مسئلۂِ کشمیر کی مذہبی تجسیم
از، خورشید ندیم
پاکستان کے ایک وفاقی وزیر نے بھی کشمیر کی صورتِ حال کو غزوۂِ ہند کا آغاز قرار دے دیا ہے۔ مسئلۂِ کشمیر کی یہ مذہبی تجسیم، کیا اہلِ کشمیر کے دکھو ں کا مداوا کر سکے گی؟
تاریخ یہ ہے کہ مذہب جب اقتدار کی کش مکش میں فریق بنتا ہے تو پھر اپنے جوہر سے محروم ہو جاتا ہے۔ مذہب کا جوہر کیا ہے؟ انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ۔ اسلام کی نظرمیں اُخروی کام یابی کے لیے تیاری۔
اہلِ مذہب نے اقتدارکو اپنا مقصد بنایا تو معاشرہ کیا تبدیل ہوتا، اقتدار کی کش مکش میں ان کا اپنا اخلاقی وجود ہی تحلیل ہو گیا۔
انیسویں صدی اِزمز Isms کی صدی ہے۔ نیشنل ازم، کیمونزم، فاشزم۔ یہ نظریاتی سیاست کا آغازہے۔ یہ سیاست کو ایک نظریے کے تابع کرنے کا عمل ہے۔ پہلے ایک نظریہ (Ideology)، پھر اس کے پیرو کاروں کی تنظیم۔ پھر انہیں اقتدار تک پہنچانے کی جد و جہد۔
تصور یہ ہے کہ ریاست کو ایک نظریاتی وجود مان لیا جائے۔ مثال کے طور پر کیمونزم کا نظریہ ہے کہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور انفرادی ملکیت انسانی مسائل کے حقیقی اسباب ہیں۔ انسانوں کو ایک ایسی ریاست چاہیے جو اس نظریے پر قائم ہو اور بالجبر اس تقسیم کو ختم کر دے۔ اس سے انسانی دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔ کیمونزم کی اصل یہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، اس کی فروعات ہیں۔
اہلِ مذہب جب سیاست میں متحرک ہوئے تو انہوں نے نظمِ اجتماعی کی اساسات مذہب میں تلاش کیں۔ جہاں یہ موجود نہیں تھیں، وہاں مذہبی عصبیت کو آواز دی گئی اور ایک مذہب کے ماننے والوں کو کسی دوسرے گروہ کے خلاف لا کھڑا کیا گیا۔ جیسے مسیحیت۔
سینٹ پال نے، سید نا مسیحؑ کے پیرو کاروں کو شریعت کی پا بندیوں سے آزاد کر دیا۔ اب مسیحی معاشرے میں نفاذِ شریعت کی بحث ختم ہو گئی۔ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تو اہلِ کلیسا نے مذہبی عصبیت کو آواز دی، اور مسیحی عصبیت کو مسلم عصبیت کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔
یہی معاملہ ہندو مَت کا ہے۔ اس کی سیاسی تجسیم ہوئی تو ہندو توا جیسی تعبیرات سامنے آئیں۔ اس کی بنیاد ہندو عصبیت ہے۔ یہ ہندو قانون کے نفاذ کا سوال نہیں، دوسرے گروہوں پر ہندو تصورات کو بالجبر نافذ کرنا ہے۔ جیسے گائے آپ کے لیے مقدس ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ اسے سماجی، یا ریاستی طاقت سے دوسروں کے لیے بھی مقدس بنا دیں۔
یہودیت اور اسلام کی تاریخ مختلف ہے۔ دونوں کا وَرثہ مذہب بھی ہے، اور ریاست بھی۔ بنی اسرائیل کو زمین پر اقتدار ملا اور بنی اسماعیل کو بھی۔ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر کا وَرثہ، مذہب ہے، ریاست نہیں۔ یہودیوں نے انہیں ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ یوں مسیحیت ایک الگ تشخص کے ساتھ مذہب بن گئی جس کے خد و خال کا تعین سینٹ پال نے کیا۔
مسیحیت کی مذہبی تاریخ میں ریاست نہیں، یہ الگ بات کہ جب روم کے حکم رانوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو طاقت کے زور پر دوسروں کو مسیحی بنایا۔ اسی سے پاپائیت وجود میں آئی۔
پاپائیت مذہب کے بالجبر نفاذ کا نا گزیر نتیجہ ہے۔ ایران میں تو اسلام ایک عوامی انقلاب کی شکل میں آیا، لیکن وہ بھی پاپائیت میں بدل گیا۔ طالبان کا افغانستان بھی ایسا ہی تھا، جس میں اقتدار مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھا۔
پاکستان میں ایک نیا تجربہ کیا گیا۔ یہ قومی ریاست کو مذہبی لبادہ پہناننے کی کوشش تھی۔ اس کا نتیجہ ایک فکری پراگندگی ہے جو ستر برس سے نہ صرف قائم ہے، بَل کہ روز افزُوں ہے۔
ایک نہ ختم ہونے والی بحث یہ ہے کہ قائد اعظم نے کہیں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا اور وہ اسلام کا نفاذ چاہتے تھے۔ اسے یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم کے مؤقف کی تاریخی حیثیت مُسلّمہ ہے لیکن اصل اہمیت اس سوال کی ہے کہ جمہور کیا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم بھی ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں جمہور کی رائے ہی نظام کی تشکیل میں بنیاد بنے۔
بَر سبیلِ تذکرہ اسے بھی سمجھنا چاہیے کہ قائد اعظم جب اسلام کو راہنما سمجھتے تھے تو اس سے ان کی مراد کیا تھی۔ اسلامی ریاست کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے، جس کاایک متعین مفہوم اسلام کی علمی تاریخ میں پایا جاتا ہو۔ یہ علمِ سیاسیات کی اصطلاح ہے جو اسلام کی ایک خاص تعبیر سے پھوٹی جسے سیاسی اسلام کہا جاتا ہے۔ اسے بیسویں صدی میں خلافت کے متبادل کے طور پر اختیار کیا گیا۔
قائدِ اعظم کبھی اس تعبیر سے متعلق نہیں رہے۔ اس لیے جب وہ یہ کہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کی تعلیمات کو راہنما حیثیت حاصل ہوگی تو اس کا مفہوم سیاسی اسلام کی روشنی میں طے نہیں ہو سکتا۔
یہ غیر علمی رویہ ہو گا کہ ہم قائدِ اعظم کے خیالات کو اپنے تصوراتِ ریاست کی روشنی میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ وہ علمی معاملات میں علامہ اقبال کو اپنا راہنما مانتے تھے۔ ہمارے ہاں اقبال کو بھی اسلامی ریاست کے خاص پیراڈائم میں ڈھالنے کی کوشش ہوتی ہے، حالاں کہ ان مباحث میں ان کی منفرد حیثیت ان کے خطبات سے پوری طرح واضح ہے۔
یہ بات کہ پاکستان کو اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک جدید مملکت ہونا چاہیے، علامہ اقبال، علامہ مشرقی، مولانا مودودی، غلام احمد پرویز صاحب سمیت بہت سے لوگ کہ رہے تھے۔ سب کی بات کا مفہوم ایک نہیں ہے۔ قائد اعظم کے بارے میں علامہ مشرقی یا علامہ مشرقی کے بارے میں مولانا مودودی کی آراء پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قائد اعظم چُوں کہ اسلام چاہتے تھے، لہٰذا وہ اور علامہ مشرقی ہم خیال ہیں۔ پرویز صاحب کا کہنا تھا کہ وہ دراصل فکرِ اقبال ہی کے شارح ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کو قبولیتِ عامہ نہیں مل سکی۔
مسلم تاریخ میں، ایک فکری اور سماجی ارتقاء کے نتیجے میں مذہب اور سیاست کے دائرے الگ ہو گئے تھے۔ اسی سے اہلِ سیاست اور علماء کے دو ادارے قائم ہوئے۔ سیاست دانوں نے امورِ مملکت کو سنبھالا اور علماء نے سماج کے اسلامی تشخص کو بر قرار رکھنے کا بِیڑ اٹھایا۔
انہوں نے تمام سماجی طبقات کے لیے انذار کی ذمہ داری ادا کی جس میں حکم ران طبقہ بھی شامل تھے۔ اگر اربابِ اقتدار نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ایک مسلمان حکم ران کا ہونا چاہیے، تو اسے تانذار کیا لیکن کسی عالم نے خود حکم ران بننے کی کوشش نہیں کی۔
یہی تقسمِ فطری ہے۔ اس سے پاپائیت وجود میں نہیں آتی۔ بیسویں صدی میں دین کی جامعیت کا جو تصور سامنے آیا، اس نے علماء اور سیاست دانوں کی تقسیم کو ختم کر دیا۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے کا یہ مطلب سمجھا گیا کہ حکومت کو علماء کے حوالے کر دیا جائے۔ مسلم لیڈر کا یہ تصور سامنے آیا کہ اسے مجتہد ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ششیر زن بھی۔ یہ ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا، اب تک مولوی کو سیاست دان بنانے کی ہر کوشش کا انجام نا کامی ہی نکلا ہے۔
ہمارے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم اس فطری تقسیم کی طرف لوٹ جائیں جو مسلم معاشرے کا تاریخی تجربہ ہے۔ مسیحی معاشرے نے کلیسا اور ایوانِ اقتدار کو الگ کر دیا۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہو گا۔
تاہم یہ فرق پیشِ نظر رہے گا کہ اسلام چند انفرادی عبادات کا نام نہیں ہے۔ وہ سیاسی اور سماجی رویّوں کے بارے میں بھی راہنمائی دیتا ہے۔ اس لیے مسلم سماج کی سیاست و معاشرت، مذہب کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتی۔
ہم سیاسی و سماجی نظام کی تشکیل میں اسلام سے راہنمائی لیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عقل اور تجربے جیسے دیگر ذرائع علم کو اپنے ماخذات سے خارج کر دیں گے۔
مسلم معاشرے کو اس تقسیم کی طرف جانا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ت یونیسیا میں اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے میں شاید دس سال مزید لگ جائیں۔ ہمارا مذہبی ذھن اسلامی ریاست کے تصورکی گرفت میں ہے۔ محمد خان جیسے ہمارے بعض وُزَراء بھی ان ہی میں سے ہیں۔ اس لیے وہ کشمیر کی نئی صورتِ حال کو غزوۂِ ہند کے آغاز سے تعبیر کر ہے ہیں۔
غزوۂِ ہند کی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت پر اہلِ علم نے سوالات اٹھائے ہیں۔ اس سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے، میں مسئلۂِ کشمیر کی مذہبی تجسیم کو خود کشمیریوں کے لیے خطر ناک سمجھتا ہوں۔ اس کا پہلا نتیجہ اس عالم گیر عوامی حمایت سے محرومی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف پیدا ہوئی ہے۔