ورلڈ کپ 2019 کا پوسٹ مارٹم
از، حسین جاوید افروز
اپنی تمام تر ہنگامہ خیزیوں، جوش سے لبریز لمحات اور سنسنی خیز ساعتوں کے ہم راہ بارہواں ورلڈ کپ کرکٹ 2019 اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ قریب 45 روز جاری رہنے والے والے اس ٹورنامنٹ نے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لیے رکھا اور کھیل کو نئی بلندیوں تک جانے میں بھر پُور مدد دی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ عالمی ایونٹ نیٹ رن ریٹ کے مسائل، خراب موسم کی آنکھ مچولی اور سپر اوور سے جنم لینے والی پیچیدگیوں کے باعث بد مزگیوں کی وجہ بھی بنا جن پر آئی سی سی کو بَہ ہر طور خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بَہ ہر حال، اب جب کہ عالمی کپ چودہ جولائی کو انگلینڈ کی ٹائٹل فتح کے اختتام پذیر ہو ہی چکا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرا اس میگا ایونٹ میں شریک اور ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے والی ٹیموں کی مجموعی پرفارمنس پر سیر حاصل روشنی ڈالی جائے تا کِہ یہ واضح ہو سکے کہ کون سی ٹیم عالمی کپ کے اختتام پر کہاں کھڑی دکھائی دیتی ہے؟
اس سے قبل ہم ٹیموں کی کار کردگی کا بہ نظرِ غور جائزہ لیں یہاں مجھے ویرات کوہلی کی کہی ایک بات یاد آ رہی ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ عالمی کپ میں چار سو سے پانچ سو رنز کرنا آسان ٹاسک ہو گا، بل کہ، مجھے تو لگتا ہے کہ اگر ڈھائی سو سے اوپر کا بھی ہدف ملے تو وہ بھی ایک محفوظ ہدف قرار دیا جا سکتا ہے۔
یقیناً کوہلی نے درست اندازہ لگایا اور نظر بھی یہی آیا کہ 250 سے 300 کے درمیان دیا جانے والا ہدف ہر لحاظ سے قابلِ دفاع دکھائی دیا۔ یہاں ایک اور دل چسپ امر یہ بھی رہا کہ توقعات کے بر خلاف اسپن باؤلر ہر گز ٹرمپ کارڈ ثابت نہیں ہو سکے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کے کلدیپ یادیو، چہل، آسٹریلی اکے ناتھن لائن اور ایڈم زیمپا، پاکستان کے شاداب خان، انگلینڈ کے معین علی اور عادل رشید اتنے ساز گار ثابت نہیں ہو سکے جیسا کہ ان سے امید کی جا رہی تھی۔
تاہم اس کے بر عکس سِیمرز انگلش وکٹوں پر بھیگتے ہوئے موسم میں نہایت ہی مہلک ثابت ہوئے اور بہترین سے بہترین بلے بازی کو جڑ سے اکھاڑ نے میں مکمل طور پر مفید بھی رہے۔
خیر سب سے قبل بات کی جائے مورگن الیون کی جس نے اس عالمی کپ میں عرش سے فرش اور پھر فرش سے عرش تک کا نہایت ہی دل چسپ اور یاد گار سفر طے کیا، اور بلا شُبہ طویل دھائیوں کے انتظار کے بعد انگلش عوام کو عالمی کپ کا تحفہ دینے میں کام یاب ہوئے۔
لیکن اس کام یابی کے پیچھے اینڈریو سٹراس کی محنت کو ہر گز فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے 2016 کے ٹی ٹونٹی فائنل میں کالی آندھی سے شکست کے بعد سے شکست خوردہ مورگن پر اعتماد برقرار رکھا، اور انگلش ٹیم کو سست روی اور جذبے سے عاری ٹیم سے بدل کر ایک جارحانہ جتھے میں تبدیل کر ڈالا۔
ان گزرے برسوں میں انگلش ٹیم نے ٹیسٹ میچز کے ساتھ ساتھ خود کو ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کے فارمیٹ میں یک سر بدل کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مورگن کی پُر سکون قیادت تلے، بیرسٹو، جیسن رائے، روٹ نے گویا ڈریسنگ روم کا ماحول ہی تبدیل کر دیا۔ جب کہ باؤلنگ کے شعبے میں کل تک گُم نام رہنے والے جوفرا آرچر کی اچانک ٹیم میں شمولیت اور فائنل اوور میں اعصاب قابو رکھتے ہوئے نتائج انگلینڈ کے حق میں کرنے کی کار کردگی یہ سب کچھ نہایت ہی افسانہ سا لگتا ہے۔
جب کہ ووکس، مارک ووڈ اور پلنکٹ نے فاسٹ باؤلنگ کے شعبے کو بہ خوبی سنبھالا اور آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور بھارت کی پائیدار بلے بازی کے بھرم کو پاش پاش کر دیا۔ جب کہ یہاں دو اہم نام بلا شبہ بین اسٹوکس اور جوش بٹلر کے ہیں جنہوں نے نہایت دباؤ کے عالم میں انگلش ٹیم کی ڈوبتی کشتی پار لگائی اور اپنی ہمت اور جذبے کے سہارے انگلش کرکٹ کے تاریخ کے ہیروز بن کر ابھرے۔
یہاں خاص کر اسٹوکس خراجِ تحسین کے حق دار ہیں جن کی ذمہ دارانہ بیٹنگ نے فائنل میں کیویز کے سامنے بند باندھا اور آخر تک جمے رہے۔ انہوں نے گویا 2016 کے ٹی ٹونٹی فائنل میں بارتھ ویٹ کے ہاتھوں چار چھکے کھانے کا اب کفارہ ادا کر دیا۔ جب کہ وکٹ کیپر جوش بٹلر کی پاکستان کے خلاف شان دار سنچری اور فائنل میں کیویز پیس اٹیک کا جواں مردی سے مقابلہ اپنے آپ میں لا مثال رہا۔
اگر چِہ پاکستان سے شکست کے بعد ٹیم کو سابقہ کھلاڑیوں کی جانب سے شدید تنقید کا بھی سامنا رہا، مگر ایک بار جس طرح انگلش ٹیم نے اٹھان کا سفر کیا تو پھر وہ نا قابلِ شکست ہوتے چلے گئے۔ کیا بھارت کیا آسٹریلیا سب کے سب انگلش فائٹنگ سپرٹ کے سامنے ریت کے گھروندے ثابت ہوئے۔ لیکن یہ کین ولیم سن کی کیوی ٹیم ہی تھی جس کی جارحانہ مزاحمت نے ایک بار تو انگریزوں کے کپ جیتنے کے خواب کو شرمندہ کر ہی دیا تھا۔
اگر نو جوان کھلاڑیوں نے کسی کھلاڑی کو موجودہ کرکٹ میں ایک مثال سمجھ کر فالو کرنا ہو تو کیوی قائد کین ولیم سن اس حوالے سے سب سے موزوں مثال ثابت ہوں گے۔ میچ کتنا ہی پھنسا کیوں نہ ہو، چاہے ناک آؤٹ مرحلے کا پریشر سر چڑھ کر بول رہا ہو یا تمام حالات خلاف جا رہے ہوں تو کس طرح اپنے دست یاب وسائل سے صورتِ حال کو سود مند بنانا ہے اور مشکلات سے پرسکون انداز میں نکلنا ہے یہ ہنر ولیم سن کو بہ خوبی آتا ہے۔
فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں امپائر کمارا دھرما سینا کی فاش غلطی اور سپر اوورز کے ظالمانہ قوانین کے با وجود جس وقار سے ولیم سن نے برتاؤ کیا یہ اعلیٰ ظرفی کی شان دار مثال ہے۔ ذرا سوچیے ٹیم کا سفاک بلے باز گپٹل اپنی فارم کھو چکا ہو، راس ٹیلر پہلے کی طرح جارحانہ کھیل پیش کرنے سے قاصر ہو تو جس طرح کپتانی کے بوجھ کے با وجود ولیم سن نے ایک اینڈ سنبھالتے ہوئے ٹیم کو سنبھالا وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ جب کہ بھارت سمیت دیگر ٹیموں کو جس طرح بولٹ، ہنری اور فرگوسن نے کھدیڑا وہ دیکھنے کے قابل نظارہ تھا۔ جب کہ درمیانی اوورز میں سیٹنر نے بھی بہ طور اسپنر اپنا کردار کمال مہارت سے نبھایا۔
بس حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ ٹرافی ولیم سن کے ہاتھوں کو چھو کر نکل گئی وگرنہ نیوزی لینڈ نے اس بار چمپئین بننے کا تہیہ کر ہی لیا تھا۔ لیکن بَہ ہر حال کین ولیم سن کی موجودگی میں کیوی ٹیم کا مستقبل ہمیں تاب ناک ہی دکھائی دیتا ہے۔
اب ذرا آسٹریلوی ٹیم پر بھی چرچا ہو جائے جن کو دنیائے کرکٹ میں killing instinct کی حامل نا قابلِ شکست ٹیم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن اس بار ایرون فنچ کے زیر قیادت کینگروز کا جتھا جو کہ مچل سٹارک، وارنر، میکسویل، کیرے جیسے با صلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل تھا سود مند نتائج دینے میں نا کام رہا، اور روایتی انگلش ٹیم کے ہاتھوں سیمی فائنل میں شکست کھا کر ایونٹ سے بغیر لڑے خارج ہو گیا۔
علاوہ ازیں، اس ٹیم میں آخری دم تک لڑنے کی جستجو اور روایتی جارح مزاجی بھی اس دفعہ دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسی لیے ٹیم کا مِحوَر وارنر اور اسٹارک جیسے گیم چینجر کھلاڑیوں کے گرد گھومتا رہا، جہاں یہ نا کام ہوئے وہاں ٹیم کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ جب کہ بہ طور آل راؤنڈر میکسویل اور سٹاؤنس اہم مواقعوں پر اپنا اصل کھیل دکھانے میں یک سر نا کام رہے۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ آسٹریلوی مڈل آرڈر بھی چَوک کر گیا، جس کا ویسٹ انڈین، بھارتی اور انگلش باؤلروں نے کھل کر فائدہ اٹھایا۔
جہاں تک اسپِن کے شعبے کا تعلق ہے تو ناتھن لائن اور زیمپا بھی مخالف بلے بازوں کو ہراساں کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکے۔ البتہ وکٹ کیپر کیرے اپنی پہلی آزمائش میں کام یاب ٹھہرے، اور ان کو مستقبل کے لیے امید کی کرن کہا جا سکتا ہے۔ جب کہ فاسٹ باؤلنگ کے شعبے میں سارا بوجھ اسٹارک کے کندھوں پر پڑ گیا، اور جہاں وہ پرفارم نہیں کر سکے وہاں آسٹریلوی باؤلنگ اٹیک بے بس دکھائی گیا اور اس مرحلے پر جوش ہیزل وڈ کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی۔
ٹیم بلیو یعنی ہندوستانی ٹیم بھی اس آغاز میں عالمی کپ کی ایک مضبوط دعویٰ دار تسلیم کی جا رہی تھی اور ویرات کوہلی کی کپتانی میں روہت شرما، جسپریت بمرا، شامی، راہول اور مہندر سنگھ دھونی کی موجودگی میں بلا شُبہ یہ ایک متوازن سائیڈ تھی۔ لیکن لگتا ہے کہ بھارتی میڈیا نے چیمئز ٹرافی میں حد سے زیادہ خود اعتمادی کے برے تجربے سے کچھ سبق نہیں سیکھا اور یہی وجہ ہے کہ میدان میں اترنے سے قبل ہی فاتح کہلائے جانے کے شوق نے اس بار بھی کوہلی الیون کو رسوا کر کے رکھ دیا۔
صرف انگلینڈ سے شکست کھا کر سیمی فائنل تک بَہ آسانی رسائی کی بَہ دولت بھارتی کھلاڑی خود کو ہوا کے دوش پر سمجھ رہے تھے، مگر سیمی فائنل میں ہونے والی بارش اور دوسرے دن ہنری کے تباہ کن اسپیل نے گویا ہندوستانی ٹیم کے کپ جیتنے کے خواب کو چکنا چُور کر دیا اور جڈیجا کی مزاحمت کے با وُجود ٹیم انڈیا اٹھارہ رنز سے شکست کھا کر فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ بھارتی ٹیم میں اختلافات کی وبا پھوٹ پڑی ہے اور ٹیم کوہلی اور روہت شرما گروپس میں بٹ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوہلی نے فوراً ویسٹ انڈیز کے دورے پر جانے کی حامی بھر لی کہ کہیں شرما قیادت سنبھال کر ان کی جگہ نہ لے لیں۔ ایک دل چسپ مظہر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جب بھی ناک آؤٹ مقابلوں کی بات آتی ہے تو ویرات کوہلی اور روہت شرما جد و جہد کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں ٹیم کا مڈل آرڈر ابتدائی وکٹیں کھونے کے بعد دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اور ٹیم اوندھے مُنھ ڈھے جاتی ہے۔
جب کہ مہندر سنگھ دھونی بھی اب بطور میچ فنشر اپنا کردار ادا کرنے میں نا کام ہو چکے ہیں جس کی وجہ زائد العمری ہے ان کو اب کرکٹ سے سنیاس لے لینا چاہیے اس سے پہلے ان کو باہر کر دیا جائے۔
شاید مہندر سنگھ دھونی اب ٹیم انڈیا کے لیے سرمایہ نہیں، بل کہ، ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ جب کہ اپنی تمام تر صلاحیت اور جارحانہ اپروچ کے با وجود پانڈیا، رشبھ پنت اور جڈیجا بھی ایکس فیکٹر نہیں بن پائے۔ شاید اسی لیے اب بھارتی میڈیا اور سابق کھلاڑیوں کو رائیڈو کی یاد ستا رہی ہے جن کو با صلاحیت ہونے کے با وُجود عالمی کپ کے اسکواڈ سے باہر کر دیا گیا۔ تاہم مستقبل کے لیے جسپریت بُمرا اس ٹیم کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتے ہیں لیکن ٹیم انڈیا کو اب عمر رسیدہ کھلاڑیوں سے جان چھڑانا پڑے گی اور ویرات کوہلی کی پسندیدہ کھلاڑیوں کی فہرست سے بھی چھٹکارہ حاصل کرنا ہو گا کیوں کہ وجے شنکر کی بَہ دولت ٹیم انڈیا کو پہلے ہی خاصا نقصان ہو چکا ہے۔
وجے شنکر، ویرات کوہلی کے لیے منصور اختر ثابت ہوئے، یعنی جن کی دھوم تو بہت سنی مگر حقیقت میں شنکر ایک اوسط درجے کے کھلاڑی کی حیثیت سے ہی سامنے آئے۔ جب کہ چھوٹی ٹیموں میں بنگلہ دیش نے شکیب الحسن کی شان دار کار کردگی کی بَہ دولت بنگالی عوام کو بھر پُور تفریح فراہم کی اور امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں یہ ٹیم مزید بہتر ہوتی جائے گی۔
سنگلاخ پہاڑوں کی سَر زمین افغانستان کی ٹیم نے بھی عالمی کپ میں جارح مزاجی سے بھر پُور کرکٹ کھیلی، مگر نا تجربہ کاری اور راشد خان کی عالمی بلے بازوں کے سامنے پٹائی نے اس ٹیم کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن ۹ شکستوں کے با وجود یہ ایونٹ افغان ٹیم کے لیے سیکھنے کے لیے ایک سکول کی حیثیت رکھتا ہے امید ہے کہ وہ اپنے اغلاط سے سبق سیکھیں گے۔
عالمی کپ کرکٹ کسی بھی ٹیم کے لیے سنہرا موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنا بہترین کھیل اپنے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ پیش کرے، مگر افسوس سری لنکن ٹیم اور سلیکشن کمیٹی نے یہ موقع گنوا دیا۔ عالمی کپ سے چند روز پہلے ہی چندی مل سمیت کئی تجربہ کار کھلاڑیوں کا ٹیم سے اخراج کیا گیا اور کرونارتنے کو کپتانی سونپ دی گئی اور در حقیقت یہ تبدیلیاں ٹیم کے مفاد میں برا شگون ثابت ہوئیں۔
ما سوائے انگلینڈ کو ہرانے کے یہ ٹیم کسی موڑ پر بھی حیران کن کار کردگی دکھانے سے قاصر رہی حتیٰ کہ بنگالیوں نے ان سے کہیں بہتر اور مثبت کرکٹ کھیلی۔ بہ حثیتِ مجموعی سری لنکن کرکٹ بورڈ کی سیاست ٹیم کو لے ڈوبی اور سنگا کارا کے بلے بازی کو کار آمد بنانے کے مشورے پر کسی نے کان نہ دھرے جس کے مہلک اثرات سب کے سامنے ہیں۔
جب بھی عالمی کرکٹ کی تگڑی ٹیموں کی بات کی جاتی ہے تو جنوبی افریقی ٹیم ہمیشہ ہی نمایاں نظر آتی ہے۔ مگر اس بار فان ڈوپلیسی کی زیرِ قیادت جنوبی افریقہ اپنے اصل مقام سے کوسوں دور دکھائی دی اور عالمی کپ کی ابتداء میں ہی راستے سے بھٹک گئی۔
بَہ طورِ کپتان ڈوپلیسی نے نہایت کمتر معیار کی قیادت کا مظاہرہ کیا جب کہ سینئر کھلاڑیوں جیسے ہاشم آملہ، ڈومنی اور ملر بھی توقعات کے مطابق کھیل پیش نہ کر سکے اور رُو بَہ زوال نظر آئے جب کہ رہی سہی کسر ڈیل اسٹین اور نگیڈی کے فٹنس مسائل اور میگا ایونٹ سے اخراج نے پوری کر دی۔
جہاں پل پل ٹیم کو اے بی ڈویلیئرز کی کمی محسوس ہوئی وہاں فاسٹ باؤلر کگیسو رباڈا بھی بمرا کی طرح تباہ کن نہ بن سکے۔ یوں ساؤتھ افریقہ کی ڈھلمل پرفارمنس نے ایک بار پھر اپنے پرستاروں کو شدید مایوسی سے دو چار کر دیا۔
ایک دور تھا کرکٹ اور عالمی کپ ایونٹس ویسٹ انڈیز کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کلائیو لائیڈ سے ویوین رچرڈز، مائیکل ہولڈنگ سے کرٹلی امبروز کی بَہ دولت جزائر غرب الہند نے کرکٹ میں بلیک واش کو ہر سیریز میں معمول ہی بنالیا تھا۔ مگر یہ سب اب گئے موسموں کی باتیں ہیں کیوں کہ حالیہ عالمی کپ میں جیسن ہولڈر کی ٹیم ایک شان دار آغاز کے بعد جس تیزی سے گرتی چلی گئی اس نے ثابت کر دیا کہ یہ اب صرف ٹی ٹونٹی کی ٹیم بن کر رہ گئی ہے۔
عظیم کرس گیل ایک بار پھر فیل ہو گئے اور شاید اب ان کے کیریئر کا باب بھی بند ہونے کے قریب آ چکا ہے۔ ٹیم نے آسٹریلیا اور پاکستان کے خلاف ہی بہترین کھیل پیش کیا جہاں کوٹرل کی باؤلنگ لائق تعریف رہی۔ مگر اس کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف بارتھویٹ کی طوفانی سنچری کو چھوڑ کر کچھ بھی ہولڈر الیون کے حق میں نہیں گیا اور خاموشی سے بغیر لڑے ہی یہ ٹیم جزائر غرب الہند کو روانہ ہو گئی۔
آخر میں گرین شرٹس پر جامع تبصرے سے قبل زمبابوے کی ٹیم پر بھی بات کرتے ہیں جو کہ بد قسمتی سے عالمی کپ کے لیے کوالیفائی تو نہیں کر سکی مگر اس پر ستم یہ کہ ICC کے فنڈز حکومت کی جانب سے کھانے کی پاداش میں زمبابوے کرکٹ ٹیم کا مستقبل ہی مخدوش ہو چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جلد ہی ملک کی بد ترین معاشی صورتِ حال اور افراطِ زر کی بلند ترین شرح کی بَہ دولت ڈومیسٹک کرکٹ سے لے کر انٹرنیشنل ایونٹس اور سیریز سے بھی زمبابوے کرکٹ کو ہاتھ دھونا پڑیں گے جو کہ زمبابوین کھلاڑیوں کے لیے بَہ ہر حال ایک نا قابلِ تلافی نقصان ہو گا۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ سرفراز احمد کی گرین شرٹس بھی بد قسمتی سے تاخیر سے ٹیک آف پوزیشن پر پہنچی جب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ بھارت، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز سے شکستوں کی بَہ دولت پاکستانی ٹیم نیٹ رَن ریٹ میں نیوزی لینڈ سے پیچھے رہ گئی اور سیمی فائنل کی دوڑ سے نکل گئی۔ حالاں کہ جس طرح گرین شرٹس نے بعد ازاں انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھکے چھڑائے اور بھر پُور ٹیم سپرٹ کا مظاہرہ کیا وہ لائقِ تعریف رہا۔
اگر سری لنکا کے خلاف میچ بارش کی نذر نہ ہوتا تو بلا شُبہ پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لیتا۔ لیکن مثبت باتوں پر دھیان دیا جائے تو شاہین شاہ آفریدی، وہاب، عامر، حارث، اور بابر اعظم صحیح معنوں میں ٹیم مین ثابت ہوئے اور یہی وہ کردار ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ میں صلاحیت کی کمی ہر گز نہیں صرف ٹیلنٹ کو پالش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تمام تر مسائل کے با وجود میں سمجھتا ہوں کہ سرفراز احمد کو کم از کم ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی قیادت بہ دستور سونپی جائے، البتہ ٹیسٹ لیول پر شاید نئے کپتان کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے ورلڈ کپ 2019 کرکٹ پر سیر حاصل گفتگو کی اور حاصلِ بحث یہی ہے کہ شاید اس ایونٹ کے حوالے سے آئی سی سی کو نیٹ رن ریٹ اور سپر اوورز کے حوالے سے قوانین میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے تا کہ حق دار ٹیموں کی حق تلفی نہ ہونے پائے اور شائقینِ کرکٹ کسی اندیشے اور خدشات کے بَہ غیر کھیل کی سنسنی خیزی سے لطف اندوز ہو سکیں۔