بوٹ پالش کی سرکار
از، وارث رضا
ویسے تو تسمہ پا “بوٹ” ہر جگہ اپنا وجود رکھتے ہیں، ایک وقت تھا کہ دنیا بھر میں اٹالین اسٹائل کے بوٹ اپنی ساخت اور جاذب نظری کی بنیاد پر خاصی شہرت رکھتے تھے، جو اب بھی کسی قدر اپنی ساکھ بچائے ہوئے ہیں۔
مگر بھلا ہو ہمارے اعلیٰ آمرانہ جرنیلی نظام کا کہ انہوں نے اپنے “گھس بیٹھیے” کردار کی بَہ دولت ہر شعبۂِ زندگی میں گھس گھس کر “بوٹ” کی ایسی درگت بنا ڈالی ہے کہ اب “بوٹ” اشاروں کنائیوں سے نکل کر الیکٹرونک میڈیا کے اسٹوڈیوز میں بھی جا گھسے ہیں۔
دوسری جانب جرنیلی نظام کی پرقرش میں “پل کر جوان” ہونے والی نسل عقل و فہم سے اس قدر دور کر دی گئی ہے کہ وہ اب منازل پانے کا مہرہ ہی “بوٹ سرکار” کو سمجھ بیٹھی ہے۔
اگر ہماری بات کی تصدیق درکار ہو تو بوٹ کے ٹھڈے کھا کر زمینی قبضے کے نا خدا اور راتوں رات دولت اور آف شور کمپنیوں کے مالک بننے والے تحریکِ انصاف کے بوٹ کی کرامات سے جتوائے گئے فیصل واوڈا کو دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ وہی فیصل واوڈا ہیں جو “بے پر” کی چھوڑنے کے مشاق رکنِ اسمبلی اور وزیر کی وجہ شہرت رکھتے ہیں۔ کبھی فیصل واوڈا ملک سے ہفتوں میں نوکریاں دلوانے کا بھاشن دیتے نظر آتے ہیں تو کبھی یہ موصوف پولیس کے کاموں میں مداخلت کا سبب بنتے ہیں اور کبھی اپنے بوٹ نما لہجے کے بلند آہنگ سے ارکانِ اسمبلی کے کپڑے اتارنے پر مصر ہوتے ہیں۔
اب جب ان کی حماقتوں کو عوام نے در خور اعتناء نہ سمجھا تو اس “بوٹ بچے” نے “بوٹ” ہی کے کپڑے اتارنے شراوع کر دیے۔
کاشف عباسی کے پروگرام میں فیصل واوڈا کی دیگر شرَکاء کے ساتھ شرکت سے زیادہ اہم سوال پروگرام میں بوٹ کا آنا اور اس بوٹ کا مہمانوں کی میز پر دھڑلے سے رکھنے کا ہے۔
با خبر ذرائع کے مطابق اس پورے پروگرام کے اصل تخلیق کار میجر جنرل تھے، جب کہ فیصل واوڈا کے سہولت کار اے آر وائی کے با اثر مالک کے کہنے پر کاشف عباسی بنے؛ جب کہ دوسری جانب سہولت کاری میں شامل مالکانہ انتظامیہ اور وہ منتظمین تھے جن کا کنٹرول “ڈِلے مشین” پر ہوتا ہے۔
اس پوری صورتِ حال کے علم میں آنے کے بعد ہی اعلیٰ عسکری قیادت حرکت میں آئی اور میجر جنرل آصف غفور کو بَہ غیر پوچھ گچھ محفوظ کر کے صرف تبادلے پر اکتفا کیا گیا۔
جب کہ کاشف عباسی کے پروگرام پر پیمرا کے سویلین قانون کا سہارا لے کر اسے دو ماہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس موقع پر عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کو ختم کرنے کی خاطر اور فوجی اشرافیہ کی کم زوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں”آٹا بحران” کو منظرِ عام پر لایا گیا تا کہ عوام” بوٹ شو* کے مقاصد اور اس کے اسباب و علل سے بے خبر رہیں۔
…
سوال یہ ہے کہ آخر جرنیلی اشرافیہ کو یہ بات فیصل واوڈا کے ذریعے کیوں کہلوانے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کے دو سبب ہیں: پہلا یہ کہ فیصل واوڈا کے راتوں رات دولت مند بننے کے ہنر میں عسکری مدد کے ساتھ وہ تمام راز بھی محفوظ ہیں جو کسی بھی وقت فیصل واوڈا کے لیے گلے کا پھندا ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی واسطے گاہے گاہے عمران خان کے کنٹرول سے باہر فیصل واوڈا کو عسکری سہولیات بھی دی جاتی رہیں۔ انہی سہولیات میں فیصل واوڈا کے امریکی شہری ہونے کے با وُجود الیکشن لڑنے کے کاغذات نام زدگی ریٹرننگ آفیسر سے زبر دستی اور خلافِ قانون منظور کروانے میں سوائے جنریلی اشرافیہ کی مدد کے اور کوئی قوت دکھائی نہیں دیتی؛ جب کہ دوسری جانب فیصل واوڈا کے مدِ مقابل امیدوار نے یہ اعتراض الیکشن کمیشن کے رُو بَہ رُو اٹھایا اور عدالت بھی گیا، مگر طاقت ور اشرافیہ نے فیصل واوڈا کو نہ صرف کاغذات جمع کروانے کی اجازات دلوائی، بل کہ اسے جتوانے کے لیے نتائج کو روک کر اسے فاتح قرار دلوایا اور پھر انہیں وزیر کے عہدے پر بھی رکھا گیا۔
دوسری وجہ میجر جنرل آصف غفور کی میڈیا کنٹرول کرنے کے حوالے سے وہ بڑھتی ہو ئی سرگرمیاں تھیں جو آصف غفور اپنے عہدے کی آڑ میں کرتے پھر رہے تھے۔ جس کی تازہ مثال ملک کے الیکٹرونک میڈیا کے ڈائریکٹر نیوز کی ایسوسی ایشن بنانا اور اس میں غیر صحافی حضرات کو من پسند عہدے بانٹنا تھا۔
قیاس ہے کہ میجر جنرل کی ان کے عہدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور تحریکِ انصاف کی اقتداری ڈور میں لپٹے رہنے کے عمل نے عسکری قیادت کو مجبور کیا کہ وہ فوری طور سے عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے آصف غفور کی خدمات واپس لے تا کہ عوام کو جرنیلی اشرافیہ میں باز پُرس کے عمل کا یقین دلایا جا سکے۔
اب فوجی اشرافیہ کا یہ عمل کس قدر اس کے ترجمان محکمے کو مستقبل میں فائدہ پہنچا پائے گا۔ اصل میں اس گتھی کے نتائج جلد آنا شروع ہوں گے جو کہ مستقبل کی فوجی اشرافیہ کی سیاست میں حد متعین کرنے کا نقطۂِ آغاز بھی ہو سکتے ہیں۔