ترکی کی سیکولر جماعتیں اور پاکستانی سیاسی جماعتیں
یاسر چٹھہ
ملکِ عزیز پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک عجیب سا سیاسی ماحول بنا دیا گیا ہے۔ “بنانے” کا مجہول فعل اس لئے برت رہے ہیں کہ ایسا فطری اور ارتقائی طور پر تو ہر گز نہیں ہوا۔ بلکہ ایسا بہترین تنظیمی اصولوں کے تحت کیا گیا۔ کیا یہ گیا کہ روایتی ذرائع ابلاغ کی مختلف کمین گاہوں پر کئی “نامورین” کو سادہ کپڑوں میں مورچہ زن کیا گیا ہے۔
ایسی صورتحال اخبارات میں تو اس قدر بد تر ہے کہ شرم کا لفظ خود شرمسار ہو جاتا ہے۔ نجی ٹیلی ویژن چینلز جو پچھلی ڈیڑھ دہائی سے پاکستان میں کیبل تاروں کے ذریعے گھر گھر پہنچے ہیں، یہاں تو اور بھی حالات دگر گوں ہیں۔ یہاں بھی کئی ایک “پیراٹروپر صحافی” اپنے لعاب دہن کو خشک کیے بغیر “بُوٹوں کی چاپ” پر کان دھرے نظر آتے ہیں۔
ہر لحظہ “چمک” کا کام بھی پوری تندہی سے انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی ایک مربوط طریقے سے “چمک و چمتکار بٹالین” ہر لمحہ کسی آزاد فکر و انسان دوست شخص کا ناطقہ بند کرنے کو مستعد ملتی ہیں۔
اس سارے سیاق میں اگر ہم گنہگار یہ جملہ بولیں کہ جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے تو اس کے اپنے بازار سیاست میں بہت کم خریدار ملیں گے۔ کیا کہیں کہ اس خیال کی تحسین میں تو بہت ہی کم لوگ آئیں گے۔ اس نتیجے کے برحق ہونے کے لیے اور اس خیال کے خلاف کوئی آج کی محنت تو جاری نہیں! یہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے “مخالفین کُش” قانون، EBDO، جس کا مقصد اپنی تیل کی دھار کو نا پسند کرنے والوں سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کو نااہل قرار دینے سے شروع ہوجاتا ہے۔
تو اب تک کی غیر جمہوری اور “گُھس بیٹھیے” ماہرین صحافت کی لمبے روایت کا ثمر آج یہ ہے کہ آپ کہیں بیٹھے جمہوریت کا نام لیں تو آپ پر چاروں طرف سے اس کی سر توڑ مخالفت میں جملوں اور تبصروں کا ایک جھکڑ آنے کا بڑا قوی امکان ہوتا ہے۔ شاید ہی ہو کہ کسی محفل میں اس کے سارے حامی ہوں۔ ایسے ایسے الزامات مختلف سمتوں سے وارد ہونے لگیں گے کہ خدا پناہ۔
ہم ان الزام دینے والوں کو بھی جھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ سب پورا سچ بول رہے ہونگے، لیکن غلط موقع پر اور غلط سیاق و سباق میں۔ ان کے الزامات میں کرپشن کے الزامات، حکومتی سستیوں اور ناکامیوں کا پورا ذخیرۂ حقائق ہو گا اور بہت سارے اوہام سچ کے لباس میں ان کے شعور میں منتقل ہو چکے بھی ہونگے۔ وہ کسی بھی وقت کی حکومت سے نالاں ہوں گے، اور یقیناً توقعات اور ان توقعات کی بارآوری میں ایک بہت بڑا خلیج ہمیشہ رہتا ہے۔
مسائل بہت سارے جمع در جمع ہوئے پڑے ہیں اور ان کا حل ہونا فوری طور پر ممکن بھی نہایت مشکل سے ہوتا ہے۔ اس سارے سلسلے میں جو بات انتہائی غلط ہو جاتی ہے وہ یہ کہ حکومت کی سستی اور نا اہلی کو جمہوریت کی ناکامی پر محمول کر لیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسی منطقی اور فہم کی غلط ہوتی ہے جس کو اخبارات میں موجود “سادہ کپڑوں” میں موجود مورچہ زن، ٹیلی ویژن کے “پیرا ٹروپر اینکر” اور سماجی ذرائع ابلاغ میں بٹالین در بٹالین کی فارمیشن اپنے ادارہ جاتی، معاشی و سیاسی مقاصد کے لیے کئی گُنا بڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح کی صورت ہائے احوال پر سے کچھ دن میں دھند چَھٹنے پر اصل چیز کا پتا چلتا ہے۔
ایک مثال کے طور پر اسے دیکھ لیجیے کہ اصل مسئلہ جو کہ منتخب وزیراعظم کی طرف سے نریندر مودی کی والدہ کو تحفتاً شال دینے سے پیدا ہوا تھا،( استعارے میں بات کررہا ہوں، آپ ذہین ہیں سمجھ گئے ہوں گے)؛ اس کے ذریعے کچھ “طاقتور حلقوں” کے پاؤں سے نکلی زمین کو واگذار کرانے کے لیے غول در غول انقلابی کئی کئی مہینوں اپنے نصیب کی دھوپیں اور شامیں درالحکومت کے عین صدر دروازوں پر آ کر سینکتے اور گزارتے ہیں۔
دھاندلی دھاندلی کے خیال کو “معرضِ حقیقت” میں لانے کے لیے کئی ایک افضل خانوں کے پیرا ٹروپر اینکروں کے ذریعے انٹرویو “کشید” ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ مہینوں بعد ان افضل خانوں کی بیٹھتی جھاگ اور معافی کی خواستگاری کبھی شہ سرخیوں کا موضوع نہیں بن پاتی۔ ابھی کچھ دنوں سے پانامہ کے آؤٹ ہوئے پرچوں کا سہارا لے کر اپنے روزِ روشن کے لمحوں کے دیکھے خوابوں کی تعبیریں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی ایک نام نہاد سیاسی رہنماؤں کو جمہوریت کی بساط الٹنے ہی میں اپنا رانجھا راضی ہوتا نظر آتا ہے۔
ہم یہ قطعی نہیں کہتے کہ حکومت وقت پر حزب مخالف کی جماعتیں تنقید نا کریں۔ بلکہ یہ تو ان کا فرض اوّلیں ہے کہ وہ حکومت کو راہ راست پر رکھنے کے لئے شعوری طور پر اور تیاری کے ساتھ حزب اقتدار میں ایک سخت جواب دہی کا احساس پیدا کریں۔ جو حکومت اس وقت مرکز اور پنجاب میں ہے، ان کے اندر تو پہلے ہی سیاسی لوگوں والے جراثیم کم تناسب میں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان پر تنقید کرنے کے چکر میں حزب مخالف کے نمائندے کھیل کے اصولوں کو ہی بھول جائیں۔
بھائی آپ ساری سیاسی جماعتیں، حکومت کرنے اور انتخابات لڑنے کے پہلے پہلے حقدار ہیں۔ یہ اداروں کو بلانے اور مٹھائیوں کی تقسیم کی سماجیات کی باتوں کا ذکر کرنا آپ کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ آپ دوسرے سے مخاصمت کے چکر میں میں اس قدر بصیرت اور بصارت نا کھو دیں کہ گراؤنڈ ہی کو اکھاڑنے کا سوچنے لگیں۔ آپ کا کام لوگوں کو امید دینا ہے۔ آپ کسی اور نجات دہندہ کی پرانی اور گھسی پِٹی فلم کا وعدہ نا کریں تو ہم آدرش پسندوں پر آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
ہماری حزب مخالف کی جماعتوں کو بھی کچھ سبق تو ترکی سے لینے چاہئیں۔ انہیں یہ ماننا ہوگا کہ جب کوئی سیاست کے دائرے سے باہر والا ادارہ، جس کے فرائض منصبی میں صرف ملکی دفاع شامل ہے، وہ کسی اور طرف رال ٹپکانے لگے تو سب نے مل کر جواب دینا ہے۔ کسی نے یہ نہیں سوچنا شروع کردینا کہ ہمارے مخالف پر اب برا وقت ہے تو میں بھاگ کر مٹھائی لے آؤں اور تصاویر بنا کے اخبار میں لگا دوں۔ تاکہ کسی نئے احتشام ضمیر کو دکھا کر “نئی بغیر نکاح کے پیدا شدہ جمہوریت” میں سے بہتر ڈِیل لے سکوں۔
ترکی کی سیکولر جماعتوں کو طیب اردگان کے افعال و کردار پر بہت شدید تحفظات ہونے کے باوجود انہوں نے جمہوریت کے رولز آف گیم سے روگردانی نہیں کی۔ انہوں نے فوجی بغاوت کے خلاف بہ حیثیت مجموعی حصہ لیا۔ ان میں سے کوئی بھی مٹھائیوں کی دکانوں کی طرف نہیں لپکا بلکہ بڑھتے ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہونے کو ترجیح دی۔ شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ انہیں مشورہ دینے والے پیرا ٹروپر دانشوروں اور صحافیوں کی کھیپ ابھی وہاں پیدا نہیں ہوئی؟
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.