جہاں دیوتا ہی امپائر تھا
پتا نہیں کون سی جگہ تھی مگر ایک شخص چٹان سے بندھا تھا۔ اور گدھ اس کا جگر نوچ رہے تھے۔ اور ایک گڈا یہ تماشا دیکھ کر ہنسے جا رہا تھا۔ گڈے کو یوں ہنستے دیکھ کر وہ شخص یہ کہنے لگا:
میں اچھا آدمی نہیں تھا۔ اور شاید مجھے میرے کیے کی سزا مل رہی ہے۔ مگر انسانوں کا دوست میں تھا اور ان کے لیے میں نے آگ چرائی تھی۔ آگ جو دانائی کی علامت بھی ہے۔ اور انسانوں کے لیے آگ چرانے کے جرم میں مجھے یہ سزا ملی ہے۔ مگر تم ایک چھوٹی سی ماٹی کی گڑیا شاہین و شیر کے مغالطے میں گم، انسانوں کے لیے کبھی کچھ اچھا کرنے کی کبھی کچھ کوشش بھی نہیں کرو گے۔
گڈا ہنستے ہنستے آگے بڑھ گیا۔ اور ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں ایک شخص ایک بھاری پتھر پہاڑ پر اونچائی کی طرف دھکیل رہا تھا۔ جیسے ہی وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتا پتھر لڑھک کر نیچے آ جاتا اور اس شخص کو پتھر اونچائی کی طرف پھر دھکیلنا پڑتا۔
گڈا یہ منظر دیکھ کر زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔ گڈے کو قہقہے لگاتے دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا:
میں بھی ایک بہت برا آدمی تھا کیوں کہ اچھا آدمی ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ میں قلہ کوہ پر دیوتاؤں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اور میں ایک خود غرض قاتل تھا جو مسافروں کو لوٹتا تھا۔ لیکن چُوں کہ میں دیوتاؤں کا دوست تھا، اس لیے مجھ سے کس نے باز پُرس کرنی تھی مگر ایک دن مجھے انسانوں پر نا جانے کیوں رحم آ گیا اور میں نے انھیں پانی کا راز بتا دیا تھا اور اس راز کے ارد گرد پیرِ دانا نے پہلی بار تفکر اور تدبر کیا۔ دیوتا غصے میں آ گئے اور میں یہ پتھر دھکیلتا رہتا ہوں جس نے بَہ ہر حال لڑھکنا ہے۔ تم مگر چھوٹے سے ماٹی کے ایک گڈے ہو اور تمھیں انسانوں سے کوئی ہم دردی نہیں ہے، اس لیے تم ایسا کچھ نہیں کرو گے جس سے انسانوں کا بھلا ہو۔
گڈا احمق، احمق، بے وقوف، بے وقوف کہتا ہوا آگے بڑھ گیا اور ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک مکڑی نما خاتون جالا بن رہی تھی۔
گڈے نے ہنستے ہنستے پوچھا تم نے ایسا کیا کیا کہ تمھیں یہ سزا ملی۔ اور وہ مکڑی نما خاتون یہ کہنے لگی:
میں کڑھائی بُنائی میں دیوی سے اچھی ہو گئی تھی جس سے دیوتاؤں کی برتری کا طلسم ٹوٹ گیا تھا۔ دیوتاؤں کا راج ہی اسی بات پر قائم تھا کہ وہ ہم فانیوں سے کام اچھا کر لیتے ہیں۔ ان کے پاس بے پناہ وسائل تھے، بے شمار دولت تھی، بے شمار غلام تھے۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا، لیکن میں پھر بھی دیوی سے اچھا بُن لیتی تھی۔ ایک دن دیوی نے مجھے بُننے کے مقابلے کی دعوت دی۔ امپائر بھی دیوتا تھا اور انسانوں کو میری حمایت کی اجازت بھی نہ تھی لیکن پھر بھی میں دیوی سے جیت گئی۔
اس کی سزا پاتی ہوں، تم مگر ایک کھلونے ہو، تم دیوتاؤں سے مقابلے کی کبھی ہمت نہیں کر پاؤ گے جس کے نتیجے میں انسانوں میں مقابلے کی امید ہی ختم ہو جائے گی اور انسانوں میں انسانوں کا کوئی دوست نہیں رہے گا۔ لیکن جو جالا میں بُن گئی ہوں، وہ شاید کام کر جائے۔
گڈا تھوڑا شرمندہ ہوا مگر پگلی پگلی چلاتا آگے بڑھ گیا اور ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک شخص ایک تالاب میں کھڑا تھا جس کے کنارے سیب کے درخت کی ایک شاخ اس شخص کے سر پر لٹک رہی تھی۔ جُوں ی وہ شخص جھک کر پانی پینے کی کوشش کرتا لہریں سمٹ کر اس سے دور ہو جاتیں اور جیسے ہی جھکی ہی شاخ سے پھل اتارنے کی کوشش کرتا، شاخ اس سے دور ہو جاتی۔ گڈے نے ہنس کر کہا یہ سزائے حسرت تمھیں کیوں ملی؟ تم نے انسانوں کے لیے کیا کرنے کی کوشش کی تھی؟
وہ شخص کہنے لگا:
مجھے انسانوں سے کوئی ہم دردی نہیں تھی مگر میں نے دیوتاؤں کو دھوکا دینے کی جسارت کی تھی اور دیوتا دھوکا کھا بھی گئے تھے۔ مگر اپنا پسندیدہ کھیل کسی اور کو بہتر کھیلتے ہوئے دیکھ کر غضب ناک ہو گئے اور ابدی حسرت میرا مقدر بنا دی۔ دیوتاؤں کو بھی نقصان ہوا کہ اب ان کا کھیل ہر کوئی کھیلتا ہے اور ان سے اچھا کھیلتا ہے مگر دیوتا واہمے میں مبتلا ہیں کہ ان سے کبھی کوئی نہیں جیت سکتا۔ ایک دن دیوتا یہ کھیل ہار جائیں گے مگر تم ایک گڈے ہو، تم کوئی ایسا کھیل نہیں کھیلو گے جس سے انسانوں کو کچھ فائدہ پہنچ جائے۔
گڈے نے اس بار بھی ہنسنے کی کوشش کی۔ اب کی بار اسے اپنی ہنسی کھوکھلی لگی، اور تھوڑی دیر میں یہ بتانا مشکل ہو گیا گڈا ہنس رہا ہے کہ رو رہا ہے۔ شاید گڈے کے دل میں انسانوں کا بھلا کرنے کا کچھ خیال آیا تھا لیکن بھلائی کو نا ممکن جان کر گڈا شاید ہنسنے لگا، شاید رونے لگا۔ گڈے کی رونے جیسی اس ہنسی میں بہت سے سوال چھپے ہیں۔
کیا گڈا انسانوں کے لیے کچھ کرے گا؟
کیا گڈا دیوتاؤں کو چیلنج کرے گا؟
گڈے کو کیا سزا ملے گی؟
کیا انسان دیوتاؤں کے برابر ہو جائیں گے؟
کیا گڈے کی بے رحم ہنسی لوٹ آئے گی؟
کیا گڈا سچ مچ رو دے گا؟
کیا گڈا دیوتا بنے گا؟
کیا گڈا انسان بنے گا؟
کیا گڈا گڈا ہی رہے گا؟
از، نصیر احمد