یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ
تبصرۂِ کتاب از، نصیر احمد
کبھی کبھی اچھا لگتا ہے کہ پتا تو چلے پچھلے زمانوں میں لوگ کیا سوچتے تھے اور کیا کرتے تھے مگر اپنے ہاں کی تاریخ کچھ ایسی ہے کہ چار ہزار سال پیچھے بھی چلے جائیں تو کم از کم سوچ کے معاملے میں بہت زیادہ اجنبیت نہیں معلوم ہوتی۔ اب تو تو ترقی یافتہ لوگ بھی دینِ مسیح کے زمانے سے پیچھے جانے کے خواہش مند ہیں اور پرانے دیوتاؤں کو پوجنے لگے ہیں اور یہ بھی پرانی عقیدتیں جاگتی ہیں تو موجودہ اقلیتوں کے لیے زندگی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔
بہ ہَر حال، یوسف کمبل پوش کے سفر نامے پر نگاہ پڑ گئی اور ہم اسے پڑھنے لگے۔ یوسف کمبل پوش 1836 میں عجائبات فرنگ دیکھنے اور دیگر ملکوں کی سیر کرنے گئے تھے۔ ان میں انسانوں کو سٹیریو ٹائپ کرنے کا رجحان ہے جس سے کبھی کبھار گریز بھی کر لیتے ہیں۔
سب سے پہلے خواتین آتی ہیں اور یہ خواتین زیادہ تر رنڈیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے خیال میں اس زمانے میں شاید امیر اُمَراء کی خواتین کو چھوڑ کر باقی خواتین کو رنڈیاں ہی کہا جاتا تھا کیوں کہ لندن میں پارکوں میں رنڈیاں نظر آ جاتی ہیں۔ ایک رنڈی کی یوسف جان بھی بچاتے ہیں اور اسے گھر بھی چھوڑ آتے ہیں۔ لیکن مسافرت کی وجہ سے ان لوگوں کو شکر گزار ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ لیکن جب دو تین دفعہ رنڈیوں کی جان بچاتے ہیں تو ہم کچھ مشکوک سے ہو جاتے ہیں کہ سفر نامہ کچھ افسانہ بنتا جا رہا ہے۔ اب مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں کے بعد کچھ شبہ نہیں کرنا چاہیے لیکن بس اس تشکیک پسندی کا کیا کیجیے۔
ایک رنڈی پر عاشق بھی ہوتے ہیں جو ان کی رئیسوں والی عادات کی وجہ سے ان کی عزت بھی کرتی ہے۔ اور پیرس میں دو رنڈیاں انھیں دیکھ کر ترک ترک چلانے لگتی ہیں اور ان کے پیچھے بھاگنے لگتی ہیں مگر کیچڑ میں پھسل کے گر جاتی ہیں۔ یہ جمیلہ رنڈی کا ہاتھ تھام کر اسے اٹھا لیتے ہیں مگر بد شکل کو وہیں کیچڑ میں پڑا رہنے دیتے ہیں۔
مچھلیاں بیچتی ایک سیاہ فام رنڈی کو دیکھ کر کچھ گھناؤنے پانڈے ہو جاتے ہیں اور رنگت کے حوالے سے گھٹیا باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح پیرس کے کسی اوپرا میں ریشمی لباس میں ملبوس رنڈیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے پارسا بن جاتے ہیں۔ ایک رنڈی کو خاوند کے ساتھ بے وفائی میں مشغول دیکھ کر شوہروں سے وفا پر ایک طویل لیکچر بھی دیتے ہیں۔ خود بھی کافی الٹ پلٹ کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے بارے میں لگتا ہے جیسے بے خبر ہیں یا جو کر رہے ہیں وہ جائز ہے۔
یہ تو ہو گئیں رنڈیاں لیکن انگریز افسروں کی بیگمات اور بہنیں میمیں، بیبیاں اور پریاں ہیں۔ اور تھیئٹر میں، میوزیم میں ملنے والی، گانے بجانے والی بھی پریاں ہی ہوتی ہیں۔ وہ انھیں پسند کرتی ہیں اور یہ انھیں۔ کھانوں کے دور چلتے ہیں، عمدہ عمدہ شرابیں پی جاتی ہیں، ناچ گانے ہوتے ہیں اور مذہب پر بحثیں ہوتی ہیں۔ اور جب یہ نیک بیبیاں ان کے لیے لذیذ کھانے پکاتی ہیں تو یہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں ہندو عورتوں کو کسی جٹا دھاری کی پوجا کرتے بہت نالاں ہو جاتے ہیں لیکن یہ پذیرائی دیکھ کر سادھو سنت بننے کی تمنائیں بھی ان کے دل میں جاگ اٹھتی ہیں۔ بھٹیارنوں سے بھی شدید نفرت ہے۔ بس ذہن میں انسانوں کی اک درجہ بندی بنی ہوئی ہے جس کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس درجہ بندی کی مخالفت میں ہونے والی ممکنہ باتوں کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ انسانوں کی یہ درجہ بندی اور خواتین سے نفرت اب بھی موجود ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے حقائق سے فرار اب بھی اختیار کیا جاتا ہے۔
انگریزوں کے اثر کی وجہ سے کچھ ترقی پسندی بھی موجود ہے۔ سفر نامے کے آخر میں رنڈیوں کی بہ جائے عورتوں کا ذکر ہونے لگتا ہے اور زبان کا معیار بہتر ہوتے ہی خیالات بھی بہتر ہونے لگتے ہیں۔ اب یوسف خواتین کی برابری کے حقوق کے داعی بن جاتے ہیں جو کہ انتہائی اچھی بات ہے اور اس صنفی عدم مساوات کی وجوہات بھی انھیں مردوں کے مفادات میں نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہ دُہری شخصیت ہمارے خطے میں اب موجود ہے۔ انگریزوں کی ترقی دیکھ کر ان کی خوبیاں اختیار کرنے کی بھی آرزو ہے لیکن انسانی درجہ بندی پر مبنی نفرت سے بھی دامن نہیں چھڑائے جاتے۔ جس کی وجہ سے ذہن میں ایک ملوہ سے بن جاتا ہے۔ بس مشین پر دوڑنے جیسا نتیجہ نکلتا ہے۔ میلوں کے دوڑنے کے پتا چلتا ہے کہ کہیں گئے تو ہیں ہی نہیں۔
لیکن مختلف سوچنے پر یوسف کو سراہنا بھی چاہیے۔ وہ نقاب کشائی کے بھی آرزو مند ہیں کہ ان کے خیال میں اس کا پارسائی سے کوئی ناتا نہیں ہے، مردوں کو اپنی نظریں سنبھال کر رکھنی چاہییں۔ ساتھ ہی بھٹیارنوں کو کوستے ہوئے انگلستان کی سراؤں کی مدھر یادوں کے سنگ اداس بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی کہ کہاں ان کی کرخت چنگھاڑیں اور کہاں وہ لے میں رچے پری زادوں کے زمزمے۔یوسف کی یہ الجھن ثقافتی سطح پہ کافی ترقی اور برابری کے قوانین کے با وجود خطے میں ابھی سلجھی نہیں۔ اور اس الجھن کی وجہ سے خیالات یا بہت بلندی پر نظر آتے ہیں یا سیدھے پاتال کا رخ کر لیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں برابری نہیں ہو پاتی اور خواتین یا تو دیویاں ہوتی ہیں یا پھر ویشیائیں۔ اپنی جیسی انسان کم ہی نظر آتی ہیں۔
پھر انگریز ہیں، چاک و چوبند، علم و ہُنر کی تحصیل میں مصروف، بحری جہازوں جیسے عجائبات بنانے میں مصروف۔ ایک عجوبہ یوسف نے لندن میں دیکھا میں جس میں دھوئیں اڑاتے زنجیروں میں بندھے ڈبے منزلیں مارتے چلے جاتے ہیں۔ ایک اور عجوبہ انھوں نے چھوٹے سے مکان کی صورت میں دیکھا جس میں تین چار لوگ بیٹھے ہیں اور وہ اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے اور ایک مقام پر ٹھہر جاتا ہے جہاں سے سارا لندن دکھائی دیتا ہے۔ ایک انگریز کو ایک بڑے سے غبارے میں اڑ کر فضا میں گم ہوتے بھی دیکھا۔ اور توپیں دیکھ کر تو قائل ہو جاتے ہیں کہ حکم رانی صاحبانِ لندن کا ہی حق ہے اور اپنے ہاں کے رئیسوں کو گالیاں دینا شروع ہو جاتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو کن زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
یہ جائز سی شکائتیں ابھی بھی موجود ہیں، کبھی کسی مغربی ملک میں چلے جائیں تو ایک دفعہ حسرت تو ہوتی ہے کہ یہ انتظامات اپنے ہاں کیوں نہیں اور ہم میں کیا کمی ہے کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ لیکن بس یہ ہوائی سی سوچ ہوتی ہے، آتی ہے، ٹھہرتی ہے اور چلی جاتی ہے کہ جب خامیاں دیکھنا شروع کریں تو جینا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو عربوں نے اور جسے تیسری دنیا کہتے ہیں اس کے بہت سارے آمروں نے ڈھونڈ لیا ہے کہ فکر کی خامیوں کو طاقت کی وجہ بنا کر ملکیوں پر قابض ہو جاؤ، مغربی تعلیم حاصل کرو اور مغربی مصنوعات سے لطف اٹھاؤ۔ لیکن یہ عیاشی آمروں اور ان کے حامیوں کو ہی ملتی ہے باقی تو غربتوں میں ہی بندھے رہتے ہیں۔
یوسف کو سارے انگریز افسر اور ان کے رشتہ دار بہت پسند کرتے ہیں، جہاں جہاں ان کا داخلہ بند کیا جاتا ہے کوئی نہ کوئی صاحب ان کے لیے داخلے کی اجازت کے پروانے کا بند و بست کر دیتا ہے۔ یوسف کےلیے ہم صحبتی اور ہم سفری ارزاں ہے۔ کبھی کسی نے ایسی کوئی نا رَوا بات نہیں کی جس سے یوسف کی دل آزاری ہو۔ یہاں کچھ مبالغہ سا لگتا ہے کہ آخر اتنی خوبیوں کے با وجود انگریز بھی تو انسان ہی ہیں اور انسانوں سے خطا ہو ہی جاتی ہے، لیکن یوسف کو مہاجنوں کو لوٹتے انگریز تلنگے بھی پیارے لگتے ہیں کہ مہاجن بھی تو کسی نہ کسی کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ بس مصر میں مزدوروں پر تشدد کرتا ایک انگریز انھیں نہیں بھایا۔ ایک صاحب بھی انھیں تھوڑے جاہل سے لگے۔
انگریز انھیں نفسیاتی امراض کے کسی مرکز میں بھی لے گئے جہاں کوئی مریض ان سے مملوک مملوک چلاتا ہوا بات چیت کرنے لگا۔ لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ اس شخص کو کیا ہوا سالوں سے چپ بیٹھا تھا۔ بعد میں پتا چلا اس نے مصر میں بونے پاٹ (نپولین) سے کوئی جنگ لڑی تھی۔ انھیں دیوانوں کے لیے بادشاہ کے یہ انتظامات بہت اچھے لگے اور ہندوستان میں جو نفسیاتی امراض کے حوالے سے جہالت پھیلی ہے، اسے کوسنے لگتے ہیں۔ یہ جہالت بھی ابھی تک موجود ہے۔
مصر میں ان دنوں محمد علی پاشا کی حکومت ہے۔ وہ محمد علی پاشا کے فوجی انتظامات سے بہت خوش ہیں لیکن یہ دیکھ کر رنجیدہ بھی ہیں کہ فوج میں جبری بھرتی سے بچنے کے لیے لڑکے اپنی آنکھیں پھوڑ رہے ہیں، ٹانگیں توڑ رہے ہیں۔ اور مصر میں وہ کسی ایسی جگہ بھی گھس جاتے ہیں جہاں خواتین کے ساتھ بد ترین قسم کی جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ اور اس قحبہ خانے میں بھی حسین اور بدشکل کی درجہ بندی ہے۔
عوام کی بد حالی کی قیمت پر اچھے فوجی انتظامات کا سلسلہ اب بھی مصر میں جاری ہے۔ یعنی بات بنیادی طور پر محمد علی پاشا کی ہی چل رہی ہے۔ اب وہاں سیسی کی حکومت ہے لیکن جیسے شاہ بانو فرح دیبا کہتی تھیں کہ خلقِ خدا کشتہ و زخمی و بد بخت ہی ہے۔ شاہ بانو کے شوہر بھی محمد علی پاشا جیسے ہی تھے یا شاید تھوڑے بہتر تھے لیکن عوام کی بَہ جائے اسلحہ ان کی بھی ترجیح تھی۔ اور مصر میں جو بھی خدیو (سلطان) آتا ہے عوام کی خوش حالی ابھی تک اس کی ترجیح نہیں ہے۔ خدیو آتے ہیں، ان جنگوں میں کھو جاتے ہیں جو جیتی نہیں جا سکتیں اور ان بے معنی جنگوں کے لیے اپنے ہی عوام کاجیون جہنم بنا دیتے ہیں۔
یوسف محمد علی پاشا کے علاوہ دیگر مصریوں کو پسند نہیں کرتے۔ اب وہ صاحبوں کے مصاحب ہیں، انھوں نے بدوؤں کو دیکھ کر مُنھ تو ٹیڑھا کرنا ہی ہے۔ سیاہ فاموں سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں اور اپنے لوگوں پر بہت غصہ ہے کہ یہ علم و ہنر کی تحصیل کیوں نہیں کرتے۔
مذہب انھوں نے اپنے لیے ایک ایجاد کر لیا ہے جسے وہ مذہب سلیمانی کہتے ہیں جس کے بارے میں یہی سمجھ آتی ہے کہ یہ صلحِ کُل کا کوئی مذہب ہے۔ انگلستان میں پادری انھیں مذہب کی تبدیلی کے بارے میں کہتے ہیں لیکن وہ پادریوں کو جھاڑ دیتے ہیں کہ جناب یسوع مسیح نے غریبوں کے دکھ دور کرنے کا کہا تھا اور تم ادھر آتش دانوں کے ارد گرد بیٹھے مزے کر رہے ہو، جس مذہب پر تم خود عمل نہیں کرتے، اس پر ہم کیوں کریں۔
مصر میں بھی ایک جگہ پادریوں کو ایک پچھڑے سے بد سلوکی کرتے دیکھ کر کافی رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ اور ہندوستانی مذہب کی عقلی تاویلات بھی پیش کرتے ہیں کہ بہت سارے احکامات ان مذاہب میں اس لیے داخل کرنے پڑتے ہیں کہ لوگ عمل پیرا ہی اسی بات پر ہوتے ہیں جس میں روحانیت شامل کر دی جائے۔
مذہب کی عقلی تاویلات کا ایک رجحان ہندوستانیوں میں موجود تھا جس کی انگریز بھی کچھ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ یورپ میں بھی یہ رجحان موجود تھا کیوں کہ فلسفیوں اور شاعروں نے مذہب کے حوالے سے تشکیک پیدا کر دی تھی، جس کا حل مذہبی لوگ مذہب اور جدید علوم کی ہم آہنگی میں ڈھونڈتے تھے۔ بعد میں یہ رجحان کچھ مقبول بھی ہو گیا جس کی مثالیں راجا رام موہن رائے اور سر سید جیسے مصلحین کے افکار و اعمال میں مل جاتی ہیں۔ یہ رجحان پوری دنیا میں ابھی تک موجود ہے۔ اور اس رجحان کے خلاف رد عمل بھی جدید نظریاتی نظاموں کی شکل میں سامنے آیا ہے۔