کشمیر کی خود مختاری کی جد و جہد کی دینی حیثیت
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
جغرافیہ کی بنیاد پر قومی خود مختاری کا نظریہ جغرافیائی قومیت کے جدید تصور سے پیدا ہواہے، جسے بَہ ہر حال، اخلاقی جواز حاصل ہے۔ اس کا مگر کوئی تعلق دین سے نہیں۔ یہ دین کا حکم ہے نہ مطالبہ کہ کسی قوم کو حقِ خود مختاری حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی جد و جہد برپا کرنی اور انسانی جانیں اس تصور پرقربان کرنی چاہیے۔ ایسی سیاسی، یا مسلح جد و جہد کو اختیار کرنا کسی قوم کا اپنا انتخاب ہو سکتا ہے، لیکن اس تحریک یا جنگ کو دینی جواز عطا کرنا یا اس کو جہاد قرار دینا، یا اس کی خاطر انسانی جان قربان کرنا ہر گز درست طرزِ عمل نہیں ہے۔
اسلام نے جہاں مسلمانوں کو خود مختاری کی حالت میں دین کے مسلم اجتماع سے متعلق دینی احکامات پر عمل کا پا بند کیا ہے، وہاں انھیں بے اختیاری کی حالت کے احکامات بھی دیے ہیں۔ انھیں بتایا ہے کہ اپنے وطن میں انھیں اگر دینی آزادیاں حاصل ہیں، جان، مال اور آبرو کو خطرہ لاحق نہیں ہے تو انھیں وہاں ملکی قوانین کی پا بندی کرتے ہوئے پُر امن شہری بن کر رہنا، اور اپنے دین پر عمل کرنا چاہیے۔
مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام مصری قانون کے ما تحت، اور اس کے پا بند تھے تاہم، انھیں اور ان کی قوم کو چُوں کہ دینی آزادی اور جان، مال اور آبرُو کا تحفظ حاصل تھا، اس لیے انھوں نے خود مختاری کی کوئی کوشش نہیں کی۔
دوسرا حکم دین نے یہ دیا ہے کہ اگر اپنے وطن میں حکام کی طرف سے دینی آزادی، یا جان، مال، آبرو کی حفاظت نا ممکن ہو جائے تو وطن سے ہجرت کر جانی چاہیے، چاہے وہ وطن خواہ مکہ جیسی مقدس سر زمین ہی کیوں نہ ہو۔ بغیر ریاستی طاقت اور نظم کے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دین نے ہر گز نہیں دی۔
رسول اللہ ﷺ نے مکی دور میں قریش کے ظلم و جبر اور حضرت موسی علیہ السلام نے مصر میں فرعون کے تمام تر ظلم و ستم کے با وُجود اپنے پیرو کاروں کو ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا نہ اجازت۔ البتہ، جب انھیں ریاست میسر آ گئی تو جہاد کیا گیا۔
تیسری بات یہ کہ جہاد کی شرائط پوری ہو جانے کے بعد بھی دشمن سے طاقت کا تناسب اگر اتنا زیادہ ہو کہ فتح کا امکان نہ رہے تو ایسی جنگ کرنے کا حکم نہیں ہے۔ سورۂِ انفال کی آیات 65 اور 66 میں صحابہ جیسے صاحبان ایمان کو دشمن کے مقابلے کے لیے پہلے ایک اور دس اور بعد میں ایک اور دو کی نسبت ہونے کی صورت میں لڑنے کا کہا گیا۔ یہ تناسب آج کے دور میں کیا ہونا چاہیے اپنے حالات دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں کشمیر کا معاملہ دیکھیے۔ یہ تسلیم ہے کہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو کوئی اخلاقی جواز حاصل نہیں ہے۔ مہا راجہ کشمیر ہری سنگھ کا بھارت کے ساتھ الحاق اگر قانونی طور پر تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی عوام کا یہ حق عقل و فطرت اور عالم گیر اخلاقیات کے تحت ساقط نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لیے کوئی دوسرا فیصلہ کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ کشمیر کا الحاق کسی ملک سےکرنا ہے، یا اسے خود مختار ہونا ہے، اس کا فیصلہ، بَہ ہر حال، عوام کے اکثریت ووٹ کی بِناء پر ہونا چاہیے۔
یہ ایک افسوس ناک امر ہے اس بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں ان کی دُرست نمائندگی انھیں میسر نہیں، اور بھارتی سیاسی اور فوجی مداخلت کی وجہ سے الیکشن میں عوام کی حقیقی نمائندگی سامنے نہیں آنے پاتی۔
اس صورتِ حال سے مایوس ہو کر ان کے جذباتی نوجوان بیرونی حوصلہ افزائی سے ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ اس کے جواب میں بھارتی فوج کشمیری لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے۔ یہ ظلم مزید غصہ پیدا کرتا ہے اور نو جوان مزید عسکریت پسندی کا شکار ہوتے ہیں۔
انسانی جذبات اور نفسیاتی ردِ عمل اپنی جگہ مگر دینی نقطۂِ نظر سے کشمیری نو جوانوں کے لیے ہتھیار اٹھانے کا کوئی دینی جواز موجود نہیں۔ ریاست ان کے ساتھ نہیں جو جہاد کے لیے اولین شرط ہے، دوسرا یہ جنگ دینی آزادی حاصل کرنے کی نہیں، کہ وہ تو انھیں پہلے سے حاصل ہے۔ یہ جنگ جان و مال اور آبرو کے تحفظ کے لیے بھی اصلاً نہیں ہے، کیوں کہ کئی گنا طاقت ور بھارتی فوج سے اگر عسکریت کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو ان کے پاس کشمیریوں کے جان، مال آبرو کے خلاف تعدِّی کا کوئی جواز رہے گا اور نہ وہ خود ایسا کرنا چاہیں گے کہ طاقت ور غاصب بھی پہلے مرحلے پُر امن سے حکم رانی کرنے کا ہی خواہاں ہوتا ہے۔ اس بِناء مجموعی حیثیت سے کشمیریوں کے لیے وطن سے ہجرت کا بھی کوئی جواز نہیں۔
دوسری طرف سیاسی طور پر کشمیری منقسم ہیں۔ ایک گروہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتا ہے، دوسرا پاکستان کے ساتھ اور اکثریت خود مختاری کی خواہاں ہے۔ لیکن سیاسی طورپر ان کی نمائندہ کوئی جماعت مؤثر طور پر موجود نہیں۔
ہمارا مدعا فی الحال کشمیر کی ساری صورت حال کا تجزیہ کرنا نہیں، بَل کہ خود مختاری کی جد و جہد میں انسانی جانوں کی قربانی کے فلسفے کو جہاد قرار دینے کے جواز کی نفی کرنا ہے۔ کشمیریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود مختاری کا مطالبہ کریں، لیکن انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کوئی دین کا مطالبہ نہیں ہے۔ وہ داخلی خود مختاری کے ساتھ بھی اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے مکمل امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
انسانی جان بہت ارفع چیز ہے۔ اسے خود مختاری کے انسان ساختہ فلسفے کی بھینٹ چڑھایا نہیں جا سکتا۔ اپنی قوم پر ہم قوموں کی حکم رانی کوئی آسمانی حکم نہیں ہے۔ اور انسانی جان صرف خدا کے حکم پر ہی قربان کی جا سکتی ہے۔ اور یہاں خدا کا کوئی حکم کارِ فرما نہیں ہے۔
سیاسی شفافیت داخلی معاملہ ہے اور اس کا حل سیاسی شعور کی بیداری اور اپنے اندر کی تقسیمات کو کم کرنے میں ہے۔ کشمیریوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے در حقیقت فرق نہیں پڑتا کہ حکم ران کون ہے۔ استحصال تو اپنے ہم وطن حکم ران بھی کر تے ہیں۔ پاکستان اور مصر سمیت دنیا بھر کے بہت سے خود مختار مسلم ممالک کو اپنے ہم وطن حکم رانوں کی چِیرہ دستیوں اور اور ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ اصل یہ ہے کہ حکم ران جو بھی قانون اور آئین کا پا بند ہو اور اس کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی جد و جہد کرنی چاہیے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت مودی حکومت نے ختم کر دی ہے اور کشمیری اس کے خلاف ہیں۔ ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ ایک آئینی اور قانونی مسئلہ ہے۔ تو اس کے حل کا اصل میدان عدالت ہے نہ کہ سڑکوں پر خونی احتجاج، یا بندوق۔ بھارت کی عدالتوں کا ٹریک ریکارڈ کافی اچھا ہے۔ کشمیریوں کو اپنا مقدمہ وہاں لڑنا چاہیے ورنہ عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
کشمیریوں کو اگر یہ غلط فہمی ہے تو انھیں دور کر لینی چاہیے کہ ان کی خود مختاری کی جد و جہد میں خود پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں کی خبریں اور تصویریں دیکھ کر کوئی ریاست ان کی مدد کو آئے گی یا عالمی برادری کوئی مداخلت کرے گی۔
کشمیر کا مسئلہ مختلف گروہوں کے لیے اپنے لوگوں کی توجہ اور چندے اور ٹیکس کے حصول کا ذریعہ ہے، اور اس ذریعے کو ختم کرنے میں انھیں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ انھیں اپنے غموں میں اضافہ کرنے کی بَہ جائے ان کے حل کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہونا ہو گا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جنگِ آزادی در حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ حکومت میں اپنی مرضی کی جماعت کے لوگوں کو حکم ران بنا کر ان کی اطاعت کی جائے اور پھر ان کے ظلم اور کرپشن کو سہا جائے۔ سماجی فلاح اپنی مرضی کے حکم ران لانے سے نہیں، آئین اور قانون کی پا بندی سے حاصل ہوتی ہے۔ اور اس کے لیے بندوق نہیں شعور کی ضرورت پڑتی ہے۔ کشمیری اگر اپنی مرضی کی جماعت کو حکومت میں لانے میں کام یاب ہو بھی گئے تو انھیں پھر یہی کہنا پڑے گا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سَحَر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سَحَر تو نہیں
جتنی طاقت نام نہاد آزادی اور خود مختاری کی تحریک کو برپا کرنے اور اس میں انسانی جانوں کی قربانی کے لیے تیار کرنے میں صرف کی گئی، اس سے بہت کم کشٹ اٹھائے بغیر وہ شعور بیدار کیا جاسکتا تھا جو باہمی طور پر لوگوں کو پر امن رہ کر اپنے حقوق کے لیے سیاسی جد و جہد پر آمادہ کرتا۔ اب بھی البتہ انھیں یہی کرنا چاہیے۔