محمد انور فاروق
دنیا میں بہت کچھ ہے دیکھنے کو، کرنے کو اور سوچنے کو۔ مگر یہ سب کرنے کے لئے جو لوازمات چاہیئں وہ یا تو دستیاب نہیں ہیں اور اگر دستیاب ہیں تو عام آدمی کی دسترس میں نہیں ہیں۔ دنیا میں پینے کے صاف پانی کے ذخائر بہت ہیں مگر ایک چوتھائی آبادی اس سے محروم ہے۔ دنیا میں کھانا بہت ہے مگر آدھی آبادی متوازن غذا سے محروم ہے۔ دنیا میں ہر سال تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر تین چوتھائی آبادی تعلیم سے محروم ہے۔ دنیا کی دولت محض چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ دنیا میں سب کچھ ہے مگر اس سب کچھ کے ساتھ محرومی کا احساس بھی دن بہ دن راسخ ہوتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ بیگانگی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ انسان کا انسان کے ساتھ رشتہ کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انسانی مسائل کے حل کی سنجیدہ اور مخلص کوشش بھی اب عنقا ہو چکی ہے۔
دنیا میں غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سب سے پہلے کپڑے کے دھاگوں میں اترتی ہے اور انہیں زندگی کے رنگوں سے محروم کر دیتی ہے۔ بھر یہ ہی غربت جسم میں اترتی ہے اور چہرے سے زندگی کا نور نوچ پھینکتی ہے اور وہ چہرہ جو شخصیت کا مظہر ہوتا ہے محض حالات کا اخبار بن کے رہ جاتا ہے۔ اگر غربت اور گہری ہو جائے تو تمام انسانی اوصاف ایک ایک کر کے رخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ زندگی اپنا حسن کھو دیتی ہے۔ معاشرے سے انتقام کی خواہش جاگ جاتی ہے۔ آنکھوں میں خوابوں کے بجائے خار اگتے ہیں اور انسانی قدم بے راہروی کی منزلوں کی جانب اٹھ جاتے ہیں۔ حالات کا جبر انسان کو وہ کچھ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جس کا اس نے کبھی زندگی میں سوچا بھی نہیں ہوتا۔ نتیجتا معاشرے میں جرائم بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں یہ سب روز مرہ کا معمول بن جائے اس معاشرے کا مستقبل مخدوش ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں ہر اعلی انسانی وصف ایک کلیشے بن جاتا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مسلسل اذیت بن جاتی ہے۔ ایسی اذیت جس سے نکلنا آسان نہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی کے پاس ایسے کون سے ذرائع یا وسائل ہیں جن کو بروے کار لا کر وہ اس صورتحال سے نکل سکتا ہے یا یوں کہ لیں کہ بہتری کی کو ئی راہ نکال سکتا ہے یا کم از کم اپنے جینے کا جواز تراش سکتا ہے؟ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں اس سوال کا جواب بدل جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب حالات و واقعات اور انسانی ضروریات کی روشنی میں طے ہوتا ہے۔ انسانی ضرورت ہی زندگی کی نئ راہوں کا تعین کرتی ہے اور زندگی کے نئے اسلوب اور ڈھنگ بناتی ہے۔ زندگی میں ہر طرح کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ اگر تلخ تجربات سے تلخی حاصل کرنے کی بجائے تجربے کی گہرائی حاصل کی جائے تو بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی ہے۔ اگر ایک محتاط سروے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کی تما م ترقی یافتہ اقوام نے اس مسلئے کو تعلیم کے ذریعے حل کیا ہے۔
آج پاکستان میں بھی عام آدمی کے پاس حالات کی اس دلدل سے نکلنے کا جو واحد راستہ ہے وہ ہے تعلیم۔ تعلیم حاصل کر کے عام آدمی نہ صرف اپنی زندگی کو غربت کے اندھیروں سے نکال سکتا ہے بلکہ ملکی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردا جاندار طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ راستہ بھی عام آدمی پر بند ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات عام ہے کہ تعلیم حاصل کرنا معاشرے کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر اس بات کو سنجیدگی سے مانتا کوئی نہیں ہے۔ نہ تعلیم حاصل کر نے والے، نہ تعلیم دینے والے اور نہ ہی تعلیمی سہولیات مہیا کرنے والے۔ ہر کسی کے پاس اپنا ہی بنایا ہوا جواز موجود ہے۔ آج کے بچے قوم کا مستقبل ہیں مگر اس مستقبل کی فکر ہے ہی کسے۔ پاکستان میں لاکھوں خاندان غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو سکول کی بجائے کام پر بھیجنے کے لئے مجبور ہیں تو دوسری طرف تعلیم دینے والے اساتذہ کرام حالات سے مجبور ہو کر شعبہ تعلیم میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ اپنے شوق سے کوئی استاد نہیں بنتا خاص طور پر اسکول میں پڑھانے کے لئے۔ تیسری طرف ارباب اقتدار بجٹ میں تعلیم کو جس طرح سے نظر انداز کرتے ہیں اس طرح کی شائد ہی کوئی مثال پوری دنیا میں ملے۔
ہمارا تعلیمی نظام زوال کا شکار ہے۔ اس نظام سے ڈگری والے بہت پیدا ہو رہے ہیں مگر سوچنے والے بہت کم۔ تعلیم کا معیار وقت کے ساتھ ساتھ گرتا جا رہا ہے خاص طور پر پرائمری تعلیم۔ غریب خاندانوں کے بچوں کو جس قسم کی تعلیمی سہولیات آج میسر ہیں کیا وہ ان کو کامیاب پروفیشنلز بنانے کے لئے کافی ہیں؟ مقابلے کے اس دور میں ان بچوں میں کامیاب ٹھہرنے کے لئے جو مناسب استعداد ہونی چاہیے کیا ہمارا تعلیمی نظام وہ استعداد پیدا کر پاتا ہے؟ کیا ان غریب بچوں کا کوئی مستقبل بھی ہے یا نہیں؟ کیا دستیاب تعلیمی سہولیات سے ہم اس قوم کو اس قابل کر سکتے ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک ترقی یافتہ قوم کہلا سکے؟ وقت یہ تقاضا کرتا ہے کہ سنجیدگی سے یہ سوچا جائے کہ ہمارے تعلیمی نظام اور ترقی یافتۃ ملکوں کے تعلیمی نظام میں کیا فرق ہے؟ لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا جائے اور انھیں تعلیم حاصل کر نے کی طرف راغب کیا جائے اور ریاست بھی ایسے مواقع فراہم کرے جس میں ہر تعلیم یافتۃ فرد اپنے علم و ہنر کے ذریعے اس ملک و قو م کی ترقی میں اپنا کردار با عزت طریقے سے ادا کر سکے کیونکہ یہ آخری راستہ ہے عام آدمی کے پاس اور یہ اس قوم کے مستقبل کا سوال بھی ہے۔
اچها لکها. یہ درست ہے کہ عام آدمی کے پاس حالات کی دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ تعلیم ہے اور پاکستان میں سب سے کم توجہ اسی پر دی جاتی ہے. تعلیمی میدان میں حالات ہیں اب تو ہر آدمی کو تعلیم خریدنی پڑ رہی ہے. یہی تو آزادی ہے جو ہم نے 1947 میں حاصل کی. دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کی آزادی.