آزادی مارچ اور ترقی پسند حلقوں میں گو مگو کی کیفیت
موجودہ گرم ہوتی ہوئی سیاسی مارچ کی صورتِ حال میں روشن خیال اور معتدل سوچ کے داعی دوستوں کا خیال ہے کہ ترقی پسند فکر کے دوست حکومتِ وقت کے خلاف جاری آزادی مارچ جس کی سر براہی جے یو آئی کے فضل الرحمن کر رہے ہیں۔
اس مارچ کی حمایت نہیں تو کم از کم مخالفت بھی واضح طور پر ترقی پسند سوچ کے سیاسی دوست نہیں کر رہے، جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ انتہا پسند جمیعت علمائے اسلام کے آزادی مارچ کو ترقی پسند سوچ کے حامل افراد کی خاموش حمایت حاصل ہے۔
اس سیاسی گنجلک والے ماحول میں عوام اور خاص طور پر سیاست سے دل چسپی رکھنے والا خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
اوّل اس سوال کو اٹھانے والے وہ دوست ہیں جو سنجیدگی سے اس مبہم صورتِ حال کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوم وہ دوست ہیں جو سیاسی ادراک تو رکھتے ہیں مگر قطعی طور خود کو کسی خاص نقطۂِ نظر سے جوڑنا نہیں چاہتے۔جب کہ سوئم، ان افراد کی سوچ ہے جو سیاست کو سنجیدہ لینے سے گریز کرتے ہوئے تفریحِ طبع، بَل کہ ایک ایونٹ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، اور چہارم، ان افراد کی ذہنی نا توانی ہے جو سیاست کے نشیب و فراز یا اس کی حکمت سے نا واقف VCR کہے جاسکتے ہیں۔
ان چار مذکورہ سوچ کے درمیان مولانا کے آزادی مارچ کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک میں وہ کون سا سیاسی بحران ہے جس کی وجہ سے خاص طور سے جے یو آئی اور بالعموم دیگر اپوزیشن جماعتوں کو آزادی مارچ کی ضرورت پڑی اور یہ بھی کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نیم رضا مندی یا مقرر کردہ ماہ سے پیچھے ہٹنے پر مولانا راضی نہ ہوئے۔
سیاسی پنڈتوں کے نزدیک ملکی و عالمی غالب قوتوں کے تناظر میں فوجی چیف کے ریٹائرمنٹ کی تاریخ 27 نومبر ہے، جب کہ حکومتی اعلامیے کے تناظر میں موجودہ فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کا اعلان نامہ وزیرِ اعظم کے دست خط کے ساتھ جاری کر دیا گیا ہے جس کی آئینی و قانونی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔
چِہ جائی کہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا آئینی و قانونی نوٹس تا حال نہیں نکالا گیا ہے؛ جب کہ دوسری جانب ذرائع کے مطابق فوجی سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومتی سے لے کر ادارتی تحفظات کی چِہ مگوئیاں بھی گردش کر رہی ہیں۔
اس سیاسی منظر نامے میں یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اپنے آزادی مارچ میں حکومت کو سول سُپرَیمیسی قائم کرنے پر آئینی رعایت دینے پر تیار نظر آتی ہے؛ جب کہ دوسری جانب اپوزیشن حکومت سے یہ بھی چاہتی ہے کہ وہ دباؤ کے نتیجے میں کیے گئے فیصلوں کو فوری واپس لے کر اور نیب کی آڑ میں غیر قانونی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ فوری بند کر کے سنجیدہ قانون سازی کی جانب آئے تا کہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے مل جل کر نکالا جائے۔
اسی کے ساتھ اپوزیشن کا واضح مؤقف ہے کہ کسی کی بھی مدتِ ملازمت میں توسیع سے ادارے کے افراد میں مایوسی اور بے یقینی پھیلنے کے عمل سے دور رہا جائے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر ملک میں مہنگائی اور بے روز گاری کے طوفان کو روکنے میں مکمل نا کامی کے بعد موجودہ سیاسی صورتِ حال میں حکومتی کار کردگی ایک ایسا سوالیہ نشان بن چکا ہے جس کا جواب مبینہ سلیکٹیڈ اور اس حکومت کو سلیکٹ کرنے والوں کے پاس بھی نہیں۔
دوسری جانب پیمرا کی آڑ لے کر اظہار کی آزادی پر پا بندی لگانے سے موجودہ حکومت کم زور اور عوام کے علاوہ انسانی حقوق کے طبقوں میں غیر مقبول ہونے کا عمل مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں موجودہ حکومت خود پریشان دکھائی دیتی ہے۔
حکومت کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ ریاست چلانے کے دوران وہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو مختلف احکامات اور نوٹیفیکشن کے ذریعے حکومت کے علم میں لائے بَہ غیر وہ کام کر رہے ہیں جو حکومت کے علم میں بھی نہیں۔
از، وارث رضا