عمران خان حکم ران اور اپوزیشن کا فرق نا سمجھ سکے
اگر عمران خان اور اُن کے سرپرست چاہتے تو موجود سیاسی بند و بست قائم رہ سکتا تھا۔ ہم سیاسی استحکام کی طرف بڑھ سکتے تھے۔
آزادی مارچ اپنے جوبن پر ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کا کنٹینر قومی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت سب سیاسی جماعتیں اس کا حصہ ہیں۔ بلا شُبہ یہ اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا اور ملک کی تاریخ کا ایک یاد گار سیاسی اجتماع ہے۔ اس سے بیس فی صد افراد بھی اس سے پہلے یہاں جمع نہیں کیے جا سکے تھے۔ جماعتِ اسلامی کا سالانہ اجتماع، بھی ایک بڑا اجتماع تھا۔
عین اِسی وقت گلگت میں خان صاحب بھی خطاب فرما رہے تھے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں جس لب و لہجے میں کلام کیا، اس کے بعد اس مارچ کی کام یابی کے امکانات میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔
جب سیاسی نظام کا چراغ شدید ہوا کی زَد میں ہو اور اس کا محافظ ہوا کی رفتار کو تیز تر کر رہا ہو تو ایسے چراغ کو بجھنے سے کون بچا سکتا ہے؟
یہ سیاسی بند و بست بچ سکتا تھا، اگر خان صاحب یہ ادراک کرتے کہ وہ کوئی مصلِح نہیں، سیاست دان ہیں۔ سیاست امورِ مملکت کو چلانے کا ہنر ہے۔ ریاست سے عوام کا پہلا مطالبہ جان و مال کا تحفظ ہے اور یہ صرف سیاسی و معاشی استحکام سے پورا ہو سکتا ہے۔ عدم استحکام فساد کو جنم دیتا ہے اور پھر عوام کے جان و مال ارزاں ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ یہ جان پاتے تو ان کی پہلی ترجیح سیاسی استحکام ہوتا۔
اپوزیشن کی بڑی دو جماعتیں، خدشات کے با وُجُود، ان کے ساتھ تعاون پر آمادہ تھیں۔ شہباز شریف صاحب نے ایک نئے میثاقِ معیشت کے لیے تعاون کا اعلان کیا تھا۔ آصف علی زرداری نے ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کی پیش کش کی تھی۔ ان جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی قائل کر لیا تھا کہ وہ اس بند و بست کو قبول کر لیں۔ اسی لیے انہوں نے بادلِ نا خواستہ پارلیمنٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگر خان صاحب جان لیتے کہ کرپشن جڑ نہیں، پھل ہے تو بھی نظام چل سکتا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں، جہاں سرمایہ خود ایک قدر ہے، کرپشن کا کُلی خاتمہ ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ جہاں معاشی سر گرمی ہموار نہ ہو اور روز گار کے متبادل ذرائع میسر نہ ہوں، وہاں کرپشن کو ایک ذریعۂِ آمدن، یا روز گار کے طور پر قبولیتِ عامہ حاصل ہو جاتی ہے۔
کرپشن کے خاتمے یا اس میں کمی کا آغاز بھی ایک مستحکم معاشی نظام ہی سے ممکن ہے۔ اگر وہ یہ جان پاتے تو آغاز معاشی استحکام سے کرتے۔ اگر وہ ریاستِ مدینہ کی معاشی حکمتِ عملی کو سمجھ لیتے تو ان پر اس بات کی حکمت واضح ہو جاتی۔
اگر وہ نرگسیت کا شکار نہ ہوتے تو بھی یہ نظام بچ سکتا تھا۔ اس صورت میں انہیں معلوم ہوتا کہ وہ اوتار یا آسمان سے اتری ہوئی کوئی مخلوق نہیں، بَل کہ اخلاقی سطح پر عام آدمی جیسے ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانونِ آزمائش کے تحت ہم سب کو کسی نہ کسی آزمائش میں ڈالا ہے۔
کوئی دولت کی شہوت میں مبتلا ہے تو کوئی جنس کی ہَوَس میں۔ کسی کو اقتدار کا لالچ ہے اور کوئی شہرت کا بھوکا ہے۔ ہم نے اقتدار کی ہَوَس میں مبتلا لوگ دیکھے ہیں جنہیں جنس کی رغبت نہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض کو ایک سے زیادہ آزمائشیں لاحق ہو جاتی ہیں۔
آزمائش کی نوعیت میں فرق ہو سکتا، ورنہ ہم سب عرصہ امتحان میں ہیں۔
نرگسیت پسند اپنی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس قانونِ آزمائش سے صرفِ نظر کر لیتا ہے۔ وہ اپنی آزمائش کو نہیں، دوسروں کی کم زوریوں کو دیکھتا ہے۔ یوں خود پسندی کے حصار میں قید ہو جاتا ہے اور دنیا کے بارے میں ایک غیر حقیقی تصور قائم کر لیتا ہے۔ وہ دوسروں کی توہین سے لذت اٹھاتا ہے۔ خود بھی اس کارِ خیر میں حصہ لیتا ہے اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کام میں طاق ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی تقسیم گہری ہوتی اور بعض اوقات ذاتی دشمنی میں ڈھل جاتی ہے۔
اگر عمران خان صاحب جمہوری اقدار سے واقف ہوتے تو بھی یہ نظام چل جاتا۔ جمہوریت دوسروں کے وجود کو مٹانے کا نہیں، اُن کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ جمہوریت اختلافِ رائے کا احترام سکھاتا ہے۔
خان صاحب نے چاہا کہ سیاسی مخالفین کو نہ صرف اذیت پہنچائیں، بَل کہ انہیں صفحۂِ ہستی سے مٹا دیں۔ ان کا اسلوبِ حکم رانی جارحانہ ہے۔ اس کے ان گنت اور نا قابلِ تردید شواہد ہمارے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ جمعرات کو نیب کے قوانین میں جو ترمیم کی گئی، وہ اسی رجحان کا مظہر ہے۔ پھر میڈیا کی آواز کو جس طرح دبانے کی کوشش کی جار ہی ہے اور سیاسی مخالفین کے لیے جس طرح عرصۂِ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، اس سے بھی جمہوری اقدار سے وابستگی ثابت نہیں ہوتی۔ وہ آج بھی خواہش کرتے ہیں کہ ان کے پاس چین جیسی ریاستی طاقت ہو۔ جس کو چاہیں لٹکا دیں۔
اگر عمران خان حکومت اور اپوزیشن کے فرق کو جان پاتے تو بھی نظام چل جاتا۔ اپوزیشن میں جارحانہ رویے کے لیے ایک حد تک گنجائش ہوتی ہے کہ اشتعال کا حتمی فائدہ اپوزیشن کو ہوتا ہے۔ حکومت کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہوتا ہے۔ وہ تو جلتی پر پانی ڈالتی ہے۔ وہ دوسروں کی سخت بات کو بھی نظر انداز کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی و سیاسی استحکام اس کی ذمے داری ہوتی ہے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتی جس سے لوگوں میں ہیجان پیدا ہو۔
یہاں لوگ حکم رانوں کی تقریروں کا موازنہ سیاست دانوں کی اُن تقاریر سے کرتے ہیں جو انتخابی مہم کے دوران میں کی جاتی ہیں۔ یہ سیاسی حرکیات سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ انتخابی مہم میں سب مبالغہ آمیز گفتگو کرتے ہیں، لیکن انتخابات گزرنے یا حکومت میں آنے کے بعد، سب کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے۔ اس لیے یہ موازنہ غیر سیاسی ہونے کا اظہار ہے۔
عمران خان صاحب، اپوزیشن راہنما اور حکم ران کا فرق ایک سال میں بھی جان نہیں سکے۔ وہ آج بھی خود کو تحریکِ انصاف کا نمائندہ سمجھتے ہیں، پاکستانی عوام کا نہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا، بَہ طورِ حکم ران ان کی ذمے داری ہے۔
یہ کام للکارنے سے نہیں، دوسروں کے احترام سے ہو سکتا ہے۔ اس باب میں یہ عذر قابلِ قبول نہیں کہ چوروں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ان کی طبیعت ابا کرتی ہے۔ ہم دیکھ چکے کہ جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا چور کہتے تھے، انہیں بَہ وقتِ ضرورت گلے لگا لیا اور ان کی طبیعت میں کوئی تکدر پیدا نہیں ہوا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا در اصل اس ایک اگر کا نا گزیر نتیجہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن مسلسل عمران خان اور ان کی جماعت کی تذلیل کا نشانہ بنے۔ انہیں القاب سے پکارا گیا اور اور بار بار ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا۔ اگر آپ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکیں گے تو پھر وہی ردِ عمل ہو گا جو ہو رہا ہے۔ مولانا نے مسلسل ایک سال تیاری کی اور آج وہ میدان میں ہیں۔
سیاسی معرکہ آرائی اپنے حتمی دور میں داخل ہو چکی۔ شہباز شریف صاحب کی تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امیدِ بہار میں، اب بھی شجر ہی سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے سیاست کو جو رخ دے دیا ہے، اس میں یہ اسلوبِ سیاست اب شاید نہ چل سکے۔
مسلم لیگ ن کو بہت جلد کوئی فیصلہ کرنا ہو گا اور نواز شریف کے بیانیے کو اپنی حکمتِ عملی کا مرکز بنانا ہو گا۔ مارچ میں بلاول بھٹو کی تقریر قومی مزاج سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔
مولانا کا کنٹینر اب امیدوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ کنٹینر کی سیاست دو بارہ کنٹینر تک پہنچ چکی۔ ہمارا سفر اب دائرے کا سفر بن چکا۔
از، خورشید ندیم