تجزیہ، سازشی تھیوری، ذہنوں کا خطی (linear) اندازِ فکر
از، یاسر چٹھہ
ان احباب کے لیے جن کے اندر ردِّ سازش کی بَہ ظاہر بڑی عمدہ صلاحیت تازہ بہ تازہ دست یاب ہوئی ہے، عرض کرتے ہیں کہ تجزیہ اور پیش بندی کے لیے سب سیاسی پلیئرز کو گیم تھیوری/ریشنل ایکٹرز (وغیرہ) کے پیمانوں اور پلڑوں سے ناپا جاتا ہے۔
سیاسیات کے علم کے بنیادی مفروضوں میں سے ہے ایک یہ ہے کہ جہاں طاقت کا کھیل ہو گا، وہاں سیاست دخیل ہوتی ہے۔
اب اگر ہمارے وسیع تر قومی مفاد کے بیعت شدگان احباب یہ مفروضہ رکھتے ہیں کہ اداروں کے اندر اور اداروں کے درمیان طاقت کے حصول و ارتکاز کی جد و جہد یعنی power struggles نہیں ہو رہی ہوتیں، بَل کہ، کچھ مقدس ادارے مثالی طور پر صرف اور صرف ہَمہ دَم ملکی مفادات کو ہی عزیز رکھتے ہیں، تو ان کی مرضی ہے کہ وہ جس چیز پر چاہیں ایمان لائیں، اور جس پر ایمان قائم رکھے رکھیں۔
بہ ہَر حال، ہماری ناقص رائے میں تو سیاسی تجزیے میں سب سیاسی پلیئرز کو، اور ان کے پارٹی اور ادارہ جاتی مفادات کو factor in کرنا ہوتا ہے۔ (on a lighter note ہماری سب سے منظم سیاسی پارٹی ایک تو کراچی کی رہی ہے، جو آج کل زیرِ عتاب ہے، اور دوسری راول پِنڈی کی رہی ہے جس کی شروعات 50 کی دھائی سے ہو گئی تھیں؛ مؤخرُ الذِّکر کی پوری سیاست واضح رہتی رہی ہے بھلے وہ پروموشن کے معاملات ہوں، یا ٹھیکوں وغیرہ کے لیے، یا مزید طاقت کے حصول کے لیے؛ لیکن یہاں کے بھی سب مؤمنوں کی ہر جگہ تک رسائی نہیں ہوتی اور یہ ہماری طرح مجبوراً دیانت دار ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔)
کبھی کبھی تو بہت حیرانی ہوتی ہے کہ لوگوں کا اچھا خاصا دنیا داری کا ایکسپوزر ہونے با وُجود ذہنی حرکت محض خطی linear ہی رہتی ہے۔
اپنے ناقص تجربے، کچھ سوچ بچار اور انسانی نفسیات کے ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناتے کسی حد تک تو کہہ سکتا ہوں کہ ان کی رسمی تعلیم، ان کا گھر کا ماحول، اور ان کی کار و باری و دفتری تربیت ان کے شعور اور سوچ کی حرکت کی سمت کا نا صرف تعیّن کر دیتی ہے، بَل کہ، بہت حد تک یرغمال بنا لیتی ہے۔
ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ لوگوں نے اپنی سوچ، فکر اور تجربے میں تنوُّع کا اہتمام نہیں کیا ہوتا۔ ایک انجینئر کو انجنیئرنگ اور پراجیکٹ مینیجمنٹ ہی پورا ضابطۂِ حیات لگتا ہے، تو کسی ڈاکٹر کو بھی زندگی اور اس کی تعامل پذیریوں interactions میں دو اور دو چار کا ہی فارمولا نظر آتا ہے۔
اسی طرح اپنے کار و باری احباب کو دیکھا ہے کہ وہ ہر تعامل کو ایک ٹرانزیکشن کے فریم ورک کی عینک سے ہی دیکھ پاتے ہیں۔
نسبتًا بہتر رویوں، اور حقیقت کی تصویر کو کسی حد تک بہتر طور پر اپنے احاطۂِ شعور میں لانے کے لیے متفرق، متنُّوع، ممکنہ حد تک کثیر جہتی اور تمام پولیٹیکل پلیئرز کے مفادات، خواہشات، حسرتیں، institutional image self and اور manifest history کے تناظر میں دیکھ کر کوئی تجزیہ کیا جا سکتا ہے: یہ آپ سب لوگ کر بھی رہے ہوتے ہیں لیکن مختلف صلاحیتوں، تعصبات، ذہنی جھکاؤ اور تجربات کے تنوع کی دولت کی بناء پر؛ لیکن آپ ساتھ ہی ساتھ چنیدہ طور پر رد کرنے کا عمل بھی جاری رکھتے ہیں۔
لہٰذا دوسرے کی بات کو رَد کرنے سے پہلے ایک بار سوچ لیجیے کہ آپ اپنے ایسے ہر فعل و فیصلے کے ساتھ اپنے بارے میں بھی ایک statement دے رہے ہوتے ہیں کہ آپ میں نرگسیت کی کیا سطح ہے، یا آپ کس قدر مختلف آراء کو پراسیس/ استعمال کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
پس تحریر: یہ تحریر کسی خاص شخص کو مدِّ نظر رکھ کر نہیں لکھی گئی، لہٰذا امید ہے کہ یہ کسی حد تک اور کچھ افراد کے لیے سوچ و فکر کے دَر کھولنے میں ممد و معاون ہو گی۔ صرف اور صرف اپنے اوپر لاگُو کرنے کی کوشش مت کیجیے گا؛ یہ بہت بد قسمتی کا معاملہ ہوتا ہے کہ اناء ہمیں بہت دفعہ روشنی سے ہم کنار ہونے سے روک لیتی ہے۔ بہت ظالم ہوتی ہے یہ!