گینگ ریپ ، ریپ، تعلقِ بالرضاء اور تعلقِ بالجبر
از، یاسر چٹھہ
کچھ روز قبل زیرک افسانہ نگار، شاعر، عمدہ ترین مضمون نگار اور پروفیسر اردو منزہ احتشام گوندل نے اپنی فیس بک پروفائل پر یہ رائے رقم کی:
“خدا لگتی کہوں گی۔ یہ صرف غریبوں کی بیٹیاں ہوتی ہیں جو گینگ ریپ کے بعد قتل ہوتی ہیں۔ اشرافیہ کی صاحب زادیاں گینگ انجوائمنٹ کے بعد سیف اینڈ ساؤنڈ گهر آتی ہیں۔ ان کے بیاہ بهی ہوتے ہیں، بچے بهی۔ خدا لگتی کہتی ہوں۔ کسی کو آگ لگتی ہے تو لگے۔ یہ صرف کلچر کا فرق ہے۔ اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔”
راقم نے جب یہ متن پڑھا تو کچھ وضاحتوں کی درخواست کچھ ان الفاظ میں کی:
“بہت کچھ قابلِ تشریح محسوس ہوتا ہے:
- گینگ انجوائمنٹ سے مراد ہے؟ sexual orgies/group sex? giving as just hints
گینگ ریپ کا تو معروف معنی ہے، یہ تو نہیں پوچھوں گا۔ یہ تو بہت بڑا جرم ہے۔ اور اس کے شکار کو معمول کی زندگی میں بَہ حال کرنے کے لیے جس قدر ہم احساسی، انسیت، اور نفسیاتی حساسیت اور شعور چاہیے ہوتا ہے، وہ ہمارے یہاں منزہ، جہاں جہاں سے غائب ہے، میں کہوں گا تو کچھ شہادتیں آئی ہیں کہ مجھے میرے پرانے ہم مجلس کہتے ہیں تمہیں کیا پتا؟ مجھے ان کے فہم و احساسی شعور کا ان سے اپنی مجلسوں کے وقت کا بھی گو کہ معلوم ہے۔ اس علم پر گو کہ مجھے رنج بھی شدید ہوتا ہے۔
ابھی فی لمحہ آپ کبھی میرے سوال کا تشریحی جواب دے دیجیے تو پھر آگے بات چلے۔ (یہ میری بیچ کی تشریحی سطور کو جواب سوچتے سمے نظر انداز کیجیے گا۔)”
اس وضاحتی درخواست پر منزہ احتشام گوندل صاحبہ نے کچھ یوں کہا:
“sexual orgies /group sex یا کوئی اور نام دے لیں۔ کہیں یہ فن fun ہے، تفریح کا اعلیٰ ترین ذریعہ ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کلاس میں بچی کے کردار کو اس کی عِصمت کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا۔ بَل کہ اس طبقے میں کردار کی کوئی فائنل تعریف ہے ہی نہیں۔ وہ عمران خان کے لیے مخصوص شریعت کی طرح مفاد در مفاد بدلتا رہتا ہے۔
کرپشن برائی ہے تو فقط ہم مڈل کلاسیوں کو سنانے اور سمجھانے کے لیے برائی ہے۔ اسی کلاس میں کرپشن بھی ایک اعلیٰ ترین کردار کی ایک عمدہ ترین شکل ہے۔”
اس وضاحتی بیان کے بعد صورتِ حال کسی طور واضح ہو گئی تھی۔ راقم نے عرض کیا کہ آئیڈیاز کو تجزیہ کے وقت مخلوط کرنا، تجزیہ کے لیے کسی طور اچھا نہیں ہوتا۔ sexual orgies/group sex میں زبر دستی کا عنصر نہیں ہوتا۔ یہ اپنا انتخاب ہوتا ہے۔
اپنا منتخبہ عمل ہونے کے ناتے یہ روح پر بھی وہ خار بھی نہیں ہوتا/بنتا کہ جس سے بعد میں کچھ احساسِ غلط و خلش رہے۔ (یاد رہے کہ ہم اپنے اپنے صحیح و غلط کے تصورات سے باہر تعدیلی فضاؤں میں جا کر پیچھے بہت مشکل سے دیکھ پاتے ہیں، جملۂ معترضہ۔)
یہ آپ کے ہی بیان کردہ حالات کے مطابق معاشرے کے کسی طبقے میں، چُوں کہ، رَوا ہے، اس لیے یہ مستقبل کے کسی ناتے میں بھی کوئی رکاوٹ اور خار نہیں۔
ایسا کرنا، ہونا، دیکھنا اخلاقی ضوابط کے تضاد کی مثال نہیں، بَل کہ موافقت کی ہی مثال ہے۔ اس معاملے کی بابت اگر کوئی طبقۂِ بالا، یا کسی اور طبقہ کا، اخلاقی ضابطہ ہے تو اس پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
ہم ایسوں کو اعتراض اپنے اخلاقیاتی مقامَ سہولت vantage point پر بیٹھ کر اس قدر دوئیت زدہ ہونے کی صورت میں ہی ہوتے ہیں۔
باقی رہی گینگ ریپ کی بات تو اسے منشا کے عین مطابق کے group sex کے متوازی تصور کے طور پر دیکھنا خلطِ تصوارت اور خلطِ مبحث ہے۔
گینگ ریپ زنائے بالجبر ہے، group sex تعلقِ بالرضاء ہے۔
گو کہ یہ تعلقِ بالرضاء ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں ہم فرد کو فرد نہیں، بَل کہ، اپنی قبائلی و جاگیر دارانہ روایت میں رعیت سمجھتے ہیں؛ یعنی ہم اس چوکی دار کی سی نفسیات میں دوسروں سے/اپنے بچوں سے/بہنوں سے/پورے معاشرے سے متعلق related ہوتے ہیں، اس لیے ہم دوسروں کے کسی بالرضاء عمل اور رویے پر بھی guardian اور مائی باپ کی طرح بنے رہتے ہیں۔
گینگ ریپ، (اور سنگل پرسن ریپ بھی) ایسا جرم ہے، جس کا احساس ہماری مشرقی اور عرب زدہ معاشرت کے فقہ جات کو نا ہو سکا، اور نا ہی ان کے زیرِ اثر پرورش پانے والے معاشروں میں ایسی کوئی خاص حساسیت پیدا ہو سکی ہے۔ (اور انتہائی رنج سے کہوں گا کہ ان معاملات پر حساسیت اگر کہیں سے آئی ہے تو مغربی تعلیم یافتہ، لنڈے کے لبرلوں کے ذریعے آئی ہے۔ اور اپنی باری میں مغرب میں بھی یہ حساسیت کوئی زیادہ عرصہ پہلے سے نہیں آئی ہوئی۔)
مڈل کلاس ذہنی لحاظ سے سست، اور کسی قدر زیادہ تضادات کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں سب سے پہلے تو ریپ اور گینگ ریپ کے بارے میں حساسیت اور انسانیت آموز ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
اس طرح کے رویے انتہائی مشکل سے ہی رفع ہوں گے۔ ابھی تک تو جرم کا شکار فرد کو ہی کوسنے دیتے ہیں:
- ایسے کپڑے کیوں پہنے تھے؟
- اس وقت کیوں باہر نکلی تھی؟ بَل کہ کچھ طبقے تو کہتے ہیں، باہر ہی کیوں نکلی تھی؟
- جب کسی دوسرے کے ساتھ جا سکتی ہے تو میرے ساتھ کیوں نہیں؟
- جینز پہنتی ہے تو available کا بورڈ ہے؟
- ہنس کر دیکھ لے تو رضا کا اشارہ ہے۔
میں اپنی پوری بے وقوفانہ آدرشیت میں ایک ایسے وقت کا خواب دیکھتا ہوں جب مڈل کلاس اپنے آپ کو اخلاقی اور انسانی ہم احساسی کی اس سطح پر لے آئے گی کہ اسے جرم کا شکار قصور وار نہیں لگے گا۔ اسے ریپ اور گینگ ریپ کا شکار فرد دھتکار کا سزا وار نہیں لگے گا۔ اسے قبول کیا جائے گا۔ اسے سینے سے لگایا جائے گا۔