مدرسہ ڈسکورسز پر اعتراض کیا ہے؟
از، احمد علی کاظمی
میرا تعلق اوّل و آخر مذہبی گھرانے سے ہے۔ والد صاحب جیّد عالم دین تھے۔ خود بھی وفاق المدارس کا سند یافتہ، درسِ نظامی کا فاضل ہوں۔ سکول کی تعلیم ساتھ ساتھ جاری رہی۔ ایف اے کے بعد اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے ایل ایل بی کیا۔ اگلے سال جامعۂِ امداد یہ فیصل آباد سے دورۂِ حدیث مکمل کیا اور اس کے بعد وکالت کی طرف ہی توجُّہ رہی جو آج تک جاری ہے۔
کسی زمانے میں نظریاتی و فکری مباحث میں حصہ لینا دل چسپیوں میں شامل تھا۔ وکالت اور معاش کی بَہ دولت یہ جذبہ اب ماند پڑ چکا ہے۔ فیس بک پر دیکھتے رہتے ہیں کہ مذہبی دنیا میں کیا مشاغل چل رہے ہیں۔ عمار خان ناصر صاحب ایک ثقہ دیوبندی عالمِ دین ہیں جو مدرسہ ڈسکورسز کے عنوان سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ایک پروگرام چلاتے ہیں۔
جو دیکھنے سننے میں آیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ علومِ اسلامیہ میں پختگی پیدا کرنے، مطالَعہ و مکالمہ پر تیار کرنے اور جدید فکری مباحث سے رُو شناس کرانے کی ایک کوشش ہے۔ ہمارے اسلامک یونی ورسٹی سے وابستہ کچھ اساتذہ اور ان کے احباب کو اس پر اعتراض رہتا ہے۔
یہ جدید تعلیم یافتہ اساتذۂِ کرام اور یونی ورسٹیوں سے وابستہ فلسفہ، قانون اور معاشیات کے پروفیسرز کے دلوں میں علومِ اسلامیہ کے حوالے سے جو فکر مندی ہے اور جس کا اظہار اکثر کیا جاتا رہتا ہے، کئی دفعہ عجیب و غریب روَیّوں ہر مُنتج ہوتی ہے۔
یہ راقم جب دورۂِ حدیث کا طالبِ علم تھا تو ایک دن لمز، LUMS، کے شعبۂِ فلسفہ کے استاد ڈاکٹر عبد الباسط کوشل اپنے چند عزیز شاگردوں کے ہم راہ جامعۂِ امدادیہ تشریف لائے۔ کچھ منتخب طلبہ سے ان کی مجلس ہوئی جس میں وہ انتہائی زُعم آمیز لب و لہجے (اردو اور انگریزی کی آمیزش) میں بتانے لگے کہ کیسے الحاد فلسفے کی راہ سے مسلم معاشرے میں پنجے گاڑ چکا ہے اور اہالیانِ مدارس کو اس کی چنداں فکر نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ الحادی فلسفہ کے مقابل ان کے تجویز کردہ فلسفی کون ہیں؛ فرمانے لگے ابولحسن ندوی اور علامہ اقبال۔
مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان جدید تعلیم یافتہ احباب کا کل زورِ مُطالَعہ یہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اقبال یا غزالی۔ مدارس اور علومِ اسلامیہ کا رخ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے شعبوں میں ان کا علمی اثر و رسوخ کم زور ہے، لہٰذا وہ مدرسہ کے طالب علموں کی”سرپرستی” فرمانے کی کوشش فرماتے رہتے ہیں۔
مدارس کے طلبہ کو اپنی توجُّہ علمی پختگی پر رکھنی چاہیے۔ احمد جاوید، محمد دین جوہر اور دیگر ”غیرت مند” اسلامی سکالرز کے ہاں مولانا مودودی، علامہ اقبال اور غزالی کا چربہ ہی ہے جو گذشتہ صدی میں مکمل پِٹ چکا ہے۔ جدید دنیا میں اب اس جی جگہ باقی نہیں ہے اسی لیے ان احباب کی توجہ اب مدارس کی جانب ہے۔
روایتی مذہبی تعلیم اور مذہبی روایت میں جو پختگی اور رسوخ برّ صغیر کے دیوبندی علَماء کے حصے میں آیا ہے، عمار خاں ناصر اس کی بہترین مثال ہیں۔ اگر آپ علومِ اسلامیہ کے طالب علم ہیں تو ایسی علمی قابلیت پیدا کرنا آپ کا مقصد ہونا چاہیے۔ اسلامی یونی ورسٹی کے شعبۂِ قانون سے مولانا مودودی اور عمران احسن نیازی کا اسٹیبلشمنٹ نواز سیاسی لٹریچر ہی ملے گا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ سعودی فنڈنگ اور سعودی صدر کے تحت چلنے والی اسلامک یونی ورسٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے مِن جملہ اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آخر اس مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔