کیا رات کے خواب سچ بولتے ہیں یا دن کے
کل رات اس نے بہت ڈراؤنے خواب دیکھے۔ رات کے پچھلے پہر ایسے ہی ایک خواب میں کچھ بہت خوفناک دیکھا۔
فوراً سرہانے سے موبائل فون پکڑا۔ نیت تھی کہ خوابوں میں ہارے اور مجروح دوستوں کی خیریت پوچھوں۔ دوسرے ہی لمحے ایک خیال بجلی بن کر کوندا، اس پہر جو حال پوچھوں تو وہ زیادہ ڈر جائیں گے۔
اس نے کرب سینے میں دبا کر رات کو آنکھوں کے سپرد کر دیا۔
صبح کو وہ اٹھا تو اس نے اپنے خوابوں کو اپنے ہاتھ لینے کا فیصلہ کیا۔ کیا یہ رات کے ڈراؤنے خوابوں کے خلاف ردعمل تھا؟
شاید!
اب دن میں اس نے اپنی مرضی کے خواب دیکھے۔ دن میں وہ خواب دیکھ رہا تھا، تو کئی سارے لوگ ڈر گئے۔
رات کے خوابوں میں ڈرے آدمی کا دن میں خواب دیکھنا مجہول عمل البتہ نہیں تھا۔ جو خوابوں پر پہرے بٹھاتے ہیں انہیں ڈر تھا کہ یہ کہیں اپنے خواب اپنے ہاتھ نہ لے لے، دن اور شام کے بیچ کے وقت تعبیر نا ڈُھونڈنا شروع کر دے۔
عالموں کی مدد مانگی گئی۔ عالموں نے بتایا۔ ہر بار کی طرح۔ عالم بتانے میں طاق ہوتے ہیں، بتائے جانے کے فرمائشی بتائی گئی کو پھیلانے میں طاق ہوتے ہیں۔ اس بتائی ہوئی کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی؛ کہا گیا کہ کہ خواب سچے نہیں ہوتے۔ ان کے دیکھتے رہنے سے سے رزق چھن جاتا ہے۔ ایمان جاتا رہتا ہے، اور نکاح وہ تو ہے ہی رشتۂِ نازک!
اچھے اچھے ادیبوں اور دانش وروں نے عالموں کی بات کو ملکی آئین میں شامل کرنے کی ضرورت پر دن رات مضمون رقم کیے، کہانیاں لکھیں۔ اور نقاد کا حافظہ کمزور ہی رہا۔ ربط ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ البتہ سانسیں چلتی رہیں۔