پیغمبری لینے گئے تھے اور آگ مل گئی!
از، طارق احمد صدیقی
اکبر کے اس شعر کو اکثر فلسفیوں کی مذمت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اگر فلسفی نہ ہوتا تو انسانی تہذیب اس درجہ ترقی کو بھی نہ پہنچتی۔
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
فلسفی فطرت کے حقائق اور زندگی کے راز کو فاش کرنا چاہتا ہے، اور اپنے اس عمل میں وہ اصل راز تو اب تک فاش نہ کر سکا لیکن بہت سے قوانین اس کو ایسے معلوم ہو گئے جن کا استعمال اس نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا۔
فلسفہ اور سائنس میں مذہب کی طرح نہیں ہوتا کہ آگ لینے گئے تھے اور یپغمبری مل گئی، بَل کہ، یوں ہوتا ہے کہ پیغمبری لینے گئے تھے اور آگ مل گئی! چُناں چِہ مادہ کے سب سے چھوٹے ذرے کی تلاش فلسفیوں نے فطرت کے حقائق کو معلوم کرنے کی غرض سے ہی کی، اور پھر اِسی دھن میں ایٹم کے مزید ما تحتی ذرات کی تحقیق بھی کی۔ حالاں کہ اس کے با وُجُود کائنات کا راز فاش نہ ہو سکا، لیکن اس تلاش و تحقیق کا نتیجہ ایٹمی انرجی کی شکل میں نکلا جس سے خلقِ خدا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
اس لیے پہلی اور آخری حقیقت کا سراغ یا خدا ملے نہ ملے، لیکن بجلی تو ملے کم سے کم۔ لیکن یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی تلاش کا یہ انعام فلسفی ہی کو دیا گیا کہ فطرت اس کے لیے مُسخّر کر دی گئی۔ اگر فلسفی بے چارہ آنکھ بند کر کے ایمان لایا ہوتا تو لَن ترانی بھی نہ سن سکتا۔
فلسفی خدا کو مانے یا نہ مانے, اس کو خدا ملے یا نہ ملے، لیکن اس کا جذبہ کتنا صادق اور عزم کتنا مستحکم ہے۔ یہ صدق و صفا اور قلب کی یک سُوئی سکھائے گئے طوطے کو حاصل ہو سکتی ہے؟ اسی دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسفی کی تلاش و تحقیق اور شب و روز کی علمی بحثیں اس کو اپنے جادۂِ مستقیم پر لیے جا رہی ہیں۔
خدا کی تلاش کے موضوع پر ایک اور شعر ہے:
اٹھو صنم کدے والو، تلاش لازم ہے
ادھر ہی لوٹ پڑیں گے اگر خدا نہ ملا
حالاں کہ یہ مؤحدانہ نقطۂِ نظر سے کہا گیا ہے لیکن اس میں کم سے کم تلاش و تحقیق کی بات تو ہے۔ حالاں کہ فلسفی اس سے بھی متفق نہیں۔ اگر صنم سے دل لگ گیا، محبت سچی ہے، تو صنم کدے سے اٹھنے کی کیا ضرورت؟ اگر صنم کی کوئی حقیقت نہیں تو خدا کی تلاش میں نکلنا ضروری ہے۔ اور اگر خدا نہ ملا تو پھر صنم کدے میں لوٹنا کیا معنی؟ ہم تو اپنے صنم کو بے حقیقت مان کر چلے تھے۔ اس لیے خدا کی تلاش میں نا کامی کے با وُجُود ہم حقیقت کی اپنی تلاش جاری رکھیں گے۔
حقیقت جس شکل میں ہو، یا بے شکل ہی ہو، اس کو تسلیم کرنا ہی فلسفیانہ تحقیق ہے۔ اگر خدا نہ ملا تو اس کی جگہ پر کوئی تو حقیقت براجمان ہو گی۔ بس اسی کو تسلیم کرنا ہے۔
حالاں کہ فلسفیانہ تحقیق کہتی ہے کہ جس طرح پتھر کے صنم، جو مادی نوعیت رکھتے ہیں، خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتے اسی طرح خود لفظ خدا بھی ازلی و ابدی حقیقت کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔ یہ تین حروف کے مجموعے پر مبنی خدا کی اصطلاح تو خود ایک صنم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک صنم پتھر کا ہے، اور دوسرا اصوات کا۔ چُناں چِہ بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ اس کو کسی نام سے مت پکارو۔ کوئی نام اس کی ترجمانی نہیں کر سکتا، کیوں کہ اس کا کوئی ذاتی نام ہو ہی نہیں سکتا۔ نام تو انسان رکھتا ہے اپنی اولاد کا، ان چیزوں کا جن کو وہ دیکھتا ہے، جس کو جسمانی آنکھوں سے نہ دیکھا اور نہ جسمانی کانوں سے سنا، اس کا نام رکھنا ٹھیک نہیں۔ بس چشمِ بصیرت کھول کر دیکھو، وہ خود تم کو اپنے اندر مل جائے گا۔
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
خارج میں خدا کو کیوں ڈھونڈتے ہو۔ وہ تو تمہارے باطن میں ہی موجود ہے۔ گردن جھکانے کی بات ہے۔ تو فلسفی کا ایسی بحثوں کا کونہ کونہ دیکھا بھالا ہے۔ مذہب سے لے کر تَصوُّف تک اس نے سب پڑھا اور سمجھا ہے، اور سمجھا ہی نہیں، اس بحرِ ذخار کا وہ شناور ہے۔ اور اس کو اکبر کہہ رہے ہیں کہ خدا نہیں ملتا۔ حالاں کِہ آج کل کے مذہبی لوگ فلسفی ہی کی پیدا کردہ سائنس کی تحقیقات پڑھ کر کہہ رہے ہیں کہ مادہ کا وُجُود تو محض فرضی و خیالی ہے! اور سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے! سبحان اللہ، کیا قلابازی ہے!