بلی کے بھاگوں چِھیکا ٹوٹا
از، وارث رضا
بھلا ہو سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا، اس کے عددی نتائج کی جادو گری دیکھ کر ہم بھونچکا سے گئے، اور اسی دَم ہمیں پرانی کہاوت، “بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے” یاد آ گئی۔ اسی لمحے ہمیں خیال آیا کہ آج کل ہماری ریاست میں عوام کی زبان بندی، عوامی احتجاج کو خاطر میں نہ لانے کا چلن اور اظہار رائے کو ریاستی قید خانے میں بند کر دینے کی غیر آئینی روایت عام ہے، سو ایسا نہ ہو کہ ہماری اس پرانی اور دانش بھری کہاوت، “بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے،” پر ہی پابندی لگ جائے، اس خطرے کے پیشِ نظر سوچا کہ فوری طور پر نئی نسل کو اس کہاوت کی موجودہ اہمیت سمجھانے کی ایک کوشش کی جائے۔
یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہمارے بزرگ اَن پڑھ تھے، مگر آج کے پڑھے لکھے افراد کی مانند جِہلِ سوچ کے علم بردار ہر گز نہ تھے۔ ان کی دانائی اور دانش سے بھری پُری کہاوتیں اور فیصلے آج بھی روشنی کا استعارہ ہیں۔
یہ ان کی دانائی اور مستقبل بِینی ہی تھی کہ انہوں نے َان پڑھ ہونے کے با وُجُود دانش مندی سے اپنی نسل کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا، تا کہ وہ سماج کی تہذیبی، سیاسی اور سماجی قدروں کو آگے بڑھائے، اب انہیں کیا معلوم تھا کہ جدید علوم کی نسل جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ سماجیات اور باہمی رشتوں سے اس قدر دور ہو جائے گی کہ وہ صرف کسی برانڈڈ آؤٹ لیٹ میں داخل ہوکر جَنک فوڈ کی رسیا اور شیشے پینے میں مصروف، مکمل لیٹ کر تہذیب اور باہمی دکھ سکھ بانٹنے کے بر خلاف خوش گپیوں اور بے سر و پا باتوں میں ہی سکون و طمانیت کی متلاشی ہو گی۔
بیتے زمانے میں باورچی خانے کی اشیاء کو محفوظ رکھنے کے لیے لکڑی کی الماری مانند نعمت خانہ ہوتا تھا کہ جس کی جگہ اب جدید دور میں فرِج نے لے لی ہے، جب کہ سالن کو محفوظ اور تازہ رکھنے خاطر گھر کے دالان میں چِھیکا ڈال کر سالن کو مفت خور جانور اور، بَہ طورِ خاص، بلی سے محفوظ کیا جاتا تھا۔ گو اب چھیکے کی جگہ فریزر نے لے لی ہے، مگر سالن کا سواد اور تازگی تقریباً رخصت ہو چلی ہے۔
اب گھر یا پڑوس کی لالچی بلیاں فرِج کے گرد صرف منڈلاتی ہیں جب کہ بلیوں کے کھانے کے ذرائع محدود کر دیے گئے ہیں، مگر دوسری جانب حضرتِ انسان کا پیٹ اتنا وسیع ہو چلا ہے کہ وہ جَتھوں اور بٹالین کی طرح زمین اور جائیداد اس بری طرح کھا رہے ہیں کہ مجال ہے جو ڈکار بھی لے لیں۔
اس کہاوت، بلی کے بھاگوں چِھیکا ٹوٹا کی وجۂِ نزول یوں بیان کی گئی ہے کہ چھیکے پر گوشت کے سالن کی خوش بُو سونگھ کر بلی نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح دالان میں لٹکے چھیکے تک رسائی حاصل کی جا سکے، تا کہ بلی کے گوشت کھانے کی خواہش پوری ہو سکے۔ تمام تر کوششوں اور نا کامیوں کے بعد بلی نے گوشت تک رسائی نہ پا کر احتجاجاً چھیکے کے نیچے دھرنا دے ڈالا، شاید اچانک چھیکے کا کنڈا ٹوٹا اور پوری ہنڈیا بلی کے سامنے خود بَہ خود آ گئی، بلی نے اسے غنیمت جان کر پیٹ بھرا اور خاموشی سے اپنی راہ لی۔
سینیٹ الیکشن کے روز صادق سنجرانی کی گھبراہٹ اور پریشانی کے بعد اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے میں ایک مایوسی کی جھلک دکھائی دی۔ اسی اثناء میں، اچانک شبلی فراز نے انہیں بلایا اور شبلی فراز الیکشن بُوتھ کی جانب بھاگے؛ اور واپسی پر صادق سنجرانی کی جیت کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے۔
اس پر پریذائڈنگ کرنے والے سینیٹر بیرسٹر سیف نے شبلی فراز سے کہا کہ جب نتیجے کا اعلان ہی نہیں ہوا تو آپ یہ اعلان کیوں کر رہے ہیں۔
اس کے بعد صادق سنجرانی کے چہرے پر خوشی کے آثار اس چھیکے ٹوٹنے والی بلی کی طرح نمُو دار ہوئے جو چھیکا ٹوٹنے کو اپنا بھاگ، یعنی قسمت اور فتح سمجھ رہی تھی۔ بالکل سی طرح ہمارے سیلیکٹ کیے گئے صادق سنجرانی نے بھی لبیک کے نظرِ کرم کرنے والوں کو اپنا بھاگ سمجھ کر خوب خوب دعائیں دی ہوں گی۔
لبیک کے معاہدے کے داتا کی ذرّہ نوازی تھی ہی اس لائق کہ بلوچ روایات کے تحت صادق سنجرانی ان کے شکر گذار ہوں۔
بلی کے چھیکے ٹوٹنے مانند لبیک بھاگوان کی فہرست میں وہ فرماں بردار سینیٹر بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے ہدایات کے تحت ووٹ مسترد کروائے اور نہایت ڈھٹائی سے اپوزیشن کے 64 افراد کی اکثریت کے ساتھ کھڑے رہے۔
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کی نوید امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کو دھوکے میں رکھنے کو بھی مودی جی اپنا بھاگ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ ٹرمپ کے ٹریپ میں ڈھول تاشے بجانے والے عمران خان کو کشمیر پر بھارتی صدر کی نئی قانون سازی پرایک خاص سُبکی سے گزرنا پڑا۔
اب برادر ممالک کو فون کرکے کشمیر کی قابلِ مذمت عمل کی تفاصیل بتانے کو صرف کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے ہی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت کی خارجہ محاذ کی نا کامی بعد، مجھے آج سوڈان کی عوام کے حق مانگنے اور مسلسل جد و جہد کے بعد قابض فوج کو مجبور کیے جانے پر رشک آ رہا ہے کہ جنہوں نے فوج کو اپنی مسلسل جِد و جِہد سے مجبور کیا کہ وہ سویلین حکومت کو اقتدار دے، جو فوج کی ہائی کمان کو ماننا پڑا اور سوڈان میں عوامی حکومت قائم کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔
سوڈان میں عوامی لہر کی کام یابی کے بعد کوئی بعید نہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ پاکستانی عوام جمہوریت کی آزادی خاطر سوڈان میں آج گونجنے والے اس نعرے کہ ہم اب عوامی راج کے علاوہ کسی بھی راج یا طاقت کو قبول نہیں کریں گے،” کو کل اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں؟