کیا منٹو محض ایک افسانہ نگار ہے؟
جب ہم منٹو کو محض افسانہ نگار کے روپ میں دیکھتے ہیں تو اکثر ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ پھر رد و قبولیت کی بات آ جاتی ہے۔ کتنے بڑے اور کتنے عامیانہ افسانوں کی بات آ جاتی ہے؛ گویا ردی فروش کا ترازو کھل جاتا ہے جس میں منٹو کے اچھے برے افسانوں کو الگ الگ پلڑوں میں تول کر ان کے قد و قامت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
خود مجھے بھی منٹو کو سب سے بڑا فسانہ نگار سمجھنے میں تامل ہے کہ اسی دور میں راجندر سنگھ بیدی بھی موجود تھے۔ جو فنی پختگی میں منٹو سے بہت آگے تھے۔ اور ان کے ہاں بڑی کہانیوں کی تعداد بھی منٹو سے کہیں زیادہ ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی میں منٹو کو بیدی پر فوقیت دوں گا کیوں کہ میں منٹو کو محض افسانہ نگار نہیں سمجھتا ہوں۔
میری دانست میں منٹو نام ہے ایک طرزِ زندگی کا جو اردو فکشن میں کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی۔ منٹو آج بھی حد درجے relevant ہیں، کیوں کہ وہ اپنے سماج کے ناقد تھے اور اس سے بھی بڑھ کر وہ ایک متحرک اور زندہ ضمیر تھے۔
منٹو کا اصل contribution یہ ہے کہ وہ ایک لکیر ہے جو روشنی کو تاریکی سے جدا کرتی ہے، اور وہ ایک پیمانہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم طے کرسکتے ہیں کہ مخصوص زمان و مکان میں زندگی کرتا سماجی انسان کس حد تک زندہ ہے اور کتنا مرچکا ہے۔
میں آج بھی منٹو کو سامنے رکھ کر آج کے دور میں انسان کی داخلی حالت کو جانچ سکتا ہوں۔ یہ لغو بات ہے کہ منٹو نے محض طوائفوں کی کہانیاں لکھی ہیں۔ انہوں نے طوائفوں کی نہیں دھتکارے ہوئے انسانوں کی کہانیاں لکھی ہیں، کیوں کہ طوائف سب سے زیادہ دھتکاری ہوئی مخلوق ہے۔
لہٰذا یقینی طور پر منٹو کے ہاں اس کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ منٹو کا اصل مقصد ریا کاریا کا پردہ چاک کرنا تھا سو انہوں نے بَہ ظاہر ایک ٹھیک ٹھاک دکھائی دینے والے، معزز اور رنگ بَہ رنگے لبادے اوڑھے ہوئے انسان کے باطن میں جھانکا ہے جو ریا کاری کی تجسیم ہے؛ اور اس کی منافقت، ریا کاری اور بد باطنی کو موضوع بنایا ہے۔
دوسری جانب انہوں نے سماج کے طے کردہ جعلی معیارات کو مسترد کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی دکھایا ہے کہ نیکی کا مرکز جسم نہیں انسان کا داخلی نظام ہے۔ یوں منٹو آج بھی اتنے ترو تازہ اور کار آمد ہیں جتنے اپنے دور میں تھے، بَل کہ دور کی کیا بات کی جائے ہر دور منٹو کا دور ہے کیوں کہ ان کا بنیادی مقدمہ آج بھی اسی شدت کے ساتھ، بَل کہ شاید اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود ہے۔
از، محمد عاطف علیم