعد سے ہی مسجدوں اور مدرسوں تک خود کو محدود کرتے جا رہے تھے اور دنیاوی معاملات میں معاشرہ کی رہنمائی عملاً جدید تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں میں آ گئی تھی۔ سر سید، جو پہلے روایتی فکر پر چلتے تھے اور جدید سائنس کی تغلیط میں مصروف تھے، نے جب یہ صورت دیکھی تو جدید علمِ کلام کی بنیاد ڈالی اور مذہب و سائنس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا بِیڑا اٹھا لیا۔ قرآن کی تفسیر لکھی، علی گڑھ میں کالج کھولا، یہ دوسرا کام نا گزیر تھا، لیکن اس کو انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ہی نہیں، اسلام کے حوالے سے بھی کیا۔
چناں چِہ ان کے ان سب کارناموں سے متاثر ہو کر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا مزاج مذہبی ہو گیا، یہ گویا انہوں نے روایت کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی جو آگے چل کر بہت با اثر ہوئی۔ آگے چل کر سر سید کی ہموار کی ہوئی مذہبی تجدد پسندی اور مذہبی سائنسیت کی زمین پر مودودی نے اپنی مذہبی تحریک برپا کی۔
اس پورے سلسلۂِ واقعات کا اثر روایتی علماء پر بھی پڑا حالاں کہ روایتی علماء کا اسلام سر سید اور مودودی کے اسلام سے معنوی طور مختلف تھا۔ مذہب اسلام کی ان تین تعبیروں کے باہمی مکالمے کا علمی نتیجہ چاہے جو ہو، لیکن عوام اور خواص میں ایک مشترکہ مذہبی قدر پیدا ہوئی اور بہ ہزار اختلاف “اسلام ایک مکمل نظامِ حیات” جیسے متفقہ نعرے وجود میں آنے لگے۔
ان مشترکہ اور متفقہ قدروں اور نعروں کی بدولت عوام کے درمیانہ درجے کے پڑھے لکھے بہت سے لوگوں میں بھی اپنی مذہبی و تہذیبی حقانیت اور برتری کا احساس پیدا ہوا، اور وہ اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کے غلبے کے لیے علمی و عملی سطح پر کوشاں ہو گئے۔ لیکن ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل کے دور میں اور فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، اور وَٹس ایپ کے مباحثوں کے سبب مذہبی احکام کا نا قابلِ عمل ہونا عیاں ہو گیا۔
چناں چِہ سب سے پہلے روایتی علما نے اضطراراً ٹی وی کے ذریعے تبلیغ کو جائز بتایا اور بعد میں غامدی ایسے تجدد پسندوں نے اسے اصلاً حلال کر لیا۔ سر سید اس معاملے میں زیادہ دور اندیش واقع ہوئے تھے اور انہوں نے ان تجدد پسندوں سے بہت پہلے ذی روح کی تصویر کو حلال کر لیا تھا، حالاں کہ روایتی علماء نے دیگر وجوہ کے ساتھ ساتھ اس بنا پر بھی روایتی ان کی تکفیر کی تھی۔
مولانا مودودی سر سید جتنے دور اندیش تو نہ تھے لیکن وہ سنیماٹوگرافی کو جائز بتاتے تھے۔ لیکن یہ ان کا ایک بہت بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف وہ سنیماٹوگرافی کو جائز کہتے تھے اور دوسری طرف فوٹوگرافی کو ناجائز و حرام۔ یہ بڑی احمقانہ بات ہے کہ کاغذ پر چھاپنے کی غرض سے فوٹو کھینچنا تو حرام ہو لیکن ویڈیو بنانا حلال۔ چناں چِہ مودودی پرستوں نے اپنے روحانی پیشوا کی ایسی غیر عقلی رائے کو سرا سر نظر انداز کرتے ہوئے مصوری کے ہر طریقے کو جائز قرار دے لیا اور ویڈیوگرافی تو مولانا خود ہی حلال فرما چکے تھے۔
جب عوام کے اندر مذہب اور اس کی نوعیت اور اس کا عقائد و احکام پر بحث و گفتگو میں تیزی آئی، اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی، تب بہت سی چیزوں کو اسلامی قوانین سے یہ کہہ کر خارج کیا گیا کہ یہ یا تو بعد کا اضافہ ہے یا ملاؤں اور مولویوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، یا یہ صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، یا ابتدا میں یہ حکم تھا لیکن آگے چل کر یہ آپ سے آپ منسوخ ہو گیا، یا ایسا حکم استثنائی صورتوں میں ہی دیا گیا ہے۔
مثلاً بعض جرائم کی سزا “انتہائی” حیثیت رکھتی ہے ورنہ ہر شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنا اسلام میں نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے تو چوری پر قطعِ ید کی سزا کو بھی اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح، اب بہت سے تجدد پسند یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام میں لونڈیوں سے بلا نکاح تمتع کرنا جائز نہیں رہا کیوں کہ غلامی کی رسم دنیا سے اٹھ چکی ہے۔
ایسی بے دریغ تاویلات صرف عملی سطح پر نہیں، علمی سطح پر بھی ہوئی ہیں۔ مثلاً انگریزی استعمار سے پہلے تک عوام و خواص سب کا عقیدہ ارض مرکزی تھا اور سورج زمین کا چکر لگاتا تھا، اور یہ ارض مرکزی تصور قرآن کی تفسیر کی رُو سے درست تھا۔
جب سر سید نے آ کر قرآن کی تفسیر میں کوپرنیکس اور گیلیلیو کے تصورِ کائنات کو شامل کیا تو روایتی علماء نے اس سبب سے بھی ان کی تکفیر کی۔ لیکن بعد کو روایت سے نکلے ہوئے تجدد پسندوں نے اور مولانا مودودی نے جو تفسیر لکھی، اس میں انہوں نے قدیم مفسرین کے بر عکس ارض مرکزیت کے بہ جائے شمس مرکزیت کو جگہ دی۔
یہ واضح طور قرآن کی جدید تفسیر کرنا تھا تا کہ جدید تعلیم یافتہ ذہن کو مذہب کی طرف مائل کیا جائے۔ اور اس میں شک نہیں کہ وقتی طور پر سر سید اور مولانا مودودی ایسے تجدد پسند بہت کامیاب رہے، لیکن طویل المیعاد طور پر وہ نا کام ہوں گے۔
کیوں کہ جس قدر روایتی اسلامی ہدایات اور قوانین نیز تصورِ کائنات میں تجدد پسندوں نے تحریف کر دی ہے، اس کے حقیقی اسباب تک جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی پہنچے گا اور روایتی علماء بھی ایک نہ ایک دن سر سید اور مودودی کی نفسیات اور حکمتوں کو سمجھ جائیں گے۔