ناول کا تسبیح والا ہیرو: جنید سیریز از ہمایوں تارڑ

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ناول کا تسبیح والا ہیرو: جنید سیریز از ہمایوں تارڑ

تبصرۂِ کتاب از، ڈاکٹرعرفان شہزاد

جنید سیریز کا پہلا ناول ہمارے دوست اور مہربان، جنید سیریز کے لکھاری جناب ہمایوں تارڑ کی طرف سے موصول ہوا۔ ناول ملتے ہی لے کر جو بیٹھا اور ختم کیے بنا اٹھا نہ گیا۔

کسی کہانی کی کام یابی کے لیے یہ پیمانہ بھی کافی ہے کہ اسے ختم کیے بغیر رہا نہ جائے۔ کہانی شروع سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور آخر تک باندھ کر رکھتی ہے۔ تاہم فکری اور دینی  لحاظ سے ناول کے کئی تصورات قابلِ اعتراض بل کہ انحرافات کے زمرے میں آتے ہیں۔

کہانی اس لحاظ سے قابلِ تعریف ہے کہ اس میں انڈر ورلڈ اور سیکرٹ سروس جیسے پِٹے ہوئے موضوعات کے بَہ جائے ہمارے آج کے دور کے سماجی جرائم کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ہیرو کو ہیرو بنانے کے لیے عام انسانی صلاحیتیوں کو البتہ کافی نہیں سمجھا گیا۔ کہانی کے ہیرو میں یہ غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ماضی اور مستقبل کو اپنے دماغ کے پردے پر کسی فلم کی طرح دیکھ سکتا ہے۔ ہر مشکل میں غیبی مدد ملنے کی ضمانت موجود ہے جو آتی بَہ ہر حال کسی حقیقی انسانی روپ میں ہے۔


اسی موضوع پر متبادل رائے:

جنید سیریز پر ڈاکٹر عرفان شہزاد کی تنقید اور کچھ ضروری وضاحتیں  از، ہمایوں مجاہد تارڑ


زمانۂِ قدیم سے یہ تصور رہا ہے کہ عام انسان ہیرو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی انسان غیر معمولی طور پر نمایاں ہوا بھی ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی غیر معمولی صلاحیت ضرور فرض کی گئی جسے اس کے ہم عصر اگر دریافت نہیں کر پائے تو بعد والے “دریافت” کر لیتے ہیں۔

درحقیقت ہماری ساری تاریخ کے ہیروز میں پائی جانے والی غیر معمولیت بعد کے معقتدین کی ایجادات ہیں۔ اپنے زمانے میں انھیں عام انسانوں کی طرح ہی سمجھا گیا تھا۔ Achilles ایک ٹیلنٹڈ جنگ جُو تھا مگر اس کا ہیرو کا تصور قائم کرنے کے لیے یہ کافی نہیں سمجھا گیا۔ کہانی وضع کی گئی کہ اسے اس کی ماں نے اس کی ایڑھی پکڑ کر ایک مقدس دریا میں اسے سر تا پا ڈبو دیا تھا اس کے جسم پر ہتھیار اثر نہیں کرتے تھے۔ البتہ ایڑھی نہیں ڈوبی تھی یہ غیر محفوظ رہ گئی۔ یہ غیر محفوظ ایڑھی ہی بالآخر اس موت کا باعث بنی۔ Achilles’ heel محاورہ اسی کی یاد گار ہے۔ ایسی ہی کہانیاں سکندرِ اعظم، صلاح الدین ایوبی سے کر آج تک کے نمایاں انسانوں کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔

انسان آج تک یہ باور نہ کر سکا کہ اتنی غیر معمولیت عام انسانوں میں پائی جا سکتی ہے کہ وہ کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ پر حکومت کر لیں، تاریخ کا رخ بدل دیں، یا عالمی جنگیں برپا کرا دیں۔ سٹیفن ہاکنگ جیسے ایک عُضوِ معطل کی دماغی کاوشوں نے ایک دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ممکن تھا آنے والے وقتوں میں کوئی بتاتا کہ ان کے پاس بھی کوئی خفیہ روحانی طاقت تھی جس نے ان سے ایسے کام کروائے مگر وہ تو ہر قسم کی روحانیات کے منکر تھے۔

تاہم، تخیل کی پرواز کی اپنی اہمیت ہے۔ ایک ایسی خیالی دنیا بسانا جو حقیقی وجود نہیں رکھتی انسان کو اکساتی ہے کہ ایسی دنیا ایجاد کرے۔ سُوپر ہیروز کا دور کبھی لدا نہیں۔ انسان ہمیشہ سے ہی فوق بشر بننا چاہتا رہا ہے۔ اسی کاوش میں اس نے دیو مالائی کردار ایجاد کیے جو وقت گرزنے پر حقیقی کردار بن کر ایمان و عقیدہ کا حصہ بن گئے۔

دورِ جدید میں یہ سُوپر مین اور سپائیڈر مین جیسے کرداروں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ شاید اسی جستجو نے سائنس کی حقیقی دنیا میں جدید انسان کو ماضی کے انسان کے مقابلے میں کئی لحاظ سے فو ق بشر بنا دیا ہے۔

والدین اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے جو باتیں جنید سیریز کی اس پہلی کہانی کے اندر ہی بیان ہوئی ہیں وہ یقیناً ایک قابلِ تعریف چیز ہے۔ ہمارے ہاں بچوں سے زیادہ اور بچوں سے پہلے والدین کی تربیت کی ضرورت ہے اور مصنف کو اس کا احساس ہے۔

کہانی میں ہیرو کا مذہبی ہونا بھی کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ ہیرو اگر محبِ وطن (عمران سیریز، جیمز بانڈ وغیرہ) ہو سکتا ہے تو مذہبی بھی ہو سکتا ہے، اور یہ غیر حقیقی بھی نہیں۔ تاہم مذہب کا جو تصور اس کہانی میں پیش کیا گیا ہے وہ، جیسا کہ پیش تر عرض کیا کئی لحاظ سے قابلِ اعتراض، بل کہ انحراف ہے۔

مصنف ہمارے مقامی صوفیانہ مذہبی تصورات سے رومانویت کی حدتک متاثر معلوم ہیں اور مذہب کی اسی تفہیم کو انھوں نے کہانی کی روح میں پِرو کر اپنے قارئین (کچے ذہن کےٹین ایجر قارئین) کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہ معجزات، کَشف و الہامات اور غیبی امداد کی دنیا ہے۔

فکشن میں تخیلاتی رنگ حسن پیدا کرتا ہے۔ سپائیڈر مین کبھی حقیقت میں نہیں ملے گا مگر اس کی فوق بشر طاقت اور چھلانگیں لطف دیتی ہے۔ لیکن یہ حسن تب تک حسن رہتا ہے جب تک قاری کو معلوم ہوتا ہے یہ سب حقیقی نہیں اور وہ ایک غیر حقیقی مگر پُر لطف دنیا کی سیر سے محظوظ ہوتا ہے۔ لیکن جب اس میں مذہب خصوصاً اسلام جیسے واضح تعلیمات رکھنے والے دین کو شامل کیا جاتا ہے تو معاملہ صرف تخیل کا نہیں رہتا۔

اسلام کو شامل کر ہی لیا گیا ہے تو اب مصنف کی ذمے داری ہوتی ہے کہ مذہب کو ویسے پیش کرے جیسا خدا نے بتایا ہے نہ کہ تخیل سے کوئی نیا مذہب اور نیا خدا ایجاد کر ڈالے۔ جنید سیریز کی سب سے بڑی خامی یہی ہے یہاں جو بعض دینی تصورات پیش کیے گئے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

کہانی میں مائی ہاجراں کی توسط سے بتایا گیا ہے جنید جب بھی مشکل میں ہو گا اس کو غیب سے مدد ملے گی۔ غیبی مدد ملنے کی ایسی تعیین تو پیغمبروں کو بھی نصیب نہ ہوئی۔ رسولوں کو خدا کی مدد ملنا یقینی تھا، مگر تعیین وہ بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ہر مشکل میں ملے گی بھی یا نہیں۔

متصوفانہ مذاہب کا سب سے بڑا دشمن خدا کا وہ تصور ہے جو قرآن دیتا ہے۔ یہ خدا کسی کے کہنے میں نہیں آتا۔ اس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ وہ کب کیا کرتا ہے کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ جب کہ انسان تعیین چاہتا ہے۔ اسی تعیین کی ہوَس نے خدا کو حقیقت میں تو نہیں البتہ انسان کے تخیل میں ہزار طرح سے ایک پا بند خدا بنا دیا ہے۔

ناول میں جس دینی تصور کو میں نے انحراف سے تعبیر کیا وہ یہ ہے کہ مصنف نے “ذکر” (مصنف کے مطابق، تسیبح، ورد) کو قرآن اور نماز سمیت ہر عمل کے تقابل میں مخالف کھڑا کر دیا ہے۔ تسبیح کے مقابل ہر چیز کو کم تر قرار دیا ہے۔ عاصم اللہ بخش صاحب کے ذمے “تہمت” دھرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“نماز ایک چیز ہے جو فرض ہے، بہت ضروری ہے، لیکن ولذکر اللہ اکبر … اور اللہ کا ذکر تو بڑی چیز ہے! یعنی نماز سے کہیں درجہ بڑھ کر اور اصل شے اللہ کے ذکر میں رہنا ہے۔ کیسے؟ اس کے کلام کی تلاوت کرتے رہنے سے۔ یہی تسبیح ہے۔ جو شخص اپنے نارمل اوقات میں تسبیح پڑھا کرتا ہے خدا کو ساتھ رکھتا ہے خدا پھر مشکل وقتوں میں اس کے ساتھ رہتا ہے۔”(69)

اسی بات صفحہ 10 پر یوں لکھتے ہیں:

“اور یہ کیوں فرمایا:

“کتاب کی تلاوت کرو، نماز قائم کرو … اور اللہ کا ذکر تو بڑی چیز ہے۔

“قارئین، یہ سب اشارے ثبوت ہیں اس بات کا کہ اچھا عمل، نماز، روزہ، اور تلاوتِ قرآن سے بلند کوئی اور شے ہے اور وہ یہی ذکر ہے۔ تسبیح پڑھنا اسی بلا کانام ہے۔”

ان کا اشارہ غالبا اس آیت کی طرف ہے:

{اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ} [العنكبوت: 45]

اُس کتاب کو پڑھتے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز کا اہتمام رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی یاد بڑی چیزہے۔ (تم اُس پر بھروسا رکھو، اِس لیے کہ) اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو۔

یہ در حقیقت پروفیسر احمد رفیق اختر کے تصورات کے نتائج ہیں۔

مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ” ذکر” کا لفظ سنتے ہی ہندوستانی، پاکستانی ذہن فوراً “تسبیح” کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ذکر کا یہ مفہوم یہاں کی مقامی تفہیم کی پیداوار ہے۔ قرآن کی یہ تفہیم یہ ذہن نظر انداز کر دیتی ہے۔ قرآنِ مجید میں “ذکر” کا مطلب وہی ہے جو اس لفظ کا مطلب ہے، یعنی خدا کو یاد کرنا اور یاد رکھنا۔

جیسے آپ اپنی کسی محبوب شخصیت کو اکثر یاد کرتے ہیں تو ہر چیز میں ہر بات میں، ہر کام کرتے ہوئے اس کو یاد رکھتے ہیں۔ اس کی تصویر دیکھتے ہیں، اسے چومتے ہیں، اس کے خط یا پیغامات نکال کر پڑھتے ہیں، اس کی کوئی نشانی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ یاد اس چیز کا نام ہے۔ خدا کی ذات کسی بھی محبوب شخصیت سے زیادہ پیشِ نظر رہنے کی مستحق ہے۔ وہ خالق ہے، رب ہے، معبود ہے، کار ساز اور پھر وہ جواب دہی کے دن کا مالک کی بھی ہے۔ قرآن کی سطر سطر یہی یاد لاتی ہے۔

صرف محبوبیت ہی نہیں خدا کی یاد کو تخویف کے پہلو سے بھی قرآن میں یاد لایا جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے۔ جب طلبہ کے امتحانات قریب ہوتے ہیں تو امتحان کی فکر (یاد) ہر لمحہ سوتے، جاگتے ان پر چھائی رہتی ہے۔ امتحان کو یاد رکھنے کے لیے کسی ورد کی ضرورت نہیں پڑتی، تلقین کی ضرورت البتہ پڑتی ہے۔ قرآن یہی تلقین کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن خدا قرآن کی بے سمجھی تلاوت کرنے کا نہیں، بل کہ اس میں غور و فکر کرنے کا کہتا ہے۔ اسے بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی تمام نشانیاں اس کی اور اس سے ملاقات کے دن کی یاد دلاتی ہیں۔ تم غافل نہ ہو جانا ورنہ خسارے میں رہو گے۔ خدا کی یہ یاد دہانی قرآن کا سطر سطر اور لفظ لفظ کراتا ہے مگر مصنف فرماتے ہیں کہ “ذکرِ خدا” قرآن سے الگ اور اس سے بہت بلند کوئی چیز ہے!

معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں قرآنِ مجید کی مروجہ بے سمجھ تلاوت مصنف کے پیشِ نظر ہے۔ اس لیے اس بے فائدہ کام کے مقابلے میں انھیں خدا کے نام اور کلام کی تسبیح پڑھنا بہ تر معلوم ہوتا ہے۔ حالاں کہ خدا کی بے دھیان تسبیح بھی نتائج پیدا کرنے کے لحاظ سے ایسے ہی غیر مؤثر رہتی ہے۔

اب نماز کا معاملہ لیجیے۔ کیا یہ خدا کی یاد کے لیے ہی نہیں قائم کی جاتی؟ قرآن مجید ہی میں خدا کہتا ہے کہ

{إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14]

اِس میں شبہ نہیں کہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ سو میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۔

نماز خدا کے ذکر کے علاوہ کیا ہے؟ کس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، اس سے راز و نیاز سے باتیں اور دعائیں کرتے ہیں، وہ خدا نہیں تو اور کون ہے اور یہ خدا کی یاد نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر مصنف فرماتے ہیں کہ نماز ضروری تو ہے لیکن “ذکر” (تسبیح) اس سے کئی درجے بلند چیز ہے۔ بَہ قولِ شخصے کسی چیز کا سب سے برا دفاع اس کا ناقص دفاع کرنا ہے۔ نماز کے ساتھ مصنف نے یہی کیا ہے۔ اس کا درجہ گھٹانے کے لیے اسے ضروری (فرض) مگر کم اہم اور ذکر (تسبیح) کو غیر ضروری مگر زیادہ افضل بنا دیا ہے۔

خدا کےنام کا ورد بھی اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کی ایک بہت محمود صورت ہے۔ مگر ذکر ایک صورت کو دوسروں کے مقابل بل کہ مخالف لانے کی ضرورت کیوں ہے؟

سورۃِ عنکبوت کی مذکورہ بالا آیت کا مطلب اگر چِہ واضح ہےمگر پھر بھی سمجھ لیجیے۔ یہاں خدا کے ذکر کی چند صورتیں بیان کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب خدا کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے لیے یہ سب اور یاد رکھو کہ خدا کی یاد سب سے بڑی چیز ہے، یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ سب تو کرنا ضروری ہے مگر خدا کو بھی یاد کیا کرو کہ خدا کے نام کا ورد ان سب سے کئی درجے بڑی چیز ہے!

نماز روزہ وغیرہ خدا کے ذکر کی وہ صورتیں ہیں جو خود خدا نے مقرر کی ہیں۔ مگر آپ اپنی مقرر کردہ کسی ترتیب کو زیادہ اہم بنا کر خدا کی ترتیب پر فوقیت دے رہے ہیں۔ یہ جرم ہے۔

اس تقابل کے پیچھے مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ وہ آزاد منش صوفیانہ فکر ہے جو خدا کی تسبیح اور ذکر کی بنیاد پر شریعت کی پا بندیوں سے آزادی چاہتی ہے۔

ان کا استدلال یہ ہے کہ نماز روزہ وغیرہ سب خدا کی یاد قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تو ہمیں جب یہ مقام حاصل ہو چکا کہ خدا کی یاد ہمیں ہَمہ وقت رہتی ہے تو پھر ان ظاہری اعمال کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ مقصود یعنی خدا کی یاد تو ہمیں حاصل ہو چکا۔ تاہم آزاد منشی کا معاملہ اگر اس حدتک نہ پہنچا ہو تو نماز روزہ میں کمی کوتاہی پر انھیں زیادہ ندامت نہیں ہوتی کہ ذکر سے تو زبان تر ہے خدا کو تو نہیں بھولے! چُناں چِہ ناول میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مذہبی شخص ہونے کے با وُجود جنید کو نماز پڑھتے ہوئے ایک بار بھی نہیں دکھایا گیا مگر تسبیح مسلسل اس کی زبان پر جاری ہے!

یہ طرزِ فکر خدا کو اپنی مرضی اور شرائط پر ماننے کی آزاد منشی ہے۔ صوفیت کو سب سے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید سے ہی رہا ہے۔ پہلے اس نے اپنے پیرو کاروں کو وظیفوں کی صورت میں قران کا متبادل دے کر قرآن سے بے گانہ کر دیا تھا۔ آج کے جدید دور میں خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں کو وظائف پر لگانا زیادہ مؤثر نہیں رہا تو وظائف کی جگہ قرآن کی آیت کے ورد کو قرآن کی تلاوت سے افضل بنا کر ایک بار پھر قرآن کی اہمیت کم کر دی گئی ہے۔

قرآن سے صوفیاء کی مخاصمت کی وجہ یہی ہے کہ قرآن کی آیاتِ بیّنات ان کے تخیلات کے پر کاٹ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے باطنی تفسیر کا اشغلہ انھیں نے چھوڑا۔ جس میں آزادی سے جس آیت کا جو طبع زاد مطلب لینا چاہتے لے لیتے اور اس پر طُرّہ یہ کہ یہ بھی باور کراتے تھے کہ باطنی معانی ہی اصل معانی ہیں۔

حقیقت مگر یہ ہے کہ ان معانی تک رسائی کے لیے ذہانت اور تخیل کی پرواز در کار ہے کہ نہ کہ علمی مسلمات کے اوزار۔

ناول میں توہمات کو بھی “سائنسی” تاویلات کی مدد سے پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ جناب عاصم اللہ بخش کے سر پر ایک بار پھر تہمت رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

“سفید مرغ خیر و برکت کی علامت ہے” (107) اور اس کا انتساب کسی حدیث سے کیا ہے۔ صوفیاء منہج میں حدیث کی سند اور متن کی صحت جاننے کا تکلف کم ہی کیا جاتا ہے۔

ناول میں رنگوں کا خاص تعارف بھی اسی قبیل سے معلوم ہوتا ہے۔ سرخ، سفید، نیلا، دودھیا رنگوں کو باربار بیان کیا گیا ہے۔ سفید مرغ کا با برکت ہونا بھی اسی کا شاخسانہ ہے؛ یعنی رنگوں میں بھی کوئی تاثیر ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ گہرے بھورے رنگ کا ذکر کیوں نہیں آیا جو پروفیسر احمد رفیق اختر کی طرف سے اپنے متوسلین کے لیے شائع کردہ تسبیح کا خاص رنگ ہے۔

کوشش کی گئی ہے کہ جدید ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے کَشف و کرامات کو قابلِ قبول صورت میں پیش کیا جائے۔ بتایا گیا یہ کہ اہلِ کَشف و کرامات کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے کہ غیب سے کب کیا معلوم ہو جائے مگر کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی موقع نہیں آتا جب ضرورت کے وقت کَشف ہو نہ جاتا ہو۔

راقم کا خیال ہے کہ یہ ناول والدین اور اولاد کی تربیت کے لحاظ سے جہاں مَثبت پہلو اپنے اندر رکھتا ہے وہاں یہ عوام خصوصاً ٹِین ایجرز کی ذہنی، فکری اور شعوری سطح کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب  بن سکتا ہے۔ ہمارا سماج جو پہلے ہی عقل و دلیل اور استدلال کی بَہ جائے تقلید، تسلیم، توہمات، غیبی امداد، خواب، کَشف و کرامات سے متاثر ہے، یہ ناول اسی دھند میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔

اس ناول سے متاثر ہونے والے کچے ذہن کے ٹین ایجرز جہاں سماج کی برائیوں اور سافٹ سکِلز کے بارے میں آگاہ ہوں گے، وہاں فہمِ دین میں کوتاہ، اعمال میں سست، حقیقت کی دنیا کو تصورات کی نظر سے دیکھنے والے، کَشف و الہامات سے متاثر اور غیبی امداد کے منتظر افراد بنیں گے۔

ہمایوں تارڑ صاحب جیسے با صلاحیت اور پُر تاثیر قلم کار کا فکشن اس قوم کی اس سے بہ تر خدمت انجام دے سکتا تھا۔