تحریکِ انصاف کا نو جوان اب کہاں جائے؟
عمران خان صاحب نے نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو سیاسی اعتبار سے متحرک کیا ہے۔ ایسے نو جوان جنہیں سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔
اس عدم دل چسپی کے اسباب متنوع تھے۔ سیاسی عمل اور مباحث سے وہ دور تھے کہ تعلیمی نظام اس کا شعور پیدا کرتا ہے نہ ذوق۔ سماجی سطح پر بھی سیاسی تربیت کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔
نئی نسل ایسی باتوں سے بے خبر ہے کہ آئین کیا ہو تا ہے اور ایک مستحکم سماج کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے۔ پھر اہلِ سیاست کے بارے میں ایک عمومی تاثر کہ وہ بد عنوان ہیں اور ان سے خیر کی کوئی امید نہیں۔ نظریاتی سیاست کا خاتمہ بھی اس عدم دل چسپی کی ایک وجہ ہے کہ ماضی میں نظریاتی وابستگی نے نو جوانوں کو سیاسی عمل کا حصہ بنایا تھا۔
عمران خان صاحب نے اُس نسل کو اپنا مخاطب بنایا جو کرکٹر عمران خان کی گرویدہ اور ان کی شخصی وجاہت کی اسیر تھی۔ یہ نسل سماجی کام اور سیاست، دونوں میں کبھی متحرک نہیں تھی۔ عمران خان نے کہا تو ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے سیاسی جماعت بنائی تو سیاست سے عدم مناسبت کے باعث، یہ نسل طویل عرصہ ان سے لا تعلق رہی۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کی شخصی کشش کو ایک طلسم کدے میں بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔
مثال کے طور پر ہسپتال کی تعمیر کو ایک محیرالعقل واقعہ بنا کر پیش کیا گیا۔ دو دن کی تحقیق سے بتایا جا سکتا ہے کہ ہمارے سماج میں اس نوعیت کی کتنی کام یاب کوششیں اس سے پہلے ہو چکیں، جو فی الواقع ششدر کر دینے والی ہیں۔ لوگوں نے انفرادی حیثیت میں ایثار کیا اور اجتماعی طور پر بھی۔ یہی معاملہ نمل یونی ورسٹی کا ہے۔
بتانا یہ ہے کہ ان کی شخصی کشش کو کس طرح ایک سیاسی رومان میں بدلا گیا۔ اب وہ نو جوان سیاست میں بھی ان کا ہم سفر بن گیا جو کبھی ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرتا تھا۔
اس نو جوان نے عمران خان کی محبت میں سیاست کا رخ کیا۔ سیاست کیا ہوتی ہے، سیاسی ادارے کیسے وجود میں آتے ہیں، اسے ان باتوں کی کچھ خبر نہیں تھی۔ اس کے ان گنت شواہد موجود ہیں۔ گیلپ کے بعض سروے ہیں جو بناتے ہیں کہ کس طبقے میں عمران خان کی حمایت ہے اور کیوں ہے۔
ایک دل چسپ شہادت ان نو جوانوں کے ٹی وی انٹرویوز ہیں جو دھرنے کے دوران میں لیے گئے۔ یہ پورے جوش و خروش سے دھرنے میں شریک تھے لیکن اس بات سے مطلقاً بے خبر تھے کہ دھرنے کے نتیجے میں خان صاحب کیسے بر سرِ اقتدار آئیں گے اور عمران خان کا سیاسی پروگرام کیا ہے؟ بعض جواب تو اتنے مضحکہ خیز تھے کہ تا دیر سوشل میڈیا پر تفریح کا سامان بنے رہے۔ اسی کی ایک مثال وفاقی وزیر محترمہ زرتاج گل ہیں جو سمجھتی ہیں کہ بارش بھی خان صاحب کی وجہ سے ہوتی ہے۔
عمران خان صاحب ان نو جوانوں کو دو باتیں باور کرانے میں کام یاب رہے۔ ایک یہ کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ دوسرا یہ کہ شریف خاندان اور زرداری اس کا منبع ہیں۔ شریف خاندان زیادہ ہدف اس لیے بنا کہ وہی ان کے لیے اصل سیاسی چیلنج تھا۔
ان نو جوانوں کا بڑا حصہ وہ ہے جو بیرونِ ملک آباد ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے بارے میں، میرا تاثر یہ ہے کہ ان کا سیاسی فہم حیران کن حد تک سادہ لوحی کا مظہر ہے۔ عمران خان صاحب نے نو جوانوں کی نفسیات کے عین مطابق، ان میں ہیجان پیدا کیا اور پوسٹ-ٹرُوتھ کا حربہ استعمال کیا۔ اس کے لیے انہوں نے اخلاقیات کو بری طرح پامال کیا۔ پوسٹ-ٹرُوتھ نام ہی اخلاقیات سے دست بر داری کا ہے۔
انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو وہ خود اپنے حلقے میں دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جیسے تیسے، بس ایک بار اقتدار تک پہنچ جانا چاہیے۔ اس کے بعد میں سب ٹھیک کر دوں گا۔
شریف خاندان کی مخالفت کا اصل سبب کرپشن نہیں، ان کی سیاسی حیثیت تھی۔ ان کے خیال میں یہی لوگ اقتدار اور ان کے درمیان حائل ہیں۔ اگر انہیں کرپشن سے نفرت ہوتی تو ہر ایسے آدمی سے دور رہتے جس پر کرپشن کا الزام ہے۔
نو جوانوں میں ہیجان پیدا کرنے کے با وجود، بَہ ہر حال وہ اتنی عوامی تائید حاصل نہیں کر سکے کہ جمہوری طریقے سے نواز شریف کو اقتدار سے دور کر سکتے۔ عمران خان اور ان کے سرپرستوں پر 2014ء میں یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی تھی۔ اس کے بعد پلان بی کا آغاز ہوا، جو کامیاب رہا۔
اقتدار کے ایک سال میں، نو جوانوں کے اس طبقے میں فی الجملہ مایوسی پھیلی ہے۔ آسودہ حال لوگوں کا معاملہ الگ ہے کہ ان کا دامن حالات کی آنچ سے بچا رہتا ہے۔ وہ نہیں جانتے ہیں کہ مہنگائی کس چڑیا کا نام ہے۔ عام نو جوان کا معاملہ یہ نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے باپ کو جب ایک بچے کی یونی ورسٹی کی فیس دینا ہوتی ہے تو وہ کس اذیت سے گزرتا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں یہ اذیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
یہ نو جوان اپنے اس مشاہدے کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اب وہ عمران خان کے ساتھ اپنے رومان کا کیا کرے؟
میرا تجزیہ ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے، یہ نوجوان طبقہ تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک وہ ہے جو مایوس ہو کر ایک بار پھر سیاست سے بیگانہ ہو رہا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو ابھی تک یہ خیال کرتا ہے کہ اس نا کامی کا سبب نا اہلی ہے، بد نیتی یا بد دیانتی نہیں۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو شاخِ امید کو ہری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بس ایک آدھ سال میں خوش حالی اس کے دروازے پر دستک دینے والی ہے۔ صحیح سَمت میں پیش قدمی کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ طبقہ اقلیت میں ہے۔
یہ نو جوان، البتہ اس بات میں متفق دکھائی دیتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور شریف خاندان پاکستان کے سب سے کرپٹ لوگ ہیں۔ ان کے لیے یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ کوئی آدمی دیانت دار ہو اور نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو۔ اس لیے مجھ سمیت، وہ ہر ایسے آدمی کو بد دیانت شمار کرتے ہیں جو نواز شریف کے بیانیے کی تائید کرتا ہے۔ یہ بیانیہ کیا ہے، یہ جاننے سے انہیں کوئی دل چسپی نہیں۔
میں اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں۔ میں خود اس سے گزر چکا ہوں۔ جب میں مولانا مودودی کی فکری گرفت میں ہونے کے باعث جماعتِ اسلامی سے قریب تھا تو اسی طرح سوچتا تھا۔ میرے لیے یہ بات نا قابلِ فہم تھی کہ ایک آدمی اسلام سے محبت کرتا ہو اور وہ مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کا مخالف بھی ہو۔ آج میں اسے نہ صرف ممکنات میں سے سمجھتا ہوں بَل کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ایسے فکری ناقدین کو جانتا ہوں جن کی دین داری اور تعلقِ بِاللہ قابلِ رشک ہے۔
ان نو جوانوں کا مستقبل کیا ہے؟ ان کی بڑی تعداد جذباتی ہے لیکن ذہنی طور پر دیانت دار ہے۔ اس میں یہ اخلاقی قوت بھی ہے کہ غلط کو غلط کہہ سکتی اور اپنی پارٹی پر تنقید کر سکتی ہے۔ یہ صلاحیت دیگر سیاسی جماعتوں کے وابستگان میں بہت کم ہے۔ ان نو جوانوں کو مایوسی سے بچانا ضروری ہے۔
ان کے دلوں میں کرپشن اور شریف خاندان سے جو نفرت پیدا کر دی گئی ہے، اس کے باعث سرِ دست یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ عمران خان سے مایوسی انہیں نواز شریف کے بیانیے کا حامی بنا دے گی۔ نواز شریف اس وقت جس بیانیے کے نمائندہ ہیں، اس کی تفہیم کے لیے سیاسی بلوغت ضروری ہے۔ اس کے لیے ان نو جوانوں کو چند سال مزید انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن یہ نوجوان آج کیا کریں؟
جن جہاں دیدہ لوگوں نے عمران خان صاحب کو اپنی امیدوں کا مرکز بنایا اور ان کے لیے فضا ہموار کی اور اب مایوس ہو چکے ہیں، انہیں ان نو جوانوں کی راہنمائی کرنا چاہیے۔ ہم جیسے لوگوں کی بات تو وہ ابھی نہیں سنیں گے کہ ہماری دیانت ان کی نظر میں مشتبہ ہے۔ وہ ان کی بات سن سکتے ہیں جو عمران خان سے مایوس ہیں لیکن نواز شریف یا مریم نواز کو بھی قبول کر نے پر آمادہ نہیں۔
ایسے رائے سازوں کو عمران خان کے نا کام تجربے کی روشنی میں، ان نو جوانوں کو ایک نئی راہ دکھانی چاہیے۔ ایک نئی سیاسی جماعت؟ ایک نئی سوچ؟
از، خورشید ندیم