کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ ہفتم)
ترجمہ، نصیر احمد
پراکٹر: (تلخی سے ہنستا ہے) تمھارا انصاف تو برفوں میں لگی بِیئر کو بھی یَخ کر دے۔ (اس کا دھیان اچانک باہر سے آنے والی آوازوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ جُوں ہی وہ دروازے کی طرف مَیری وارن دروازے سے اندر داخل ہوتی ہے، اسے دیکھتے ہی وہ سیدھا اس کی طرف جاتا ہے اور اس کا لبادہ گرفت میں لے لیتا ہے، انتہائی غضب کی حالت میں) میں نے جب تمھیں سیلیم جانے سے منع کیا تھا، تمھیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ تم سیلیم گئیں۔ مخول سمجھا ہے کیا؟ میں تمھیں چابک سے پیٹوں گا اب اگر تم گھر سے باہر نکلیں۔
اچنبھے کی بات یہ ہوئی کہ وہ مزاحمت نہیں کرتی، بل کہ اس کی گرفت میں نیم جان سی ہو جاتی ہے۔
میری وارن: میں بیمار ہوں، مسٹر پراکٹر، میں بیمار ہوں۔ مجھے تنگ نہ کریں۔ آزار نہ پہنچائیں۔ (میری کا یہ نا مانوس رویہ، واضح نا توانی، اس کے چہرے کی زردی پراکٹر کی گرفت ڈھیلی کر دیتے ہیں اور وہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔) میرا دُرُوں لرزاں ہے۔ سارا دن میں کارِ روائیاں دیکھتی رہی …
پراکٹر: (اس کا غصہ دھیما پڑنے لگتا ہے جیسے اس کا تجسس یہ غصہ سکھا رہا ہو.) کون سی کارِ روائیاں؟ اس گھر کی دیکھ بھال کی کارِ روائی کی فرصت تمھیں کب ہو گی جس کے تمھیں سالانہ نو پاؤنڈز دیے جاتے ہیں۔ تمھیں میری بیمار بیوی کا بھی خیال نہیں؟
میری وارن کپڑوں سے بنی ایک گڑیا لے کر ایلزبیتھ کے پاس جاتی ہے جیسے تلافی کی خواہاں ہو۔
میری وارن: آپ کے لیے یہ تحفہ۔ یہ میں نے آج ہی بُنی ہے۔
ایلزبیتھ: (بے چین ہو کر گڑیا دیکھتی ہے) ارے، یہ تو بڑی سُندر بچی ہے۔
میری وارن: (کانپتی ہوئی متزلزل آواز میں) ہم سب کو اک دوجے کی محبت کی ضرورت ہے، بیگم پراکٹر۔
ایلزبیتھ: (میری کی اجنبی حرکات کی وجہ سے حیران ہے) بے شک۔
میری وارن: (کمرے کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے) میں مُنھ اندھیرے جاگ کر گھر کی صفائی کر دوں گی۔ ابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔ (پلٹ کر جانے لگتی ہے۔)
پراکٹر: میری (وہ رک جاتی ہے) کیا یہ سچ ہے کہ چودہ خواتین حراست میں ہیں۔
میری وارن: اب ان کی تعداد انتالیس ہو چکی ہے، جناب (وہ خستہ سی ہو کر سسکیاں بھرنے لگتی ہے اور بیٹھ جاتی ہے، بے طاقت ہو کر)
ایلزبیتھ: کیوں؟ یہ رو کیوں رہی ہے؟ بچی تمھیں کیا دکھ ہے؟
میری وارن: بیگم اوسبرن کو پھانسی دے دیں گے۔
میری کی سسکیوں کے دوران ایک تحیر زدہ وقفہ ہو جاتا ہے۔
پراکٹر: پھانسی (وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑتا ہے) پھانسی دے دیں گے؟
میری وارن: (روتے ہوئے جواب دیتی ہے) جی ہاں۔
پراکٹر: ڈپٹی گورنر اس کی اجازت دے دے گا؟
میری وارن: اسی نے تو سزا سنائی ہے۔ اسی نے(ان کی تشفی کرتے ہوئے) سارا گڈ کو لیکن پھانسی نہیں ہوئی کیوں کہ اس نے اقبالِ جرم کر لیا۔ سنا آپ نے …
پراکٹر: کس جرم کا اقبال کیا؟
میری وارن: کہ اس نے (یہ بات یا د کرتے دہشت زدہ ہو جاتی ہے۔) لوسیفر (شیطان کا ایک نام) سے پیمان باندھا۔ اور اس کی سیاہ کتاب میں اپنا نام درج کیا، اور وعدہ کیا کہ جب تک سقوطِ خداوند نہیں ہوتا وہ مسیحیوں کو ضرر پہنچاتی رہے گی، اور ہم تا ابد جہنم پوجتے رہیں گے۔
وقفہ
پراکٹر: تم جانتی ہو کہ وہ افترے باندھتی ہے۔ تم نے عدالت کو بتایا نہیں؟
میری وارن: کیسے بتاتی؟ بھری عدالت میں اس نے تو ہم سب کی ٹھنڈی (حلق) گھونپ رکھی تھی۔
پراکٹر: ٹھنڈی دبائی ہوئی تھی ؟ کیسے؟
پراکٹر: اپنی بد رُوح کے ذریعے۔
ایلزبیتھ: آہ مَیری یقیناً تم …
میری وارن: (اس کے لہجے میں تحقیر دَر آتی ہے) اس نے مجھے کئی بار جان سے مارنے کی کوشش کی ہے، بیگم پراکٹر۔
ایلزبیتھ: تم نے اس بات کا پہلے تو ذکر نہیں کیا۔
میری وارن: خبر ہوتی تو کرتی۔ مجھے تو ابھی معلوم ہوا ہے۔ جب وہ عدالت میں آئی تو میں نے سوچا میں اس پر الزام نہیں لگاؤں گی کہ بے چاری کھڈ میں سوتی ہے، بوڑھی اور غریب ہے۔ لیکن وہ عدالت میں بیٹھی سب کو مسلسل جھٹلا رہی تھی۔ پھر مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے ایک دھندلی سی سردی میری کمر میں گھس رہی تھی۔ میری کھوپڑی کا ماس رینگنے لگا تھا اور میری سانسیں گھٹنے لگی تھیں۔ پھر سِحَر زدہ ہو کر میں نے اک چیختی صدا سنی، میری اپنی صدا اور مجھے سب کچھ یاد آ گیا جو اس نے میرے خلاف کیا تھا۔
ایلزبیتھ: اور اس نے تمھارے خلاف کیا کیا تھا؟
میری وارن: (جیسے اس پر نہایت خفیہ راز مُنکشف ہو رہے ہوں) وہ اس در پر، بیگم پراکٹر، روٹی اور سیبوں کی شراب مانگنے کئی دفعہ آئی تھی۔ اور جب بھی میں اسے دھتکارتی، وہ مُنھ ہی مُنھ میں کچھ بڑبڑاتی۔
ایلزبیتھ: بھوکی تھی اور اپنی غربت کے بارے میں کچھ بڑبڑائی ہو گی۔
میری وارن: مگر وہ بڑبڑاتی کیا تھی؟ آپ کو تو یاد ہو گا بیگم پراکٹر، پچھلے پیر جب وہ دفع ہو گئی تھی تو میرا پیٹ درد سے پھٹنے لگا تھا۔ اور دو دن میں درد میں مبتلا رہی تھی۔ یاد ہے؟
ایلزبیتھ: یاد ہے مگر؟
میری وارن: جب میں نے یہ بات جج ہیتھورن کو بتائی تو انھوں نے اس پوچھا، سارہ گُڈ، تم نے اس لڑکی کو کیا بد دعا تھی کہ یہ لڑکی تمھیں دھتکارنے کے بعد تکلیف میں مبتلا ہو گئی۔ وہ کہنے لگی (بڑھیا کی نقل اتارتی ہے) جنابِ عالی، میں بے چاری کہاں بد دعائیں دیتی ہوں، میں تو صرف احکام کا وِرد کرتی ہوں۔ اب بھی وہی دُہرا رہی ہوں۔
ایلزبیتھ: یہ تو بہت با برکت جواب ہے۔
میری وارن: جی ہاں لیکن پھر جج ہیتھورن نے اس سے کہا ذرا احکام کی تلاوت تو کرو۔ (ان کی طرف والہانہ انداز میں جھکتے ہوئے) لیکن اسے دس میں سے ایک بھی زبانی یاد نہ تھا۔ اس کا احکام سے کیا لینا دینا۔ یوں اس کا سفید جھوٹ پکڑا گیا۔
پراکٹر: پھر اسے سزا ہو گئی۔
میری وارن: (پراکٹر کے مستحکم شکوک جان کر میری تنتنا اٹھتی ہے) سارا کے اقرار کے بعد یہ ہی تو ہونا تھا۔
پراکٹر: لیکن ثبوت کہاں ہے؟
میری وارن: (بے صبری ہو کر خفگی کھاتی ہے) میں نے جناب کو ثبوت بتایا تو ہے، پتھر جیسا پکا ثبوت۔ ججوں نے خود کہا ہے۔
پراکٹر: (چند لمحوں کے توقف کے بعد) میری وارن، اب دو بارہ تم عدالت میں نہیں جاؤ گی۔
میری وارن: جناب میں کہے دیتی ہوں کہ میں تو روز جاؤں گی۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ ہمارے کام کی سنجیدگی کی تفہیم کیوں نہیں کر پا رہے۔
پراکٹر: کیسا کام! مسیحی لڑکیوں کا یہ کام نہیں کہ بوڑھیوں کو پھانسیاں دلواتی پھریں۔
میری وارن: مگر مسٹر پراکٹر انھیں پھانسیاں تو نہیں ہوں گی اگر وہ اپنا جرم قبول کر لیں۔ بس تھوڑے عرصے کے لیے سارا گڈ جیل میں رہے گی۔ (یاد کرتے ہوئے) آپ یہ سن کر دنگ رہ جائیں گے کہ سارا گڈ حاملہ ہے۔
ایلز بیتھ: حاملہ ہے؟ یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں؟ اس کی عمر ساٹھ سال ہے۔
میری وارن: انھوں نے ڈاکٹر گرگز سے معائنہ کروایا تھا۔ واقعی وہ حاملہ ہے۔ اتنے برس پائپ پیتی رہی ہے، کتنی سادہ لگتی تھی لیکن بِناء شوہر کے ہی پیٹ سے ہے۔ لیکن وہ محفوظ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ اس کے معصوم بچے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ مگر کیا یہ عجوبہ نہیں ہے؟ جناب، آپ اس بات کی قدر کریں کہ ہم خدا کا کام کر رہی ہیں۔ اس لیے مجھے روزانہ جانا ہی ہو گا۔ پھر اب تو میں عدالت کی افسر ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں … (سٹیج کے کنارے کی طرف بڑھتی ہے)
پراکٹر: ابھی میں تمھاری افسری نکالے دیتا ہوں۔ (وہ ڈگ بھرتے ہوئے دیوار سے لٹکی چابک اتار لیتا ہے۔)
میری وارن: (دہشت زدہ ہو جاتی ہے لیکن تنی ہوئی اپنے نئے نویلے اقتدار کے تحفظ کی سعی بھی کرتی ہے) اب مجھے کوئی چابک نہیں رسید کر سکتا۔
ایلزبیتھ: (پراکٹر کو بڑھتے ہوئے دیکھ کر جلدی سے کہتی ہے) میری وعدہ کرو کہ تم گھر پر ہی ٹھہرو گی۔
میری وارن: (تھوڑا پیچھے ہٹتی ہے مگر تنی ہوئی کھڑی رہتی ہے؛ اپنا آپ منوانے کے لیے) سیلیم میں شیطان کھل گیا ہے، مسٹر پراکٹر اور ہمیں اسے ڈھونڈنا پڑے گا کہ کہاں چھپا بیٹھا ہے۔
پراکٹر: میں چابک مار مار کر تمھارے اندر کے شیطان کو تو ابھی نکال باہر کروں گا۔ (چابک اٹھائے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ وہ پرے ہٹ جاتی ہے اور چلاتی ہے۔)
میری وارن: (ایلزبیتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،) میں نے ان کی زندگی آج بچائی ہے۔
پراکٹر کی اٹھی ہوئی چابک نیچے آ جاتی ہے اور خاموشی ہو جاتی ہے۔
ایلزبیتھ: (نرمی سے) مجھ پر بھی الزام عائد ہوئے ہیں؟
میری وارن: (تھرتھراتے ہوئے) آپ کا ذکر تو ہوا تھا۔ لیکن میں نے کہہ دیا کہ میں نے کو کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے اپنی آتما کہیں بھیجتے نہیں دیکھا۔چُوں کہ میں آپ کے پاس رہتی ہوں اس لیے وہ الزام مسترد کر دیا گیا۔
ایلیزبیتھ: الزام لگایا کس نے تھا؟
میری وارن: یہ میں نہیں بتا سکتی کیوں کہ قانون کی پا بند ہوں۔ (پراکٹر سے) امید کرتی ہوں کہ اب آپ تضحیک آمیز رویوں سے دست بردار ہو جائیں گے۔ ایک گھنٹا پہلے ہم لوگ چار ججوں اور بادشاہ کے ڈپٹی کے ساتھ ڈنر کر رہی تھیں۔ اب تو آپ کو میرے ساتھ تمیز سے بات کرنی ہو گی۔
پراکٹر: (اک عالمِ وحشت میں میری کے بارے میں نا شائستگی سے مُنھ ٹیڑھا کر کے کچھ بڑبڑاتا ہے) جاؤ، سو جاؤ۔
میری وارن: (پاؤں پٹختی ہے) مسٹر پراکٹر، اب سونے کے لیے مجھے کوئی بھی حکم نہیں دے سکتا۔ میں اب اٹھارہ سال کی، کنواری ہی سہی مگر ایک خاتون ہوں۔
پراکٹر: اچھا، جاگتی رہو، اگر یہی تمھاری اِچھا ہے۔
میری وارن: نہیں، میں سونے جا رہی ہوں۔
پراکٹر: (غصے سے) شب بَہ خیر۔
میری وارن: شب بَہ خیر۔ (خود سے بد گمان، الجھی، بِکھری باہر چلی جاتی ہے، اور ایلزبیتھ اور پراکٹر آنکھیں نکالے اسے گھورتے رہتے ہیں۔)
ایلزبیتھ: (دھیرے سے) آہ، پھندہ، پھندہ، تیار ہو گیا۔
پراکٹر: کوئی پھندہ نہیں۔
ایلیزبیتھ: وہ میری موت چاہتی ہے۔ مجھے ہفتے بھر سے پتا ہے کہ یہی ہو گا۔
پراکٹر: (اسے اپنی بات پر اعتبار نہیں ہے) انھوں نے مسترد کر دیا۔ تم نے سنا نہیں میری کیا کہہ رہی تھی؟
ایلزبیتھ: کل کا کیا پتا؟ وہ میرا نام لیتی رہے گی جب تک میں گرفتار نہیں ہوتی۔
پراکٹر: بیٹھ جاؤ۔
ایلزبیتھ: وہ میری جان لینا چاہتی ہے، جان تم جانتے ہو۔
پراکٹر: میں نے کہا بیٹھ جاؤ (وہ لرزتی ہوئی بیٹھ جاتی ہے۔ وہ اپنے ہوش سنبھالتے دھیرے سے بات کرتا ہے) اب ہمیں ہوشیار رہنا ہو گا، ایلزبیتھ۔
ایلزبیتھ: (تھوڑے تمسخر سے مگر اسے لگتا ہے کہ وہ ہار گئی ہے) بے شک، بے شک۔
پراکٹر: گھبراؤ نہیں۔ میں ایزکائیل چیور سے ملتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ وہ کہہ رہی تھی، یہ سب تو کھیل تھا۔
ایلزبیتھ: بہت سارے لوگ جیل میں بند ہیں۔ میرے خیال میں اب یہ چیور کے بس کی بات نہیں رہی۔ بات اوپر چلی گئی ہے۔ میری مانو تو اب ایبی گیل کے پاس ہی جاؤ۔
پراکٹر: (اسے محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے وجود پر دُرُشتی طاری ہو گئی ہے) اور ایبی گیل سے کیا کہوں؟
ایلیزبیتھ: (شائستگی سے) جان، میری بات مان لو۔ کم سِن لڑکیوں کے بارے میں تمھاری تفہیم نقائص سے بھر پُور ہے۔ یہ سب بستر میں باندھے گئے کسی پیمان کا نتیجہ ہے۔
پراکٹر: (بڑھتے ہوئے غصے سے جھگڑتے ہوئے) کیسا پیمان؟
ایلزبیتھ: بولا گیا پیمان یا خاموشی سے باندھا گیا پیمان۔ اور وہ پیمان اب اس کی جان ہے۔ وہ کسی امید پر ہی تو میری جان کے درپے ہے کیوں کہ وہ میری جگہ لینا چاہتی ہے۔
پراکٹر کا غصہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اس سے کچھ کہا ہی نہیں جاتا۔
ایلزبیتھ: اس امید سے اسے بہت پیار ہے، جان، میں جانتی ہوں۔ ہزاروں نام ہیں لیکن اس نے میرا ہی نام کیوں لیا۔ ایسا نام پکارنے میں خطرے بھی تو ہیں۔ میں بیگم گڈ نہیں ہوں جو کھڈوں میں سوتی ہے اور نہ میں بیگم اوسبرن ہوں جو ایک نشئی کودن ہے۔ اگر اسے کسی مہیب منفعت کا یقین نہ ہوتا تو ایک زمین دار کی بیوی کا نام کبھی نہ لیتی۔ وہ میری جگہ لینا چاہتی ہے، جان۔
پراکٹر: وہ ایسے نہیں سوچ سکتی (مگر وہ جانتا ہے کہ ایلزبیتھ سچ کہہ رہی ہے۔)
ایلزبیتھ: ( عقل مندی سے) جان، تم نے تو اس سے حقارت آمیز سلوک تو نہیں کیا ہو گا؟ تم تو چرچ میں اس کے قریب سے گزرتے وقت شرمانے لگتے ہو۔
پراکٹر: میں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوں۔
ایلزبیتھ: لیکن میرے اندازے میں اس شرم کے وہ کچھ اور ہی مطلب نکالتی ہے۔
پراکٹر: تم کون سے مطالب نکال رہی ہو؟ ایلزبیتھ۔
ایلیزبیتھ: (اس کی تشفی کرتے ہوئے) تم واقعی ہی کچھ شرمندہ ہو جاتے ہو۔ کہ وہاں میں بہت دور ہوتی ہوں اور وہ بہت قریب ہوتی ہے۔
پراکٹر: خاتون، تم مجھے کب جان پاؤ گی؟ اگر میں پتھر ہوتا تو پچھلے سات مہنیے کی ندامت سہتے کب کا تڑخ چکا ہوتا۔
ایلزبیتھ: پھر جا کر اسے کہہ دو کہ وہ گشتی ہے۔ جو بھی پیمان اس نے دل میں بسا رکھے ہیں، انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔
پراکٹر: (دانت پیستے ہوئے) اچھا، تو میں چلا (بندوق کی طرف بڑھتا ہے۔)
ایلزبیتھ: (ڈر کر کانپتے ہوئے) آہ، کتنی بے دلی سے۔
پراکٹر: (اس کی طرف پلٹتا ہے، بندوق ہاتھ میں ہے۔) میں اس پر جنت کے قدیم ترین انگارے سے بھی تند لعنت بھیجوں گا۔ لیکن خدا کے لیے میرا غصہ تم دل میں مت اٹکاؤ۔
ایلزبیتھ: لیکن تمھیں طیش آ ہی کیوں رہا ہے؟ میں نے تو صرف …
پراکٹر: خاتون،تم مجھے اتنا گرا ہوا کیوں سمجھتی ہو؟
ایلزبیتھ: میں نے تو تمھیں کبھی گرا ہوا نہیں کہا۔
پراکٹر: تو پھر تم مجھے پیمان باندھنے کا دوش کیوں دے رہی ہو؟ میں نے اس لڑکی کے ساتھ وہی پیمان باندھے تھے جو گھوڑا گھوڑی سے باندھتا ہے۔
ایلزبیتھ: پھر تمھیں مجھ سے غصے کیوں ہوتے ہو جب میں تمھیں بات توڑنے کا کہتی ہوں۔
پراکٹر: کیوں کہ تم میرے ساتھ فریب کر رہی ہو اور ایک دیانت دار آدمی ہوں۔ لیکن میں اب اور کوئی دلیل نہیں دوں گا۔ میری زندگی کی ایک غلطی کے ساتھ تمھاری مڑی تڑی آتما لپٹی ہوئی ہے۔ بات جانے ہی نہیں دے رہی۔ اور میں اس آتما کو اس غلطی سے کھینچ کر علیحدہ نہیں کر پاؤں گا۔
ایلزبیتھ: تم کرو گے جب تمھیں یہ احساس ہو گا کہ صرف میں تمھاری بیوی ہوں اور کوئی نہیں یا پھر میں تمھاری بیوی نہیں رہوں گی۔ تمھارے من میں اس کے تیر ابھی دھنسے ہیں اور تمھیں اس بات کی خبر ہے، جان پراکٹر، اچھی طرح سے خبر ہے۔
اچانک ہی راہ داری سے ایک ہیولی نمُو دار ہوتا ہے، جیسے اڑ کر آیا ہو۔ وہ اس کی طرف دو تین قدم اٹھاتے ہیں۔ یہ مسٹر ہیل ہے، پہلے سے کافی مختلف، اس کے برتاؤ میں ایک لپک کے ساتھ ساتھ ندامت و تعظیم دونوں شامل ہیں۔
مسٹر ہیل: شام بَہ خیر۔
پراکٹر: (بھونچکا ہو گیا ہے)
ہیل: (ایلزبیتھ) میں نے تمھیں چونکا تو نہیں دیا؟
ایلزبیتھ: نہیں نہیں، بس میں گھوڑوں کے سُمّوں کی آواز سن نہیں پائی۔
ہیل: تم ایک اچھی بیگم ہو پراکٹر۔
پراکٹر: ہاں ایلزبیتھ۔
ہیل: (سر ہلاتا ہے اور پھر کہتا ہے) تم لوگ سونے تو نہیں لگے تھے۔
پراکٹر: (بندوق رکھتے ہوئے) نہیں نہیں (ہیل کمرے کے اور اندر آ جاتا ہے اور پراکٹر اپنی بے تابی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے،) ہمیں بس شام ڈھلے ملاقاتیوں کی عادت نہیں ہے لیکن خوش آمدید تشریف رکھیے جناب۔
ہیل: (بیٹھ جاتا ہے) تم بھی بیٹھ جاؤ، بیگم پراکٹر۔
وہ بھی بیٹھ جاتی ہے لیکن ہیل کو نگاہوں میں ہی رکھتی ہے۔ ہیل کمرے کا جائزہ لے رہا ہے، اس لیے تؤقف ہو جاتا ہے۔
پراکٹر: (خاموشی توڑتے ہوئے) سیبوں کی شراب پِئیں گے، مسٹر ہیل؟
ہیل: نہیں، میرے معدے کو موافق نہیں ہے۔ اور پھر آج رات میں نے کچھ اور سفر کرنے ہیں۔ بیٹھ جاؤ، جناب (پراکٹر بیٹھ جاتا ہے) زیادہ وقت نہیں لوں گا، تم سے کچھ کام ہے۔
پراکٹر: عدالت کا کام؟
ہیل: میں خود سے آیا ہوں، عدالت کے حکم پر نہیں آیا۔ سنو (وہ اپنا ہونٹ تر کرتا ہے۔) مجھے نہیں پتا کہ تمھیں علم ہے کہ نہیں کہ تمھاری بیوی کا عدالت میں ذکر ہوا ہے۔
پراکٹر: جناب، مجھے علم ہے، ہماری میری وارن نے ہمیں بتایا۔ ہم کافی حیران ہیں اس بات پر۔
ہیل: جیسا کہ تم جانتے ہو میں یہاں اجنبی ہوں۔ اور اپنی بے خبری کی وجہ سے ان ملزموں کے بارے میں جو عدالت میں لائے جاتے ہیں واضح آراء قائم کرنا میرے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے دو پہر سے اب رات تک میں گھر گھر جاتا رہا ہوں۔ ابھی ریبیکا نرس کے ہاں سے آ رہا ہوں اور …
ایلزبیتھ: (دنگ ہو جاتی ہے) ریبیکا پر بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے؟
ہیل: خدا نہ کرے اس جیسی پر فردِ جرم عائد ہو، مگر ذکر اس کابھی ہوا ہے۔
ایلزبیتھ: (ہنسنے کی کوشش کرتی ہے) مجھے یقین ہے کہ آپ یہ بات نہیں تسلیم کریں گے کہ ریبیکا نرس نے شیطان کے ساتھ کچھ آمد ورفت کی ہے۔
ہیل: خاتون، ایسا ممکن ہے۔
پراکٹر: (حیران ہو کر) یقینًا، آپ ایسا کہہ تو رہے ہیں مگر آپ ایسا مانتے نہیں۔
ہیل: مسٹر عجیب سمے آن پڑا ہے۔ اب تو شاید کسی کو بھی شک نہیں رہا کہ تیرگی کی قوتیں جمع ہو کر اس گاؤں پر اپنا عِفریتی حملہ کر چکی ہیں۔ اتنے ثبوت مل چکے ہیں کہ اس بات کو جھٹلانا نا ممکن ہو گیا ہے۔ تم مجھ سے متفق ہو ناں؟
پراکٹر: (کتراتے ہوئے) مجھے اس سب کی کچھ خبر نہیں ہے۔ لیکن یہ ماننا بہت ہی مشکل ہے کہ ستر سال کی احسن عبادتوں کے بعد بھی وہ خاتون شیطان کی خفیہ کتیا ہے۔
ہیل: ہاں، مگر تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ شیطان مکار ہے۔ تاہم، ابھی اس پر الزام عائد نہیں ہوا اور میں جانتا ہوں، ہو گا بھی نہیں۔
(وقفہ) جناب اس گھر کے مسیحی کردار کے بارے میں چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، اگر تم اجازت دو۔