باندیاں بنے رہنے کی ضد چھوڑیے، شہری بنیے
جو پیمرا کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے تازہ دم سرکاری افسروں کو معلوم تو ہو گیا ہو گا کہ کروائے کوئی، بھرے کوئی، بَل کہ ذلت کوئی اور وَٹّے۔ ایسا دو حالیہ کیسوں: ایک حافظ حمداللہ کی شہریت کے معاملے میں، اور دوسرا اینکروں کی نظر بندی کی صورت میں مُنھ چِڑاتا واضح ہے۔
سیاست دان تو اس بِپتا کو کافی دیر سے جانتے ہیں۔
▪︎بھٹو کو قیدی چھڑانے پڑتے ہیں، اور طعنے پھر بھی” اِدھر ہم، اُدھر تم” کی غیر سیاقی، out of context، عباس اطہرانہ اخباری شہ سرخی پڑھنے والے تَھن ترُٹ سیاست بے زار نَو-سیاسیوں کے۔
طالبان کی پنیری لگتی ہے تو ذمے داری قبول کرنے کے لیے بے نظیر بچتی ہیں۔
▪︎فتحِ کشمیر کے کچے خوابوں کا دفتر کھلتا ہے؛ کارگل کہانی سے چُنے پھول سینے پر سجانے کے لیے چھاتی پر کُھرک ہوتی ہے کسی اور کے، اور جب یہی کارگل حلق کی ہڈی بننے لگتا ہے تو کلنٹن سے بے نقط سننے کے لیے کہا جاتا ہے نواز شریف بچانا۔
▪︎بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ہونے والے جرم کو چھپانے کے چکر میں بگڑتی جاتی صورتِ احوال کو سمیٹنے کے لیے چودھری شجاعت اور ساتھیوں کو مذاکرات کے لیے بھیجا جاتا ہے، مگر اپنے گھر کی پیدا وار ستاروں سے سجا طرم خان معاملات کو اپنی اکڑ فوں سے سلجھنے نہیں دیتا۔
▪︎لال مسجد پر سینگ پھنستے ہیں تو مذاکراتی ٹیم کا مذاق بنوانے والے کے لیے وہی پردے دار پیچھے رہتے ہیں۔
▪︎افتخار چودھری کو چھیڑ کر معاملہ پیپلز پارٹی کو جہیز میں دیتے ہیں، پردہ کے شوقین میلے باز… اسی وقت عمر چیمہ پر شدید تشدد کرایا جاتا ہے اور الزام ڈالا جاتا ہے پیپلز پارٹی پر۔ کراچی میں کیبل ٹی وی بند کراتا ہے کوئی عادت باز، اور رجسٹر میں لکھا جاتا ہے پیپلز پارٹی کے۔ کوئٹہ میں ہزارہ پر ظلم ڈھاتے ہیں اثاثے، پر گلے میں کانٹوں کا ہار ڈلتا ہے رئیسانی اور پیپلز پارٹی کے۔
▪︎نواز شریف کا دور آتا ہے۔ لندن سے “نمبر ون پروگرام” بنتے ہیں؛ کزنز، شاہ راہِ دستور اور عدالتِ عظمیٰ کی دیوار پر اپنی مشکوک شلوارین سکھاتے ہیں۔ مرغی اور گندے انڈوں کی بات ہوتی ہے، سِیرل المیدا چپکے سے کہانی لکھتے ہیں۔ کلف لگے بابو لوگ سرِ عام ریجیکٹ، ریجیکٹ کرتے نا عقل کو ہاتھ مارتے ہیں، نا نظم و ضبط کے کسی ذوق کو۔ پھر بعد میں FATF کی ڈانگ دکھائی جاتی ہے تو نا تو تھن ترُٹ نو-سیاست کاروں کو یاد رہتا ہے کہ چند مہینے پہلی یہی تو تھوکا تھا جس کو اب مزے سے چا*نے کا سمے آتا ہے….
▪︎تو اب جو پیمرا PEMRA کو کم از کم حالیہ دو واقعات میں Pampera بنوا کے چھوڑا ہے تو سرکاری افسروں کو بھی پھر واضح تو ہوا ہو گا کہ یہ بھی پردے داری میں میلے دیکھنے کا سلسلہ ہی تو تھا۔ پیمرا کا یہ حال نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور حالیہ خلیفے کی تقریروں کی تصویروں مگر “خاموشیوں” میں بھی سامنے آیا ہے۔
یہ سب کچھ سیکھنے والوں کے لیے ذلت سے لتھڑے وہ پیغامات ہیں کہ دھیرج رہو، اور عقل کرو؛ یوتھیے، پیپلوتھیے اور پٹواریت سے باہر جھانکے، سیاسی کارکن بنیے، سیاسی فہم پالیے… عوام بنیے، شہری بنیے، مفتوحہ ملک کی باندیاں بنے رہنے کی ضد چھوڑیے…
از، یاسر چٹھہ