خرد، قانون، اخلاق اور شہریت کی تعلیم اور ایک قتل
از، نصیر احمد
اخلاقی اور غیر اخلاقی طاقت کے درمیان جو انتہائیں ہیں، ان پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی اچھی بات کے لیے اور کسی بھی جائز شکایت کے لیے کسی بھی وقت فرد کا مُنھ بند کیا جا سکتا ہے۔ بس ایک جتھا سا بنانا ہوتا ہے اور من پسند خاموشی مل جاتی ہے۔ اس کے لیے بڑی تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ مؤثر مَحبت ہوتی ہے کہ جو ظلم ہے اس کے بارے میں کچھ کہا تو جس سے محبت ہے، اس کو تکلیف ہو جائے گی، یا سہنی پڑ جائے گی۔
اپنے اِمیج کے بارے میں دھیان بھی یہ خاموشی مسلط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ سچ کہا تو ایسا ڈھنڈورا پِٹے گا کہ کہیں مُنھ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔
ایک طرح کی سماجی موت کا منظر بھی استوار کیا جا سکتا ہے۔ کہ سچ کہو گے تو دنیا میں تنہا رہ جاؤ گے۔ پھر مالی نقصان تو ایک ہتھیار ہے ہی کہ سچ کہو گے، اپنے مُؤقف پہ قائم رہو گے تو مالی نقصان بھی ہو گا۔
انسان انسان ہوتے ہیں اور کسی مرحلے پر ان کی صداقت سے وابستگی کم زور ہو جاتی ہے، اور یہ کم زوری بھی فرد کی خامی ہی سمجھی جاتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جَتھے کے ذریعے کتنی بڑی زیادتی کی جا رہی ہے۔
پھر اپنی صداقت پسندی یا ایک مختلف نُکتۂِ نظر رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو منظر سے غائب بھی کیا جاتا ہے۔
اور جسمانی تشدد بھی سچ سے فرد کا رشتہ توڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پھر موت بھی ہے، سچ کے خاتمے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ چُوں کہ یہ سارے اعمال غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں اور ان اعمال پر مبنی نظام کو چلانے کے لیے معاشرے کی ہر سطح پر اخلاقی پستی اور لا قانونیت کے رواج کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ایک خبر پڑھی ہے کہ ایک شخص نے نا جائز تعلقات کے شبے پر اپنی بیوی سمیت نو لوگوں کو قتل کر دیا ہے۔ یعنی اگر فرد کی اخلاقی طاقت ختم کر دیں گے کہ وہ سچ کہہ سکے، سچ کی جستجو کر سکے، سچ کی بنیاد پر ایک طرز حیات چن سکے، سچ کی بنیاد پر تعلیم حاصل کر سکے، سچ کی بنیاد پر حقوق سے لطف اندوز ہو سکے، سچ کی بنیاد پر اپنی انفرادیت کے امکانات کی افزائش کر سکے، اور سچ کی بنیاد پر ایک مفید اور اچھا شہری بن سکے تو غیر اخلاقی، غیر قانونی، غیر انسانی طاقت عِفرِیت تو بنے گی اور اپنی شقاوت کو نیکی کا نام دے کر خوش بھی ہو گی۔ شُبہے کی بِناء پر نو قتل؟ شُبَہ ہے، یا حقیقت، اس بات کی بہت تکلیف ہے تو علیحدہ ہو جاؤ، طلاق دے دو۔ اپنا رستہ لو۔
اور یہ ایک خبر نہیں ہے، روزانہ چھپتی ہیں۔ بہن کو قتل کر دیا، ساس کو قتل کر دیا، باپ کو قتل کر دیا، سالی کو قتل کر دیا، بچے قتل کر دیے، معشوقہ کو قتل کر دیا، عاشق کو قتل کر دیا۔
یعنی کنبہ خِرد، قانون، اخلاق اور شہریت کی تعلیم و تربیت نہیں کر رہا۔ کنبہ نہیں کر رہا اور سکول بھی نہیں کر رہا، اور دیگر ادارے بھی نہیں کر رہے۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
اور جنون کی، لا قانونیت کی، اور بُلوے کی تعلیم مسلسل ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تہذیب سے بغاوت ہی زندگی بن گئی ہے۔
افراد زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتے۔ انسانی جان قیمتی ہوتی ہے۔ انسانوں کے حقوق ہوتے ہیں۔ انسانوں کے فرائض ہوتے ہیں۔ جھگڑوں کے پُر امن حل ہوتے ہیں۔ اور ان پُر امن حلوں کے لیے معاشرتی اور قانونی ادارے ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ ادارے فرد کے تحفظ، فرد کی فلاح، فرد کے حقوق، فرد کے فرائض کے لیے کام نہیں کریں گے بَل کہ جنون، لا قانونیت اور بُلوے کی تربیت گاہیں بن جائیں گے، تو ہر نیا دن ایک نیا سانحہ ہی ہو گا۔
اور انسانیت، شہریت، قانون کی عمل داری سچ کے بغیر نہیں نا ممکن ہوتی اور اگر ان چیزوں کی خواہش ہے تو پھر سچ برداشت کرنے کا کچھ حوصلہ کرنا ہو گا۔
بہت بڑا تضاد ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے حوالے سے اختلاف برداشت کیا جاتا ہے، نہ سچ اور دوسری طرف گھناؤنے جرائم سے بھی سمجھوتا جاری ہے۔