ترقی پسندی کو dogma نہیں بنایا جا سکتا
ما بعد جدیدیت کی فضا سے روشنی لیتی مزاحمت بہت ارتقائی مزاج اور دھیرج رہ کر پیش جانے والی مزاحمت ہے، اور ما بعد جدیدیت ایسا کرنے کے نہ صرف طریقے بتاتی ہے، بَل کہ، اس رستے پر لگے رہنے کی کی مستقل مزاجی بھی مانگتی ہے۔ یہ صرف علمی مزاج ہے، اور تخلیقی طور پر آگے بڑھتے جانے کا نام ہے۔ لیکن اس انداز کی مزاحمت، ذہانت بہت لطیف سطحوں، subtle levels، کی مانگتی ہے۔
ہمارے یہاں کی تنقید نگاری کو دل لگی اور دل چسپی پَرور صفات سے متصف مضمون نویسی سے فرصت نہیں کہ وہ حالیہ کلچرل تنقید کے لیے دل و دماغ کی صلاحیتوں کو لگا سکے، exert، کر سکے۔
بیسویں صدی میں مزاحمت دل کا معاملہ زیادہ رہی ہے، اب یہ دماغ اور مستقل مزاجی کا ساتھ مانگتی۔ ما بعد جدیدیت کے اس قدر dots ہیں کہ وہ سرمئی رنگت میں رہتے رہتے اپنا سیاہ و سفید بُنتی رہتی ہے، تصویر بناتی رہتی ہے۔ ہمارا غالب شعور ابھی سیاہ و سفید کے انہی سانچوں پر مُصر ہے، اور انہی سے تشفی پاتا ہے جو بیسویں صدی کی دین تھے۔ جو نئے شعور میں مصلحت انداز، دھیرج آموز اور مستقل مزاجی کی صورت اجاگر ہوئے ہیں۔ انسانی شعور نامیاتی organism کے استعارے میں کام کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے کسی ایک مرحلے میں قید کر رکھنے، یا اسے وہیں ٹِکے رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی ترقی پسندی کا حالیہ چلن ہے۔ جب کہ بیسویں صدی کی ترقی پسندی خود ایک جمے ہوئے لمحے میں جم چکی ہے۔
مجھے سماجی و سیاسی طور پر محتاط رہتے رہتے، ہمارے یہاں کے ما بعد نو آبادیات کے لکھاریوں کے اندر موجودہ نظام کے خلاف بھی بالواسطہ اوزار دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ جانے ایسا کرتے کرتے وہ اپنے آپ پر خود irony کا نَشتر لگا رہے ہوتے ہی، یا وہی معروف کیفیت کہ لکھتے ہوئے آپ خود لکھے جا رہے ہوتے ہیں۔ وہ نو آبادیات کے آلات و اوزاروں کی تردید کرتے سمے وہی حربے ما بعد نو آبادیاتی ریاست میں ہوتے ہوئے نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی نئے سیاسی و سماجی مراکز اور حاشیوں کی ترتیب بندی تخلیقی طور پر کرنے سے کافی حد تک پہلو تہی کر رہے ہوتے ہی، یا پھر صلاحیت کا مسئلہ ہوتا ہے، یا جس کھیت سے روزی میسر ہے، اس کی نا انصافی پر بھی وہ آگ لگانا پُر خطر سمجھتے ہیں؟ واللہ اعلم
یہ مثال، گو کہ، بالکل اوپر پیش کردہ نُکتے کے لیے کسی طور نہیں پیش کی جا رہی، لیکن اس کو حقیقتِ احوال کی ایک رفتہ نظیر کے طور پر جزوی طور پر لیا جا سکتا ہے۔ موجودہ نظام بھی ہے تو تسلسل نو آبادیات کے سیاسی و سماجی اوزاروں کا، (حسن ناصر اور ساتھیوں کو جب گرفتار کرنے کے لیے جب ما بعد نو آبادیاتی ریاست کے کارندے چھاپے مارتے تھے، یا ایوب خان کے دور میں جب بائیں بازو کے کارکنوں کی گردن دبوچنی ہوتی تھی تو فہرستیں انگریز دور کی ہی کام آتی تھیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ ما بعد نو آبادیاتی ریاست نے بھی سماجی و سیاسی کلاک اور وقت کی حرکت کو دائرہ میں ہی رہنے کے لیے دبوچا ہوا ہے؛ وہی الزام، وہی حربے، بَہ جُز توہینِ رسالت کے tool کی ایجادِ حالیہ کے۔)
از، یاسر چٹھہ